پہلی بلوچی فلم کی 42 سال کے بعد نمائش

یہ فلم 1975 میں تیار کی گئی تھی لیکن بلوچ قوم پرستوں کے اعتراض اور احتجاج کی وجہ سے اسے ریلیز نہیں کیا جا سکا تھا 42 سال کے بعد اب یہ 28 فروری کو بلوچ فیسٹیول کے موقعے پر آرٹس کاؤنسل کراچی میں نمائش کیلئے پیش کی جائے گی

بدھ 22 فروری 2017 11:54

پہلی بلوچی فلم کی 42 سال کے بعد نمائش
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2017ء) بلوچی زبان کی پہلی فلم حمل و ماہ گنج 42 سال کے بعد 28 فروری کو ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ فلم 1975 میں تیار کی گئی تھی لیکن بلوچ قوم پرستوں کے اعتراض اور احتجاج کی وجہ سے اسے ریلیز نہیں کیا جا سکا تھا۔اس فلم کے پروڈیوسر اور ہیرو انور اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ فلم کی کہانی رومانوی داستان حمل و ماہ گنج پر مشتمل ہے، اس کا انتخاب انھوں نے اس لیے کیا تھا کیونکہ بلوچوں کی جتنی بھی رومانوی داستانیں ہیں ان میں یہ واحد کہانی تھی جس میں غیر ملکیوں کے ساتھ لڑائی تھی اور اپنے مادر وطن کو بچانے کی فکر تھی۔

پندرہویں صدی میں پرتگال کے ایک سابق فوجی افسر ال فانسو ڈی البقر نے اپنے ساتھیوں سمیت اسٹولا جزیرے پر آکر اپنا پڑاؤ ڈالا وہاں سے مسقط اور بلوچستان کی تجارتی کشتیاں گزرتی تھیں وہ اس سے لوٹ مار کرتا۔

(جاری ہے)

ان دنوں کلمت میں جین کی سرداری تھی اس نے اپنے بیٹے حمل کو نصیحت کی تھی کہ فرنگیوں کے قدم اپنی زمین پر پڑنے نہیں دینا، اس کی پیروی میں حمل نے اپنی جان قربان کی۔

اس فلم کی کہانی نامور شاعر سید ظہور شاہ ہاشمی نے لکھی تھی، جبکہ کاسٹ میں انور اقبال کے علاوہ انیتا گل، نادر شاہ عادل، اے آر بلوچ ، نور محمد لاشاری اور دیگر شامل تھے۔بلوچستان میں ان دنوں ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی انور اقبال کا کہنا ہے کہ ان کی کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔مجھے تو افسوس ہوتا ہے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بھائیوں پر جو خود کو ترقی پسند کہتے ہیں اور یہ بھی کہ انقلاب لائیں گے اور بلوچستان کو آزاد کرائیں گے انھوں نے بھی فلم کی مخالفت کی تھی۔

سینما گھروں نے احتجاج کے بعد فلم کی نمائش سے انکار کیا اور انور اقبال نے فلم ریلیز روک دی تھی۔42 سال کے بعد اب یہ 28 فروری کو بلوچ فیسٹیول کے موقعے پر آرٹس کاؤنسل کراچی میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔انور اقبال کا کہنا ہے کہ فلم بننے کے بعد اس کی مخالفت کا آغاز ہوا کیونکہ اس سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں یہ ہوگا کہ نوجوان ہے پتہ نہیں بنا پائے گا یا نہیں اور جب فلم مکمل ہوگئی تو وہ پریشان ہو گئے۔

میرے والد ایک سیاسی شخصیت تھے کراچی میں ایوب خان کے دور میں وہ مسلم لیگ کے صدر اور پہلے میئر رہے۔ ان کا سیاست میں اثر رسوخ بھی تھا مخالفین نے سوچا اگر یہ نوجوان سیاست میں آ گیا تو پھر ہماری لیاری یا ملیر کی نشست تو گئی یعنی بلوچ آبادی میں جن کے مفادات تھے انھوں نے فلم کی مخالفت کی اور عام عام بلوچوں کو استعمال کیا گیا۔حمل و ماہ گنج کی مخالفت کی بنیاد اس کا ایک گیت بنا تھا، جس پر بلوچ قوم پرستوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں