Raastoon Ka Dil Daada

راستوں کا دل دادہ ۔۔۔۔۔ کاشف حسین غائر

Raastoon Ka Dil Daada

تحریر: علی زبیر

راستوں کا دل دادہ.........کاشف حسین غائرؔ

خیال اور الفاظ کا نکاح ہو جائے تو شعر ہوجاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ شعر نے ہمیشہ مجھے اپنی طرف کھینچا ہے اور یہ مدھر کھنچاؤ مجھے بیش تر خالقِ شعر کے در تک لے گیا ہے۔ اسی کھینچا تانی میں شاعروں سے میل ملاقاتیں زندگی کا حصہ رہیں۔خاطر داریاں بنتی رہیں،بگڑتی رہیں، لیکن بہ صد معذرت میں شعر سے جتنا متاثر ہؤا شاعر سے اِتنا ہی مایوس بھی ہؤا۔

اسے میری کور سخنی ہی کہیے کہ میں شاعر شناس نہ ہو سکا،اور وہ میرے بھاگ تھے کہ میرا قبیلہ شاعری سے زیادہ شاعر پرست ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کھاد کی محتاج زمین سے خالص اناج کی توقع عبث ہے۔
کئی برس پہلے کی بات ہے کہ محمود آباد(کراچی) کے نیم تاریک کمرے میں بزمِ خیال آرائی روشن تھی۔

(جاری ہے)

لطف آفریں ”واہ واہ“ کاری کمرے میں گونج رہی تھی۔چائے کی رسیلی مہک اور سگریٹ کادھواں مل جل کر شعروں کو مزید لذیذ بنا رہے تھے لیکن حاصلِ بزم شعر اب تک سماعت پذیر نہ ہو سکا تھا،جس کے سہارے رات بتائی جا تی کہ اچانک گوشے میں نشستی شاعر شمع محفل کے روبہ رو ہؤا۔

اس کے ساتھ ہی مجھ پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ اس محفل میں صرف میں ہی تماشائی ہوں ورنہ میں اس سادہ مزاج کو بھی ہم راہی سمجھ رہاتھا۔اس نے غزل کا مطلع پڑھا، اور میں چونک گیا اور دست و پاسنبھال بیٹھا۔دوسرے شعر پر قبیل دار نے سرگوشی کی کہ شب بسری کا سامان میسر ہونے والا ہے۔پھر وہ ہو گیا جس کی اُمیداِس محفل سے اُٹھ چکی تھی کہ ایک سیدھے سادے شعر نے میرے پیمانہئ دل کو لذت و مستی سے لبریز کردیا۔


کہیں آتا تھا یہاں سنّاٹا
یہ تو رستہ ترے جانے سے کھُلا
میں خود کو سنبھالنے کی فکر میں تھا کہ بے خبری اور شانِ بے اعتنائی سے ایک شعر اَور پڑھا گیا۔
زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی
سایہ دیوار اٹھانے سے کھُلا
بس اب جام چھلکنے کو تھا،قطرہ بھر گنجائش نہ تھی کہ ساقی نے ایک شعر اَور پڑھ دیا۔
ایسے کھلتا تھا کہاں رنگِ جہاں
تیری تصویر بنانے سے کھُلا
محسوس ہؤا کہ کسی نے اپنی لامبی مخروطی اور حنائی انگلیوں سے ایک جوہر دار طلائی انگوٹھی لبریز پیالے میں ڈال دی ہو۔

میں نے گھونٹ بھر ااور جام چھلکنے سے بچا لیا، لیکن یہ ساقی بھی کوئی مشّاق اور چابک دست تھا۔ایک شعر اَورپڑھ گیا۔
رات کرتے ہیں ستارے کیسے
رات بھر نیند نہ آنے سے کھُلا
میں نے گوشہ گیر شاعر کو غور سے دیکھا۔اس کے چہر ے پر دھیمی سے مسکراہٹ تھی اور بلند لوگوں کی طرح سر نیچے کو جھکا ہؤا،نہ کوئی چمک، نہ کوئی دمک،نہ تیزی نہ طراری۔

بس دھیمی سی مسکراہٹ۔ میں نے بے اختیار اپنے پہلو میں بیٹھے رمزی آثم سے اس کم آمیز شاعر کا نام پوچھا۔اُس نے بتایا، یہ کاشف حسین غائرؔہے، اپنا یار ہے اور کمال کا شاعر ہے...پھر کچھ دیر بعد محفل بر خاست ہوگئی، اور میں ...
کہیں آتا تھا یہاں سنّاٹا
یہ تو رستہ ترے جانے سے کھُلا
کے نشے میں کئی روز ڈولتا رہا،اور پھر اس شعر کی خوش بو کشا ں کشاں کھینچتے ہوئے مجھے کاشف حسین غائرؔ تک لے گئی۔

اب تک تو یہ رہا تھا کہ شعر مجھے اپنے خالق سے ملواتا رہا،اور میں شعر کی خوش بو شاعر میں کھوجتا رہا،ملاقاتیں کرتا رہا،لیکن یہ چند ملاقاتیں چائے نوشیوں، ہوٹل گردیوں اور راہ خواریوں پر ختم ہوتی رہیں۔ مجھے شاعری توبہت ملی،مگر شاعر بہت کم کم ہی ملے۔ میں نے سوچا تھاکہ کاشف حسین غائرؔ کی ملاقات سے بھی گریز کیا جائے۔مبادا اس کی شخصیت بھی مجھے مایوس نہ کردے اور خوش قسمتی سے گریز پائی میرے بس کی بات نہیں تھی۔

بالآخر کاشف سے تعلق داریاں شروع ہو ہی گئیں۔چند ملاقاتوں کے بعد میرے اندر کا گورکن بیدار ہونا شروع ہوگیا۔میں نے نہایت خامشی سے اپنا تنقیدی بیلچہ کاشف پر چلانا شروع کردیا۔یقین جانیے میں جوں جوں مٹی کھودتا رہا، مجھ تعفّن مزاج سے خوش بوؤں کے ہلکور ے ٹکرانے لگے۔مٹی کا گڑھا خوب صورت اور رنگا رنگ پھولوں سے مزین وادی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔

بالآخر میری انسان کُنی بند ہوئی اور کاشف کی صورت میں مجھے ایک بہت اچھا، سچا کھراشاعر، اس سے کہیں زیادہ اچھا انسان اور اس بھی کہیں بڑھ کر بہت اچھا دوست میسر آگیا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس دنیامیں لاکھوں کروڑوں روپے کمانا مشکل نہیں،لیکن ایک مخلص دوست کمانا بے حد مشکل ہی نہیں ناممکن کام ہے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجیے کہ مجھ سے خیال کار کو کاشف سا مخلص دوست مل جائے تو اس کی خوشی کا عالم اور دوست کی قدروقیمت کیا ہوگی۔

کاشف پر کسی قسم کامضمون یا کوئی رائے تحریر کرنے سے میں نے حتی الامکان اجتناب کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے پاس وہ نادرو نایاب الفاظ موجود نہیں ہیں یا پھر مجھ میں وہ سخن کا سلیقہ ہی نہیں جوکاشف کے لیے آزمانا چاہتا ہوں۔میرے دوست کی شاعری پرمعتبر ناقدین و شعرا ء کی رائے موجود ہے۔تو سوچا کہ کاشف کی پیاری سی شخصیت کے بارے میں کچھ رقم کروں۔

مجھے گنتی یاد نہیں لیکن کئی برس گزرگئے ہیں کہ کاشف کے ساتھ میرے شب و روز گزر رہے ہیں۔بہت ہی عجیب اور صد فیصدی شاعر ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ پوری دنیا سے گھر ختم ہوجائیں،تمام رکاوٹیں ختم ہوجائیں اور یہ دنیا ایک لمبے اور نہ ختم ہونے والے راستے میں تبدیل ہوجائے اور کاشف صاحب تمام عمر اس راستے پر چلتے رہیں اورشعر کہتے رہیں۔
کاشف کا مسئلہ صرف اور صرف شاعری ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ ہر وقت شاعری ہو۔شعروں کی آمد ہو اور وہ شعر کہتا رہے۔ راہ گردی اس کی شاعری کے لیے تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔اسے راستوں سے عشق ہے،وہ کسی پُر سکون جگہ بیٹھ کر شعر نہیں کہہ سکتا۔اس پر شعر راستوں میں، سڑکوں پر، ہوٹلوں میں،بسوں میں اور شاعروں سے ملاقاتوں میں وارد ہوتے ہیں،اور جب سے اس پر اپنی ذات کا یہ پہلو آشکار ہوا ہے وہ مسلسل محوِ سفر رہنا چاہتا ہے۔

صرف اس لیے کہ اچھا شعر تخلیق ہوجائے۔یوں تو وہ بے غرض و غایت ہی راستوں پر چلتا ہے لیکن اس نے خاطر پُرسی کے لیے سفر کا جواز تلاش کیا ہؤا ہے،اور وہ ہے ’شاعری‘۔وہ جب بھی قدم گھر سے باہر نکالتا ہے تو اس کا تعلق کہیں نہ کہیں شاعری سے ضرور جُڑا ہوتا ہے۔میں دوستوں سے یہاں تک کہہ جاتا ہوں کہ کاشف اگر گوشت خریدنے بھی نکلے تو کسی قصاب شاعر ہی کو تلاش کرے گا۔

میں پورے دعوے سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کاشف کہیں آپ کو راہ میں مل جائے تو تفتیش کر دیکھیے گا۔آپ اسے شاعری ہی کے کسی کام سے نکلا پائیں گے۔بہت شائستہ آدمی ہے۔ہمیشہ کم اور متوازن گفتگو کرتا ہے۔اس کے قدیمی دوستوں سے بھی پوچھ کے دیکھا ہے مگر کسی نے اسے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا۔آپ اسے کوئی کام کہہ دیکھیں،تن من دھن سے آپ کے کام میں جُت جائے گا(آپ کا تعلق شاعری یا فنونِ لطیفہ کی کسی صنف سے ہونا ضروری ہے)۔


کاشف اچھے شعر کا رسیاہے خواہ وہ کسی کا بھی ہو، وہ ہمیشہ اچھی شاعری کو پیش ِ نظر رکھتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ بہت بے دردی سے اپنے ان اشعار کو مٹی میں دفن کردیتا ہے جو کسی شاعر کو مل جائیں تو مجموعہ چھپوالے۔شعر کے بغیر جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں اس کے چہرے پر پژمردگی بڑھتی جاتی ہے اور شعر وارد ہونے پر ایسی مسرت و شادمانی جیسے کسی بانجھ کی گود ہری ہوجائے۔

کاشف کی ایک بات اَور مجھے بہت پسند ہے وہ یہ کہ کاشف کے بہت سے دوست ہیں اورہر دوست کا یہی خیال ہے کہ وہ کاشف کا سب سے عزیز ترین دوست ہے۔ یہ فطری خوش اخلاقی اور بہترین منکسر المزاجی کی روشن دلیل ہے۔ وہ دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے،مگر اپنے لیے کبھی کچھ نہیں کرتا۔ اِس مضمون میں کاشف کی شاعری پر گفتگو کرنے سے میں نے دانستہ گریز کیا ہے کیوں کہ میرا قبیلہ شاعری سے پہلے شاعر کا نعرہ لگاتا ہے۔

کاشف کی شاعری پر میں نہیں، بلکہ آنے والا وقت اپنی رائے دے گا۔ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ میرؔ کے آبگینے سے جڑا ایک ہیرا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کاشف کی شاعری عمدہ اور اعلیٰ شاعری کے پیمانے پر پوری اُترتی ہے، وہ ایک کھرا اور سچا شاعر ہے۔ اس کی گواہی درج ذیل اشعار ہیں جن کے لطف میں آپ کو شامل کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا۔

پڑھیے اور سر دُھنیے۔
زندگی لڑکھڑانے لگتی ہے
آدمی جب سنبھلنے لگتا ہے
شہر در شہر لیے پھرتے ہیں
راستے گھر نہیں جانے دیتے
کون دن میں دِیا جلاتا ہے
یہ ہَوا کیوں چراغ پا ہے ابھی
دِیے کی لو ہوائیں لے گئی ہیں
دیا دیوار ہی پر رہ گیا ہے
ذرا سی دیر میں دل میں اُترنے والے لوگ
ذرا سی دیر میں دل سے اُتر بھی جاتے ہیں
زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری
زمیں کے جسم پر قبریں نہیں ہیں
خیالِ رفتگاں رکھا ہوا ہے
ہر نئی شام میری اُجرت ہے
دن بِتانا ہے روزگار مرا
ہر شام دلاتی ہے اُسے یاد ہماری
اتنی تو ہَوا کرتی ہے امداد ہماری
یہ راہ بتا سکتی ہے ہم کون ہیں کیا ہیں
یہ دُھول سنا سکتی ہے رُوداد ہماری
کس کو معلوم ہے یہ بے خبری
کس خبر سے فرار ہے اپنا
یاد آیا بہت دلِ ناکام
کام جب ہوچکے ہمارے سب
قدم میں خاک اٹھاؤں گا اُس گلی کی طرف
دعا کو ہاتھ اٹھانا محال ہوگئے ہیں
ہوائیں آتی ہیں میرا طواف کرتی ہیں
میں اک دِیا ہوں تری رہ گزر میں رکھا ہُوا

(2383) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Raastoon Ka Dil Daada - Read Urdu Article

Raastoon Ka Dil Daada is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Raastoon Ka Dil Daada is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Raastoon Ka Dil Daada in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Raastoon Ka Dil Daada.

Raastoon Ka Dil Daada is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Raastoon Ka Dil Daada is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.