Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi

اور یہ دوستی رہے گی ابھی (ابرار احمد ) از قلم۔نصیر احمد ناصر

Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi

محترم نصیر احمد ناصر صاحب کا ایک خوبصورت مضمون جناب ابرار احمد صاحب کی شاعری پر

دوستو! میری اور ابرار احمد کی دوستی اتنی پرانی ہے جتنی ہماری نظمیں۔ ہماری عمریں بھی برابر ہیں۔ دونوں اِس سال کسی بھی وقت’’ سٹھ جائیں‘‘ گے۔ مونچھوں کا سائز بھی کم و بیش ایک جتنا ہے۔ صرف بالوں کے رنگ کا فرق ہے۔ لیکن وہ فرق ظاہری ہے، اصل میں تو ہم دونوں ہی کے بال سفید ہیں۔ ابرار انہیں اسودی کرلینے میں ماہر ہے، میں انہیں مذید سفید کر لیتا ہوں۔

ہمارا شعری سفر بھی تقریباً ایک ساتھ شروع ہوا۔ مجھے ابرار کی نظمیں شروع ہی سے غیر مشروط طور پرپسند رہی ہیں۔ اتنی پسند کہ اس کے لیے مجھے کبھی اظہار کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ ویسے تو ہم پتہ نہیں کہاں کہاں شائع ہوتے رہے، شاید ہی کوئی جریدہ ایسا ہو جو ہماری دسترس سے بچا ہو، لیکن ’ اوراق ‘ وہ رسالہ ہوتا تھا جہاں ہم ’بصد انتظار‘ ایک دوسرے کی نظمیں پڑھ کراپنی اپنی اداسیاں شیئر کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

میرے خیال میں شاعری چند بحور و اوزان اور الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ چیزِ دیگر ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ چیزِ دیگر یعنی شاعری ابرار کی نظموں میں اتنی وافر ہے کہ جس کو کہیں سے نہ ملے وہ ابرار کی نظموں کو پڑھ لے اور ’بقدر توفیق‘ حاصل کر لے۔ اور تو اور ابرار کی نثری نظموں میں بھی شعری عناصر اور شعریت کی اتنی فراوانی ہے جو بیشتر آزاد، معریٰ اور پابند نظم لکھنے والوں کو نصیب نہیں ہوتی۔

ابرار کی نثری نظمیں پڑھنے والا ایسے شعری ردھم میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ عروضی ردھم کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ بلاشبہ ابرار احمد کی نظم شعری اور جمالیاتی حسیات کی بہت عمدہ مثال ہے۔

ابرار کی کچھ ایسی خوبیوں کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے جو ہم میں مشترک نہیں اور وہ ہیں تنقید اور ادبی صحافت۔ ابرار ایک عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا اور با مطالعہ نقاد اور ادبی کالم نگار بھی ہے۔

لیکن ابرار ان ادیبوں اور شاعروں کی طرح نہیں جو کالم نگار بن کر ادب کی ’’ بے ادبی‘‘ شروع کر دیتے ہیں۔ ابرار کی ادبی صحافت اور سیاست کی اساس حقیقی ادبی اقدار اور نقد و نظر کا مطالعاتی پھیلاؤ اور سبھاؤ ہے۔ یہ صلاحیت بہت کم شاعروں میں ہوتی ہے۔ مجھ میں تو بالکل نہیں۔ اس لحاظ سے ابرار کا پلہ بھاری ہے۔ تاہم شکر ہے کہ اس نے اپنی اِس صلاحیت کو ابھی تک مجھ پر نہیں آزمایا۔

اور میری یہ خوش فہمی برقرار ہے کہ ابرار کو بھی میری شاعری اسی طرح پسند ہے جس طرح مجھے اُس کی۔ دراصل ابرار اور میں جس شعری لینڈ اسکیپ اور جن تخلیقی منطقوں کے شاعر ہیں اُن میں باہمی تنقید و توصیف سے تخلیقی اعتراف و اعتبار زیادہ اہم ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ابرار اور اپنی مشترکہ تخلیقی اداسیوں اوردکھوں میں گُندھی ہوئی ایک نظم لکھی تھی جس کا متن ہماری عمروں کا مشترک اثاثہ ہے۔

قندِ مکرر کے طور پر وہ نظم پیش ہے۔ اسے پڑھ کر آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ تخلیقی اثبات کس طرح توصیف وتنقید سے بالاتر ہو جاتا ہے۔


ابرار احمد، آبائی گھروں کے دکھ ایک سے ہوتے ہیں


ابرار احمد، آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں

ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے

لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے

گِھسی ہوئی سرخ اینٹوں کے فرش

اور چونا گچ نم خوردہ دیواریں

بے تحاشا بڑھی ہوئی بیلیں

چھتوں پر اگی ہوئی لمبی گھاس

اور املی اور املتاس کے درخت

ایک دائمی سوگواریت لیے ہوئے

ایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں



آبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیں

پڑچھتیوں پر پیتل اور تانبے کے برتن

گرد جھاڑنے، قلعی کرنے والوں کا انتظار کرتے ہیں

چنیوٹ کا فرنیچر

اور گجرات کی پیالیاں اور چینکیں

خالی پڑی رہتی ہیں

کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اور برساتیاں

اترنے کی منتظر رہتی ہیں

اور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاں

سہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیں

فرہم کیے ہوئے شجرے

اور بلیک اینڈ وائٹ اور سیپیا تصویریں

اور طاقوں میں رکھی ہوئی مقدس کتابیں

اور کامریڈی دور کا مارکسی ادب

سب کچھ اپنی اپنی جگہ پڑا ہوتا ہے



آبائی گھروں کے مکین بھی ایک سے ہوتے ہیں

بیرونی دروازوں پر نظریں جمائے، آخری نمبر کا چشمہ لگائے

بینائی سے تقریباْ محروم مائیں

اور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپ

اور اپنے تئیں کسی عظیم مقصد کے لیے جان دینے والوں کی بیوائیں

جو کبھی جوان اور پر جوش ہوتی ہوں گی

آبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیں

زمانے کھانستے ہیں

آبائی گھر لوٹ آنے کے وعدوں پر

باوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیں

اور کبھی نہ آنے والوں کے لیے

دل اور دروازے کھلے رکھتے ہیں



ابرار احمد! تمہارے اور میرے جیسے شاعروں کے لیے

آبائی گلیوں کی دوپہروں

اور پچھواڑے کے باغوں سے بڑا رومانس کیا ہو سکتا ہے

جہاں تتلیاں پروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتیں

اور پھولوں اور پتوں پر کریش لینڈنگ کرتی ہیں

اور دھوپ اور بارش کے بغیر

قوس قزح جیسی ہنسی بکھرتی ہے

اور نسائم جیسی لڑکیاں سات رنگوں کی گنتی بھول جاتی ہیں

آبائی گھروں میں

وقت بوڑھا نہیں ہوتا

دراصل ہم بچے نہیں رہتے

اور کھلونوں کے بجائے اصلی کاریں چلانے لگتے ہیں

اور کبھی کبھی اصلی گنیں بھی ۔

۔۔۔۔۔۔



آبائی گھروں کو جانے والے راستے بھی ایک سے ہوتے ہیں

سنسان اور گرد آلود

مسافروں سے تہی

جن پر بگولے اڑتے ہیں

یا میت اٹھائے کبھی کبھی کوئی ایمبولینس گزرتی ہے

پھلاہی اور کیکروں سے ڈھکے آبائی قبرستان

تھوڑی دیر کے لیے آباد ہوتے ہیں

اور پھر دعاؤں اور باتوں کی بھن بھن میں

منظر تتر بتر ہو جاتا ہے

یہاں تک کہ موسم سے اکتائے ہوئے

بادل بھی کسی پہاڑی قصبے کی طرف چلے جاتے ہیں

آبائی راستوں کے دکھ نظمائے نہیں جا سکتے

انہیں یاد کرتے ہوئے رویا بھی نہیں جا سکتا

یہ صرف کسی اپنے جیسے دوست کے ساتھ شیئر کیے جا سکتے ہیں



عمریں گزر جاتی ہیں

شہروں میں اور ملکوں میں

لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں

گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو

تو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں رکھی رہتی ہیں

کبھی نہ کھلنے کے لیے

اور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیں

اور زمین پر "آخری دن سے پہلے" ہی ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں!!

(1682) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi - Read Urdu Article

Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi.

Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Aor Yeh Dosti Rahay Gi Bhi is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.