بی بی سی انتظامیہ نے اپنے پلیٹ فارم سے پارک لین فلیٹوں کی خبر کو غلط انداز میں چلانے والے رپورٹر کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں

پی ٹی آئی نے ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلئے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا،رپورٹر اطہر کاظمی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں کا کھلونا بنے،انہیں جہانگیر ترین کے انٹرویو کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی،جہانگیر ترین نے رپورٹر سے کہا کہ وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر کوئی ایسی چیز چلائے، جس کا غلط طور استعمال ہو سکے ،یہ وہی رپورٹر ہے جو ایک اور چینل پر کام کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر عمران خان کے بھتیجے حسن نیازی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان پر حملہ میں بھی ملوث تھا،معتبر ذرائع بی بی سی

جمعرات 19 جنوری 2017 11:05

بی بی سی انتظامیہ نے اپنے پلیٹ فارم سے پارک لین فلیٹوں کی خبر کو غلط انداز میں چلانے والے رپورٹر کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جنوری2017ء) بی بی سی انتظامیہ نے اپنے پلیٹ فارم سے پارک لین فلیٹوں کی خبر کو غلط انداز میں چلانے والے رپورٹر کے خلاف تحقیقات شروع کر دیںٓ،پی ٹی آئی نے ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلئے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا،رپورٹر اطہر کاظمی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں کا کھلونا بنے،انہیں جہانگیر ترین کے انٹرویو کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی،جہانگیر ترین نے رپورٹر سے کہا تھا کہ وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر کوئی ایسی چیز چلائے، جس کا غلط طور استعمال ہو سکے ،یہ وہی رپورٹر ہے جو ایک اور چینل پر کام کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر عمران خان کے بھتیجے حسن نیازی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان پر حملہ میں بھی ملوث تھا،بی بی سی میں انتہائی معتبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رپورٹر اطہر کاظمی پر بی بی سی کی انتظامیہ کا الزام ہے کہ وہ ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور اپ لوڈ کر کے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

(جاری ہے)

بی بی سی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اطہر کاظمی کو جہانگیر ترین کے انٹرویو کی اجازت نہیں دی گئی، بی بی سی کو اس بات پر پریشانی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم کو پارک لین کے فلیٹوں سے متعلق خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ بی بی سی نے رپورٹر کے خلاف اندرونی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جس پر بی بی سی نے الزام لگایا ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں کی ملکیتی پارک لین کے فلیٹوں کی ایک خبر کو بی بی سی کے پلیٹ فارم سے غلط طور استعمال کر رہا ہے۔

جولائی 2015ء میں بی بی سی کو ایک اور بڑی پریشانی اس وقت ہوئی تھی جب بی بی سی اردو کو نااہل اور کمزور کہا گیا، جب بی بی سی اردو کے رپورٹر احمد خواجہ نے غلطی سے ایک ٹویٹ کیا کہ ملکہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس ٹویٹ سے خبریں دی گئیں جو ایک بڑی غلطی تھی۔ عمران خان پانامہ سے متعلق خبر کو نیا بنا کر پیش کر رہے ہیں حالانکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور آزاد مبصرین اسے مسترد کر چکے ہیں۔

بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بی بی سی کو ایک بڑی مشکل صورتحال میں ڈال دیا گیا ہے، خبر میں کوئی نئی بات نہیں، ہمارے رپورٹر نے ڈیوٹی آڈیٹر کو گمراہ کیا، جس نے یہ سمجھا کہ خبر میں نئی معلومات ہیں اور اگر اسے ہم رد کرتے ہیں تو اس سے ایک بڑا سکینڈل بنے گا اور اس کی خبریں لگیں گی۔ معتبر ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ اس رپورٹر کی تحریر میں شامل ایک فائل پیش کی جو سپریم کورٹ پیپرز کا حصہ ہے اور طویل عرصے سے ان کاغذات کے مندرجات عوام کے سامنے رہے۔

ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں بیب پر تنقید کے بعد پاکستانی رپورٹر کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک اپ لوڈ خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلئے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا، خبر میں کوئی نئی بات شامل نہیں تھی، یہ وہی رپورٹر ہے جو ایک اور چینل پر کام کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر عمران خان کے بھتیجے حسن نیازی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان پر حملہ میں ملوث تھا۔

بی بی سی کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہی رپورٹر جہانگیر ترین کو دسمبر میں بی بی سی اردو کے لندن سٹوڈیو لایا اور بی بی سی کیلئے ان کا انٹرویو کیا تاہم بی بی سی کی انتظامیہ نے اسے روک دیا کیونکہ اس میں توہین آمیز الزامات شامل تھے۔ چند روز قبل بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر جہانگیر ترین کا ایک مختصر انٹرویو پیش ہوا۔ تحقیقات کے آغاز کے بعد اطہر کاظمی نے پی ٹی آئی کی حمایت میں اپنے درجنوں ٹویٹس کو ڈیلیٹ کیا تاہم ان ٹویٹس کو پہلے ہی محفوظ کر لیا گیا اور اسے تحقیقات کا حصہ بنایا گیا۔

بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اطہر کاظمی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کو بی بی سی اردو لایا، جہانگیر ترین نے اس سے کہا کہ وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر کوئی چیز چلائے، جس کا غلط طور استعمال ہو سکے۔ بی بی سی اردو نے پاک لین اپارٹمنٹس کی ملکیت کا ذکر تو کیا تاہم ایسی کوئی بات نہیں کی کہ 2006ء سے قبل یہ کس کی ملکیت تھا اور یہی بڑا سوال ہے۔

بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے ہمیشہ نیلسن کے نام سے جانا گیا اور 90ء کی دہائی میں نیسکول کے پاس فلیٹوں کی ملکیت تھی تاہم 2006ء سے قبل نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ بی بی سی اردو کی خبر میں کہا گیا کہ لندن کے پارک لین میں شریف فیملی کی جائیداد 90ء کی دہائی میں خریدی گئی اور اس کے بعد سے اس کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ خبر میں کہا گیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر 4 فلیٹ خریدے گئے۔ قبل ازیں مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ حسین نواز نہیں بلکہ مریم نواز منروا فنانشل سروسز لمیٹڈ کی بینیفشر ہیں جو لندن فلیٹوں کی مالکان کمپنیوں نیسکول لمیٹڈ اور نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ کے پاس ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں