Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas

وسیع کینوس کا شاعر ۔۔ شاہین عباس

Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas

محسن اسرار کا ایک خوبصورت مضمون ایک خوبصورت شاعر کی شاعری پر ۔۔۔

وسیع کینوس کا شاعرشاہین عباس
تحریر۔محسن اَسرار

شاعری ایک ایسی ذہنی صلاحیت کا آلہ کار ہے جو شعوری محدودات سے نکلتے ہوئے مختلف کیفیات کی ہم آہنگی کے ردِ عمل کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر ہم اس مفروضے کو تسلیم کر لیں کہ انسان چار عناصر کا مرکب ہے تو کیفیات پر آسانی سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ انسانی وجود کا تجزیہ کسی لیبارٹری میں نہیں کیا گیا بلکہ اس کا تعین انسانی فطرت کی کار گزاریوں کے تحت ہی کیا گیا ہے۔


مٹی ، آگ ، ہوا اور پانی
مٹی:قیام ، گروتھ ، خاکساری۔آگ: طیش و انتقام اور خودسری۔ ہوا : نفس اضطراب وآوارگی۔پانی: مزاجی بہاﺅ طبیعت و رجحان کے اُتار چڑھاﺅ ، مسافت اور قوت ارادی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عام انسان میں یہ تمام عوامل موجود ہیں لیکن ہر شخص ان تمام خصوصیات کا بہ یک وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے)

ہر شعور میں ایک خلل بھی ہوتا ہے جو شعوری استطاعت کو معدوم بھی کرتا رہتا ہے اور یہی خلل طبیعت میں اضطراب پیدا کرتا ہے۔

یہ تمام عناصر اپنی فطرت کے تحت عمل پیرا ہوتے ہیں مگر انسان اپنی مرضی کے مطابق انھیں رکھنا چاہتا ہے، یہ تضاد ظاہر کرتا ہے کہ ا ن عناصر کے علاوہ بھی کچھ ہے جو انسانی تکمیل کا ذمہ دار ہے، شاید ’روح ‘ ہو سکتی ہے۔ روح کا اگر تجزیہ کیا جا سکتا ہے تو یہ گرہ بھی یقیناً کھل سکتی تھی لیکن یہ ہمارے دائرہ¿ اختیار سے باہر ہے اور اسی لیے انسان خود بھی اپنے اختیار میں نہیں۔


شاعر وہ شخصیت ہے جو اختیار اور بے اختیاری کے ٹکراﺅ کی چکّی میں ہمہ وقت پستی رہتی ہے۔ پاگل پن، دیوانگی اور جنون انسانی شعور کے احوال کی صورتیں ہیں۔ پاگل پن سوئے ہوئے شعور کی علامت ہے جس میں وجود صرف فطری محرکات کا پابند ہو کر رہ جاتا ہے اور ارادتاً کچھ نہیں کر پاتا۔ دیوانگی، خواہش کے تکمیل کی وہ چاہت ہے جو شعوری فیصلے سے آگے نکل جاتی ہے جہاں شعور اس کی تکمیل کے امکان کو رد کر دیتا ہے۔

جنون ،وہ انسانی مخفی قوت ہے جو ’ نہیں‘ کو ’ ہاں‘ میں بدلنے کی خواہاں ہوتی ہے۔
شعوری لوازمات چونکہ طے شدہ ہیں اس لیے جو باتیں شعوری نقطہ نظر سے کی جائیں جلد قابل قبول ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو قابل قبول نہیں ہوتیں اور انھیں رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی باتیں کی ہی کیوں جاتی ہیں۔ سو یہ انسان کے اس خفیہ پن کی مجبوری ہے جہاں وہ اپنے محدودات سے مفر پا رہا ہوتا ہے اور ایک لا محدودیت کا متمنی ہوتا ہے۔

شاعری اسی لا محدودیت میں داخلے کا راستہ ہے جس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن لا محدودیت کے امکان بھی لا محدود ہیں۔
شاعری کیا ہے اور کیوں کی جاتی ہے؟ جبکہ سائنسی اور عقلی نقطہ نظر سے یہ ایک غیر معاشی فعل ہے جو بظاہر بنی نو ع انسان کی وجودیت کی نشو میں کسی بھی طرح معاون نہیں ہے جبکہ یہ ایک ضرورت بھی ہے شاید ہی عالم وجود میں کوئی ایسا انسان ہو جو شاعری سے کسی نہ کسی سطح پر متاثر نہ ہو اور یہ بھی طے ہے کہ شاعری کسی کلیے کے تحت شعوری طور پر نہیں کی جا سکتی ۔

شاعری کے لیے کچھ ذہن مخصوص ہوتے ہیں جن کا ایک دل الگ سے ہوتا ہے فطری خواہشات وجود کے زندہ ہونے کی علامات ہیں لیکن فطرت سے ہٹ کر بھی کچھ ضروریات ہیں جیسے عشق ، محبت ، ایثار ، غلبہ حاصل کرنے کا جذبہ وغیرہ۔ میں جب شاعری کا مطالعہ کرتا ہوں تو ان نظریات کا آہنگ میری حسیت میں موجود ہوتا ہے۔
شاہین عباس کی شاعری جب مطالعہ میں آئی تو ایک جھما کا سا ہوا ،وہ اضطراب جو مجھ میں سو رہا تھا جاگ اٹھا۔

عمومی سطح سے نکل کر جب کسی کا مطالعہ کیا جائے تو تلاشِ حسن کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور گہرائیاں کھلنے لگتی ہیں۔ ان کے ہاں شاعری کا وہ آہنگ موجود ہے جو اپنے سچ کو خود ظاہر کرتا ہے ۔یہ محدود نہیںہیںبلکہ اس لا محدودیت کے قائل ہیں اور ملوث بھی جو حدود کے تعین کے پیمانے تخلیق کرتی ہے۔ ان کے اشعار لہر در لہر ہیں جہاں مدوجذر کے ساتھ ساحلی طمطراق بھی ہے۔

ان کی شاعری میں وہ عشق یقینی طور پر پایا جاتا ہے جو واقعی عشق ہے۔ ان کے ہاں تیز رفتاری ہے لیکن گمرہی نہیں۔ وہ جس راستے پر چلتے ہیں وہاں پگڈنڈیاں بھی بنتی چلی جاتی ہیں ۔ یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ وہ پرچھائیوں سے آزاد ہیں اور نہ ہی کسی نظریے کا آلہ کار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عناصر اور ان کی ہم آہنگی کو سمجھتے ہیں اور شاعری کرتے ہیں۔

ان کا لا شعور ان کی شاعری کی خوبصورت شعوری کیفیات تخلیق کرنے میں کافی توانا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے مضامین کا اُترنا ابھی بند نہیں ہوا۔ وہ شاعری سے محبت کرتے ہیں اور شاعری ان سے محبت کرتی ہے۔ کسی بھی بد صورتی کے قائل نہیں بلکہ بد صورتی کو خوبصورتی دینا ان کا طرہ ہے۔ ان کے مصرعوں کی بنت اس چیز کی گواہی ہے۔ ان کے دل کی دھڑکنیں متوازی ہیں جہاں حیرت کی لہریں راستہ بناتے گزرتی محسوس ہوتی ہیں۔

اداس ہیں تو اس لیے کہ ” آدمی کیوں اُداس رہتا ہے“ وہ خود سے اتنا بے خبر کیوں ہے۔
شاہین عباس خود آگہی کا مظاہر ے کرتے جا بجا نظر آتے ہیں ،ان میں جو ایک” خود“ موجود ہے اس کے ساتھ بھی پورا انصاف کرتے ہیں۔ اسی لیے عناصر کی تمام فطرتوں کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیںوہ مغلوب نہیں بلکہ عشق سے وابستگی کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ محبوب اور محبوبیت کے معیار کی پاسداری کرنا ان کا مزاج ہے ان کا ذہن ان کی قلبی توانائی کا آئینہ دار ہے ان کا گمان ان کے تعین کی پردہ داریوں سے جھانکتا ہے کیا خوب کہا ہے :

اک نقش ہو نہ پائے اِدھر سے اُدھر مرا
جیسا تمھیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو

پنہ گزیں ہے جو مجھ میں وہ زد پہ آتا ہے
ہر ایک پر مرے اندر کا حال کھول نہیں

شاہین عباس اپنے لہجے کے لحاظ سے منفرد ہیں۔

ان کا تخیل سمٹتا نہیں ہے بلکہ سماعتوں میں وسعتیں پیدا کرتا ہے ۔وہ عامیانہ پن سے بہت دور ہیں اور الفاظ کی آبرو کا خیال رکھتے ہیں، الفاظ کی آبرو وہی رکھ سکتا ہے جسے عشق تہذیب کر چکا ہو چنانچہ اس میں لمس وجود کو محسوس کرنے کے ساتھ روحانی لمس کو محسوس کرنے کی حسیت بھی پیدا ہو جاتی ہے، کیا خوب شعر ہے:

ہمارے کوزے پسِ چاک سر اُٹھاتے ہیں
ہم ایسے چہرہ تراش عالم خبر میں کہاں

ایک اور شعردیکھیے:

کوئی بتاﺅ یہ نیرنگی¿ نمو کیا ہے
چبھے جو پاﺅں میں کانٹے سروں سے نکلے ہیں

وہ تسخیر شعور کے مالک ہیں اور شعور اسی لمحے حیرت زدہ ہوتا ہے جب کوئی دریافت بنا دریافت کرے ہی دریافت ہو جائے شاعری کا یہی کمال ہے وہ نا آفریدہ کو آفریدہ کرتی ہے جب کہ تمام موجودات اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود رہتے ہیں۔


شاہین عباس کے ہاں بہت کچھ نیا ہے اور یہ نیا پن ان کا اپنا ہے۔ زندگی کی شناخت ان کے جریدے کی تازہ خبر ہے ،وہ فرار کی راہیں تلاش نہیں کرتے بلکہ خبر کو مخبری کا رزق گردانتے ہیں۔ وہ زمانے میں بکھرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زمانے کو اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے۔ ان کے رنج انھیں رُلاتے نہیں بلکہ ان کی حسیات کی بالیدگی کی نشو میں معاونت کرتے ہیں۔

یہ حسّی بالیدگی ہی انھیں خیال کے اس جہان میں لیے پھرتی ہے جہاں کی ہر مصروفیت میں ایک فرصت بھی نہاں ہوتی ہے، جو خاص ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے لیے مختص ہے۔ وہ سبب کو سبب اور علت کوعلت ہی رکھنا چاہتے ہیں، غیر ضروری استعاروں سے اجنتاب کرتے ہیںوہ اپنے جنون کے تناظر میں شعور کے قدر داں ہیں۔ کیا عمدہ شعرکہے ہیں :

نظر اک رو میں اسے چھو کے پلٹ آتی ہے
مجھے خوش آیا ہے یہ چشمہ¿ پندار ایسا

آتشِ غم پہ نظر کی ہے کچھ ایسے کہ یہ آنچ
بات کر سکتی ہے اب میرے برابر آکر

میری ملاقات شاہین عباس سے کبھی نہیں ہوئی، برادرم کاشف حسین غائر کے توسط سے ان کے شعری مجموعے مجھ تک پہنچے، جن کے مطالعے نے مجھے کافی متاثر کیا ان کا شعری کینوس کافی وسیع ہے۔

” تحیر، وابستہ اور خدا کے دن“ ایسے شعری مجموعے ہیں جن میں بہت کچھ ایسا موجود ہے جسے موجود ہونا چاہیے، وہ نڈر شاعر ہیں اور زمانے پر بھر پور نظر رکھتے ہیں۔ ان کے دو شعر ملاحظہ فرمائیے:

اپنی اپنی تلاش میں گم ہیں
اپنا اپنا دیا اٹھائے ہوئے

سفر میں اصل سفر کا حساب کیسے ہو
دلوں میں گرد نہ جانے کہاں کہاں کی ہے

وہ بقراطیت کے قائل نہیں اور نہ روایت سے غیر ضروری چھیڑ کرتے ہیں، وہ اپنے دور میں موجود ہیں اور اپنی موجودگی کے جواز فراہم کرتے رہتے ہیں۔

شاہین عباس کے لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ

عناصر کی اُپج کو جانتا ہے
وہ اپنی خاک خود ہی چھانتا ہے

شاہین عباس کے کچھ اشعار جو مجھے پسند ہیں اور شاید آپ کو بھی۔

تیری صدا پہ کچھ ایسے چونک اٹھتا ہوں
ترے سوال کا جیسے کوئی جواب ہوں میں

اس بار سبھی چپ ہیں مجھے روکنے والے
میں سب کو کیے جاتا ہوں حیران کچھ ایسے

میں اس آواز کو تصویر نہیں کر سکتا
مجھے آگاہ تو کر مانگنے والے سے مرے

رخصتِ دوست کی ساعت بھی ہے تسلیم مگر
اسی ساعت میں مرا سارا زمانہ ہی نہ ہو

تیری تنہائی کے سائے میں ہے تنہائی مری
تیری ویرانے کی سرحد پہ ہے ویرانہ مرا

گو سر بہ سر ندا ہی ندا ہے مگر یہ دل
مخبر کو بھی سنبھالے ہوئے ہے خبر کو بھی

اس نے کھلنے کی یہی شرط رکھی ہو جیسے
مجھ میں گرہیں سی لگا جاتا ہے جب کھلتا ہے

تیری آنکھوں سے یہ اندازہ کہاں ہوتا ہے
آچکا ہوں تری دنیا میں کہ آنا ہے مجھے

پہلے ہی یہ شور کم نہیں تھا
اب جسم بھی دل سے آملا ہے

(1856) ووٹ وصول ہوئے

Related Articles

Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas - Read Urdu Article

Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas is a detailed Urdu Poetry Article in which you can read everything about your favorite Poet. Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas is available to read in Urdu so that you can easily understand it in your native language.

Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas in Urdu has everything you wish to know about your favorite poet. Read what they like and who their inspiration is. You can learn about the personal life of your favorite poet in Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas.

Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas is a unique and latest article about your favorite poet. If you wish to know the latest happenings in the life of your favorite poet, Wasee Canvas Ka Shaair, Shaheen Abbas is a must-read for you. Read it out, and you will surely like it.