Sadhu Or Raja - Article No. 913
سادھو اور راجا - تحریر نمبر 913
کسی ملک میں ایک راجا رہتا تھا۔ اس کے دربارمیں ایک مرتبہ ایک سادھو آیا۔ راجا نے اس سے پوچھا:” سادھو مہاراج! دنیا میں رہ کر جو اپنی زندگی صحیح طریقے سے خدا کی عبادت اور لوگوں کی خدمت کرکے گذارتے ہیں وہ بڑے ہیں یا وہ جو دنیا سے دور رہ کر جنگل بیابان میں جابستے ہیں
جمعہ 1 اپریل 2016
سادھونے جواب دیا :” اے راجا! دونو ں ہی اپنی اپنی جگہ بڑاکہلانے کاحق رکھتے ہیں۔“
راجا نے اس کی کوئی مثال پوچھی۔ تو سادھو نے کہا :” ٹھیک ہے لیکن اس کے لیے آپ کو کچھ دن میرے ساتھ سفر کرنا پڑے گا۔“
راجا نے سادھو کی بات مان لی اور وہ دونوں گھومتے گھومتے ایک دن ایک ملک میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک میدان میں کافی مجمع لگا ہو ا ہے۔
(جاری ہے)
پوچھنے پر پتا چلا کہ آج اس ملک کی شہزادی کا سوئمبر ہے۔ وہاں کے راجا نے یہ منادی کروادی تھی کہ:” جس کے ساتھ شہزادی کی شادی ہوگی اسے میری موت کے بعد پوری سلطنت سونپ دی جائے گی اور وہ اس ملک کا راجا کہلائے گا۔
“شہزادی بہت زیادہ خوب صورت تھی اور وہ اپنے ہی جیسے کسی خوب صورت شہزادے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یوں تو سوئمبر میں حصہ لینے کے لیے ایک سے ایک شہزادے آئے لیکن کوئی بھی شہزادی کو پسند نہ آیا۔ تب ہی وہاں ایک نوجوان سادھو آیا۔ راج کماری نے جیسے ہی اس جوان سادھو کو دیکھا اسے پسند کر بیٹھی اور اس کے گلے میں مالا ڈالنے چل پڑی لیکن وہ سادھو وہاں سے جانے لگا۔
تب راجا نے نوجوان سادھو سے کہا :” اگر تم میری بیٹی سے شادی کرلو گے تو میں اسی وقت میری آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا اور میری موت کے بعد تم پورے ملک کے راجا کہلاوگے۔ “
” میں نے تو دنیا کو خیر باد کہہ دیا ہے اب مجھے شادی بیاہ اور دنیا سے کوئی مطلب نہیں۔“ اتنا کہہ کر سادھو وہاں سے چل پڑا۔
نوجوان سادھو کو جاتے ہوئے دیکھ کر شہزادی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ یہ سب منظر راجا اور سادھو دونوں غور سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک جنگل میں جاکر وہ نوجوان سادھو کہیں غائب ہوگیا ۔ شہزادی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔
اسی درخت پر ایک چڑیا اور چڑا اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ سردی کا موسم تھا۔ چڑا نے چڑیا سے کہا:” یہ ہمارے مہمان ہیں ، ہمیں ان کی خاطر مدارات کرنی چاہیے۔ انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ مَیں ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آتی ہوں۔“ یہ کہہ کر چڑا وہاں سے اڑ گیا اور کچھ دیر بعد کہیں سے ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آیا۔ چڑے نے اْس لکڑی کو نیچے گرا دیا اس کے بعد دونوں نے اس میں اور لکڑیاں ڈال کر اسے جلا دیا۔
اس کے بعد چڑیا نے چڑے سے کہا :” انھیں بھوک لگی ہوگی ، لیکن ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اب ہم کیا کریں؟“ یہ سن کر چڑا اسی آگ میں کود پڑا اور بھون گیا۔
چڑیا نے سوچاکہ میں اپنے خاوند کی محنت کو ضائع نہیں جانے دوں گی۔ یہ لوگ تین افراد ہیں۔ جب کہ پرندہ ایک ہی۔ چڑیا بھی آگ میں کودپڑی۔
سادھو نے راجا سے کہا :” دیکھا آپ نے ۔اگر آپ کو دنیا ترک کرنا ہے تو اس نوجوان سادھو کی طرح بنو جس کے لیے اس شہزادی نے محل اور سلطنت چھوڑدی ہے اور اگر دنیا میں رہ کر کچھ اچھا کام بھی کرنا ہے تو چڑیا اور چڑے کی طرح بنو کہ ان لوگوں نے دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کردی ۔
Browse More Moral Stories
خوبصورت تحفہ
Khubsurat Tohfa
عید کے موقع پر
Eid Ke Moqa Par
الماری کا بھوت
Almari Ka Bhoot
عزم اور حوصلہ
Aazm Our Hosla
منگیتا اور لارینا آخری قسط
Mangita Or Larena - Akhri Qist
آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔۔تحریر:مختار احمد
Aam K Aam
Urdu Jokes
ایک کنجوس
Aik Kanjoos
ایک خاتون
Aik khatoon
سنہری موقع
sunehri mauqa
نذیر احمد زاپد حسین سے
Nazir ahmad zapped hussain se
گاہک اور ویٹر
gahak aur waiter
ماہر نفسیات
mahir e nafsiyat
Urdu Paheliyan
بے شک پاؤں کے نیچے آئیں
beshak paon ke neeche aaye
ہاتھ میں پکڑے اور مروڑے
hath ma pakra aur marody
اونچے ٹیلے پر وہ گائے
oonche teely per wo gaye
زباں لٹکا کے ہی باہر وہ
zuban latka ke hi bahr wo har bat kehti hy
صدیوں کا ہے اک گلزار
sadiyon ka hai ek gulzar
دن کا ساتھی ساتھ ہی آیا
din ka sathi sath hi aya