Awam Se Khawas Se Dakhil Hona Aasan Nehin - Article No. 2081

Awam Se Khawas Se Dakhil Hona Aasan Nehin

عوام سے خواص میں داخل ہونا آسان نہیں - تحریر نمبر 2081

ہمارے گھر کے اندر صحن کے ساتھ ملحقہ جگہ پر کاٹھ کباڑ بہت زیادہ مقدار میں موجود تھا۔جو گھر کی زینت پر کافی کاری ضرب لگاتا تھا۔ہم نے کئی بار سوچا کہ اس کاٹھ کباڑ کو کہیں ٹھکانے لگا کر یہاں کوئی فائدہ مند چیز بنائی جائے تاکہ فائدہ بھی ہو اور اس گندگی سے جان بھی چھوٹے۔

بدھ 30 نومبر 2016

ام زبیر طیب:
ہمارے گھر کے اندر صحن کے ساتھ ملحقہ جگہ پر کاٹھ کباڑ بہت زیادہ مقدار میں موجود تھا۔جو گھر کی زینت پر کافی کاری ضرب لگاتا تھا۔ہم نے کئی بار سوچا کہ اس کاٹھ کباڑ کو کہیں ٹھکانے لگا کر یہاں کوئی فائدہ مند چیز بنائی جائے تاکہ فائدہ بھی ہو اور اس گندگی سے جان بھی چھوٹے۔ ایک دن میرے شوہر جی کو یہ تجویز سوجھی کہ اور اس جگہ کو صاف کر کے یہاں جنگلہ لگا کر مرغیاں پال لی جائیں یا بکریاں۔
اس طرح سے ہمیں دیسی انڈے اور دودھ مل جائیں گے اور ہمارے گھر میں صفائی کے مسائل بھی نہ کھڑے ہونگے۔مرغیاں ہر گری پڑی چیز چٹ کر جایا کریں گی اور بکریاں یہاں وہاں کدکڑے لگائیں گی اور خوشی خوشی تازہ دودھ دیں گی۔ روزانہ ملاوٹی دودھ کی قیمت میں اضافہ کا سن کر جو خون جلتا ہے وہ پھر چہرے پہ شادابی کا باعث بنے گا۔

(جاری ہے)

اور اپنے ہمسایوں پہ رعب بھی جمائیں گے کہ ہم تو دیسی انڈے کھاتے ہیں اور خالص دودھ پیتے ہیں اور اب ہم عوام سے خواص میں شامل ہو نے کے لئے ” چھلانگ “ لگانے ہی لگے ہیں۔


اس تجویز کا آنا تھا کہ برسوں سے خوابیدہ کارخانہ قدرت میں حرکت ہوئی اوردودن بعد کھٹ پھٹ کی آواز پہ کھڑکی سے جو جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ٹرالی کاٹھ کباڑ کا بستر گول کرنے آن پہنچی ہے اور صفایا کر رہی ہے۔میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ برسوں سے اس صفائی کا سوچ رہی تھی مگر ذہن میں کوئی تجویز آ ہی نہ رہی تھی۔ ایک ہی دن میں صفائی ہو کر مرغیوں کا ڈربہ بھی بن گیا اور اگلے ہی دن مرغیاں بھی آ گئیں۔
میرے بچے تو مارے خوشی کے چھلانگیں لگا رہے تھے۔” وہ میری مرغی اور وہ میری مرغی “کے شور سے بے چاری مرغیاں بھی تنگ آ گئیں ہوں گی۔ خیر دیسی انڈوں نے فارمی انڈوں کی چھٹی کروا دی اور ہم مرغیوں کی چہل پہل کے عادی ہو گئے۔ بکریوں کا ارادہ ابھی فی الحال منسوخ کر دیا کیونکہ صاف کی گئی جگہ صرف مرغیوں کے لئیے ہی کافی ہو گئی تھی۔
ایک ہفتہ بعد ایکدن باورچی خانے میں حلوہ پکاتے ہوئے چمچہ ایک پلیٹ میں رکھا اور چند منٹوں کے لئے وہاں سے غائب ہو کر جو دوبارہ نمودار ہوئی تو عجب ماجرہ تھا، چمچہ کے اردگرد تین، چار مسٹنڈے چوہے حلوہ کی چاٹ میں مصروف تھے۔
دیکھتے ہی ایک جھرجھری پورے بدن میں دوڑ گئی۔ فوراً ہی ایک چیخ مار کر ہم واپس بھاگے اور چوہے بھی ہماری زور دار چیخ سن کر بھاگ گئے۔ اسی دن شام کو دودھ کے تین چار قطروں پر پھر چوہوں کے ہجوم کو دیکھا تو ماتھا ٹھنکا کہ یا خدا یہ کیا ماجرا ہے؟ خیر ہم نے دو تین چوہے دانیاں لا کر چوہوں کو پھنسانے کی کوشش کی اور کچھ تعداد چوہوں کی جال میں آ بھی گئی مگر یہ تو لگ رہا تھا کہ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے۔

ادھر مرغیاں بڑے مزے سے سارے صحن میں گھومتی پھر رہیں تھیں۔ادھر ہم اتنی ہی جاں فشانی سے چوہوں سے نبرد آزما مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اور یہ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ عذاب ہم پہ کہاں سے اور کس سلسلے میں نازل ہوا ہے۔ کچھ عرصے چوہوں کی لاتعداد مقدار کو کو گھر بدر کرنے کے بعد بھی جب چوہوں کی فوج در فوج میں کسی صورت کمی نہ دکھائی دی تو سوچا کہ پورے گھر میں موجود چوہوں کے بلوں پر ایک ساتھ یلغار کی جائے تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔
گھر کے چاروں طرف چوہے مار دوائی کا چھڑکاؤکیا گیا۔ کچھ دنوں کے لئے سکون ہوا مگر چاردن بعد وہی کہانی یعنی ڈھاک کے تین پات۔
ہماری پڑوسن نے جب ہمیں ہر طرف بہت بھاری مقدار میں چوہے مار دوائی چھڑکتے دیکھا تو اک نیا انکشاف کر دیا کہ چوہے مار دوا کا اتنا استعمال خود ہمارے لئے بہتر نہیں۔ جہاں ان سے مختلف قسم کی الرجیز ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جن میں سرفہرست دمہ ہے وہاں یہ نہ صرف کینسر کا باعث بھی ہو سکتے ہیں بلکہ بانجھپن بھی پیدا کرتے ہیں۔
یا خدا اب کیا کریں۔
اس دوران ہم مسلسل یہ تحقیق کرنے میں بھی مشغول رہے کہ آخر ان چوہوں کو ہمارے گھر کا راستہ کس نے دکھایا ہے۔ بہت سوچ و بچار اور چوہوں کا ” کھرا “ ناپنے کے بعد ہم سب اس نتیجے پر پہنچے کہ صاف کیے جانے والے کاٹھ کباڑ میں یہ چوہے نہ جانے کب سے رہ رہے تھے۔ اس جگہ کی صفائی کے بعد وہ گھر کے اندر براجمان ہو گئے۔اب ساری صورتحال واضح ہو گئی تھی اوردماغ کے انجن نے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
ہم نے سر پیٹ لیا کہ مرغیوں کا آئیڈیا آخر کیوں سوچا تھا۔ یہ تو الٹا ہم مشکل میں پھنس گئے ہیں۔
اب سوال یہ تھا کہ ان سے جان کیسے چھڑائی جائے۔یکدم ایک خیال آیا۔ اور ہم اپنی ذہانت پر بے اختیار مسکرا دیے۔
اب ہم نے نہایت سنجیدگی سے چینی کا شیرہ تیار کیا اور اس میں پوری بوتل چوہے مار دوائی کی ڈال کر ملادیا۔ پھر اسے چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیوں میں نکالا اور چوہوں کے بل جو ہم اس سارے عمل سے پہلے نشان زد کر چکے تھے ان کے قریب لے جا کر رکھ دیا۔
اگلے دن ماسی نے ہمیں اطلاع دی کہ پیالیوں میں کچھ رکھا ہے اس میں چوہے آرہے ہیں۔” آنے دو“. ہم نے شان بے نیازی سے جواب دیا۔ اطمینان قلب دنیا کی سب سے بڑی چیز ہے اسی سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔” انہیں وہاں سے ہلانا نہیں“. ہم نے اسے نصیحت کی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئی۔کہ لیجئے ! اب تو چوہوں کو انکے دروازے پر ہی غذا مل رہی ہے اب دیکھیے گا کیسی یلغاریں ہوتی ہیں۔
کسی نے کہا کہ اب یقیناً ہمیں دوسرا گھر دیکھ لینا چاہئے۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف چوہوں کا راج ہو گا۔ آہستہ آہستہ چوہوں کی قطاریں ہر شکر کی پیالی کے ساتھ بندھ گئیں۔ صبح سے شام تک چوہے آرہے ہیں اور جا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اطمینان سے ان کی آنیاں جانیاں دیکھ رہے تھے۔
اب ہمارے شوہر جی کی پریشانی شروع ہوئی۔ کہ آخر یہ ہوکیا رہا ہے جس کے لے اتنی رازداری برتی جا رہی ہے۔
میں نے خاموش کہنے کے لئے انگلی سے اشارہ کیا۔ اگرچہ چوہیہماری بات نہیں سمجھتے مگر تجربات یعنی میرے ذاتِی تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ماحول میں اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائی سے آگاہ ہو جاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے قدرت نے عورتوں سمیت ہر جاندار کو اس حس سے نوازا ہے۔ اچھا جناب. اب میرے شوہر صاحب سوچ رہے تھے کہ میں نے شاید کوئی روحانی عمل شروع کیا ہو اہے اور کچھ عرصہ لگے گا جب میں اپنی غلطی تسلیم کر لونگی۔
باقی لوگ یہ سوچتے تھے کہ میں نے اپنی کاہلی کے اوپر بڑی ذہانت سے پردہ ڈالا ہوا ہے۔لیکن ایکدن جب یہ موضوع دوبارہ زیر بحث آیا تو پھر توپوں کا رخ میری جانب ہوا۔ لوگ میری خاموشی اور سکون سے نالاں تھے۔ میں نے جب ان کو حقیقت بتائی کہ کیسے میں نے ان کے پسندیدہ کھانے میں چوہے مار دوائی ملا دی ہے اور اب اس شیرہ کو چوہوں نے اپنے بل میں بھی لے جا کر جمع کیا ہو گا اور اسے وہ اپنی دعوت سمجھ کر خوب استعمال کریں گے یوں ایک ایک کر سب مر جائیں گے۔
پھر ہم نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ان کی توجہ چوہوں کی فوج میں ہونے والی واضح کمی کی طرف دلائی۔ گھر والوں نے اس فرق کو واضح محسوس کیا۔ چند ہی دنوں بعد چوہوں کا نام و نشان ہی نہ تھا۔ ہاں سالہا سال گزرنے کے بعد کوئی بھولا بھٹکا چوہا کبھی کبھار نظر آ جاتا ہے تاکہ بچوں کو بتایا جا سکے یہ ہوتا ہے چوہا۔ جس کے کبھی کبھی پر نکل آتے ہیں۔
اس تمام محنت سے ہم نے یہ سیکھا کہ آئندہ کبھی مرغیاں نہیں پالیں گے ہاں بازار سے خرید کر کھانے میں کچھ مضائقہ نہیں۔اور دیسی انڈے کا شوق بھی باہر سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
عوام سے خواص میں داخل ہونا آسان نہیں. کیا خیال ہے۔

Browse More Urdu Mazameen