کنگڈم آف ہیون: صلاح الدین ایوبی اور صلیبی بادشاہوں کے درمیان کشمکش کی کہانی

11ویں صدی کی صلیبی جنگوں کا احاطہ کرتی یہ فلم 2005ء میں ریلیز ہوئی، جس کے ہدایت کار رڈلے سکاٹ ہیں

پیر 23 جنوری 2017 12:09

کنگڈم آف ہیون: صلاح الدین ایوبی اور صلیبی بادشاہوں کے درمیان کشمکش کی کہانی
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2017ء) صلاح الدین ایوبی اور صلیبی بادشاہوں کے درمیان تاریخی کشمکش کی داستان بیان کرتی اس فلم میں چند تاریخی مناظر کو کمال مہارت سے فلمایا گیا ہے، جیسا کہ جنگ حطین اور فتح بیت المقدس کے مناظر اپنی مثال آپ ہیں۔ اس فلم کی کہانی مجموعی طور پر ایک لوہار بیلین (اورلینڈو بلوم) کے گرد گھومتی ہے، جو اپنی بیوی کی موت کے بعد اتفاقی طور پر اپنے گمشدہ باپ بیرون گاڈ فرے (لیام نیسن) سے مل جاتا ہے۔

اطالیہ کے شہر مسینا میں گاڈ فرے اپنی موت سے قبل بیلین کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ القدس یعنی یروشلم چلا جائے اور وہاں کے بادشاہ کی خدمت اور مجبوروں و محتاجوں کی حفاظت کرے لیکن یہاں پہنچ کر بیلین کو ایک نئی سیاسی کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

یروشلم کا بادشاہ بالڈوین چہارم (ایڈورڈ نارٹن) جو جذام کا مریض ہے اور صلاح الدین ایوبی کا مخالف ہے، اس کے باوجود وہ اس کے خلاف جنگی اقدام کرنے سے گریز کرتا ہے جبکہ دوسری طرف بادشاہ کی بہن اور ملکہ یروشلم آئزابیلا (ایوا گرین) ملکہ کا شوہر گائے دی لوزینیان (مارٹن سوکاس) مشترکہ طور پر مسلمانوں کے خلاف محاذ تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

افسانوی اور رومانوی آمیزش کو چھوڑ کر فلم کی کہانی قریباً تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ اگر آپ تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور خاص طور پر 11 ویں اور 12 ویں صدی کی دنیا اور اس زمانے کی جنگی حکمت عملیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، تو کنگڈم آف ہیون بہت اچھا انتخاب ہوگا۔ فلم کے جنگی مناظر کو دیکھ کر سنیما ٹوگرافر جان ماتھی سن کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

میرے خیال میں انہوں نے 12ویں صدی کے جنگ کا نقشہ عین ویسا ہی کھینچ دیا ہے، جیسا اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے ذہن میں نقش ہے۔ فلم کی بیشتر منظر کشی مراکش کے علاقے ورززات میں کی گئی ہے۔ حیران کن طور پرمغربی ممالک میں یہ فلم اتنی پذیرائی حاصل نہیں کر پائی جس کی یہ حقدار تھی۔ خصوصاً امریکا اور کینیڈا میں تو یہ فلم بری طرح فلاپ ہو گئی، جس کی بظاہر بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کے متعلق مغربی مورخین نے اس قدر زہر گھولا ہے کہ عام لوگ حقیقی تاریخ کو قبول ہی نہیں کر سکتے۔

اس کے علاوہ فلم کے حوالے سے مغرب میں عوامی ردعمل سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے عوام میں مسلمانوں کے حوالے سے یہ تاثر اندر تک راسخ ہو چکا کہ یہ ہمیشہ سے غیر تہذیب یافتہ اور اجڈ قوم رہی ہے اور ان سے یہ بات ہضم ہی نہیں ہوئی کہ محض آٹھ صدیاں قبل یہ بات بالکل الٹ تھی اور مسلمان علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے تھے۔
وقت اشاعت : 23/01/2017 - 12:09:55

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :