”2007ء قومی کرکٹ ٹیم کیلئے مایوس کن سال رہا“

2007 Qoumi Cricket Team K Liye Mayoos Kun Saal Raha

باب وولمر کی موت،انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ اور کھلاڑیوں کی بغاوت بھارت کے ہاتھوں مسلسل شکستیں،کرکٹ بورڈ اور پلیئرز میں چپقلش عروج پر رہی

جمعہ 28 دسمبر 2007

2007 Qoumi Cricket Team K Liye Mayoos Kun Saal Raha
اعجاز وسیم باکھری: سال 2007ء اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے یہ سال پاکستان کی تاریخ میں ہر لحاظ سے مایوس اور پریشان کن سال ثابت ہوا۔ 2007ء میں کرکٹ کے میدانوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں جائزہ لیا جائے قومی ٹیم کو سال کے آغاز ہی سے مشکلات کا سامنا رہا ۔پاکستان نے 2007ء کا آغاز جنوبی افریقہ کے دورے سے کیا جہاں قومی ٹیم کو ٹیسٹ اور ایک روزہ سیریز میں شکست ہوئی ۔

اس سے قبل سلیکشن کمیٹی اور فاسٹ بولر شعیب اختر کے درمیان تنازعات حرف عام بنے رہے تاہم چیئرمین پی سی بی کی مداخلت پر شعیب اختر کو جنوبی افریقہ کے دورے پر روانہ کیا گیا جہاں وہ ایک بار پھر انجری کا شکار ہوکر پورے ٹور سے باہر ہوگئے اور اسی موقع پر شعیب اختر اور باب وولمر کے درمیان تلخ کلامی کا واقع بھی پیش آیا جس کا پوری دنیا نے ٹی وی پر براہ راست نظارہ کیا۔

(جاری ہے)

انہی دنوں کرکٹ بورڈ نے بولنگ کوچ وقار یونس کوبلاجواز عہدے فارغ کردیا جسے ماہرین پاکستان کرکٹ کیلئے ایک نقصان دہ اقدام قرار دیتے ہیں۔جنوبی افریقہ کے خلاف مکمل طور پر ناکامی کے بعد قومی ٹیم بلند عزائم اور فتح کے دعوؤں کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ کھیلنے ویسٹ انڈین سرزمین پر اتری تو ایک بارپھرپاکستانی ٹیم مسائل ،پریشانیوں اور آنسوؤں کے سیلاب میں ڈوب گئی جہاں قومی ٹیم کو ویسٹ انڈین سرزمین پر ایسے دکھ سہنے پڑے جس کا کرب ہمیشہ پاکستانی ٹیم محسو س کرتی رہی گی۔

ورلڈکپ کا افتتاحی میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا جہاں برائن لارا الیون نے انضمام الحق الیون کو شکست دیکرپاکستانی قوم کو پہلا جھٹکا دیا ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ قومی ٹیم ایونٹ کی سب سے کمزور ترین ٹیم ائرلینڈ سے بدترین شکست کھا کرورلڈکپ کی تاریخ کے سب سے بڑے اپ سیٹ کا شکار ہوکر ایونٹ سے باہر ہوگئی ۔ائرلینڈ جیسی بے بی ٹیم سے اپ سیٹ شکست کھانے کے بعد پوری پاکستانی قوم کا سرشرم سے جھک گیا اور ٹیم کے کھلاڑی بوجھل قدموں کے ساتھ پویلین واپس لوٹے اور افسردگی کے عالم میں ہوٹل پہنچے۔

قومی ٹیم کے برطانوی کوچ باب وولمر نے پاکستانی ٹیم کی ائرلینڈ کے ہاتھوں شکست کو اس قدر سنجیدگی سے لیا کہ ورلڈکپ سے انخلاء کا صدمہ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور باب وولمر رات کے کسی پہر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔وولمر کی موت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلی اور کرکٹ سے وابستہ ہرشخص کی آنکھیں باب وولمر کی اچانک موت پر بھیگی ہوئی تھیں۔

ایک غیر پاکستانی ہونے کے باوجود باب سے قومی ٹیم کی ذلت آمیز شکست برادشت نہ ہوسکی جبکہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی اور کرکٹ بورڈ کے اہلکار وولمر کی موت کے بعد بھی مطمئن نظر آرہے تھے جیسے ان کیلئے قومی ٹیم کی شکست کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن بقول ”جاوید چوہدری “کے کہ باب وولمر ایک طرف اور پوری پاکستانی قوم ایک طرف تھی“۔ اس نے پاکستان کی شکست پر اپنی جان دیکر پاکستانی ٹیم کو یہ احساس دلایا کہ ورلڈکپ میں ہار محض شکست نہیں تھی بلکہ پاکستان کرکٹ کی” موت “بھی تھی۔

باب وولمر کے چل بسنے کے بعد کرکٹ ورلڈ کپ کا رنگ پھیکا پڑگیا تاہم ایونٹ کو جاری رکھا گیا ۔عالمی کپ میں ناقص کارکردگی کی بدولت انضمام الحق نے ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں نے میگا ایونٹ میں شکست کا ملبہ انضمام الحق پر ڈالتے ہوئے اسے ایک خود سرکھلاڑی کے طور پر پیش کیا ۔ نوجوان کھلاڑی شعیب ملک کو انضمام الحق کی جگہ قومی ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا جو تاحال اپنے سے وابستہ توقعات پر پورا اترنے میں ناکام چلے آرہے ہیں۔

عالمی کپ میں شکست کے بعد قومی ٹیم نے ورلڈکپ کی رنراپ ٹیم سری لنکا کو ابوظہبی میں تین ون ڈے میچز کی سیریز میں شکست دیکر اپنے ٹوٹے ہوئے حوصلے بلندکر نے کی کوشش کی ۔دو ماہ کے طویل وقفے کے بعد قومی ٹیم ایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ ٹونٹی20ورلڈکپ میں حصہ لینے جنوبی افریقہ پہنچی تو فاسٹ بولر شعیب اختر اور محمد آصف کے درمیان لڑائی کا واقعہ سامنے آیا جہاں شعیب اختر کو قصور وار ٹھہرا کر وطن واپس بھیج دیاگیا ایونٹ میں پاکستان نے شاندار کھیل پیش کیا بالخصوص عالمی کرکٹ میں پہلی مرتبہ وارد ہونے والے منفرد بولنگ سٹائل کے مالک سہیل تنویر نے اپنی کارکردگی سے بہت جلد سب کی توجہ حاصل کرلی تو دوسری جانب مصباح الحق ایک مرد بحران کے روپ میں سامنے آئے۔

ٹورنامنٹ میں پاکستان کا روایتی حریف بھارت سے دو مرتبہ ٹکرا ہوا جہاں انتہائی اعصاب شکن مقابلہ دیکھنے کو ملا پہلے معرکے کا فیصلہ بال آؤٹ پر ہوا جہاں پاکستانی کپتان کی نااہلی اور بولرز کی لاپرواہی کی وجہ سے بھارت نے فتح حاصل کی جبکہ ایونٹ کے فائنل میں مصباح الحق آخری موقع پر ایک عجیب و غریب شارٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوگئے جس سے پاکستان نے ایک جیتا ہوا میچ ہار بھارت کو پہلے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈچیمپئن بننے کا موقع فراہم کیا ۔

اس سے قبل جب قومی ٹیم ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کیلئے جنوبی افریقہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی توقومی سلیکشن کمیٹی نے آل راؤنڈر عبدالرزاق اوپنر بلے باز عمران فرحت اور سنیئر بیٹسمین محمد یوسف کو سکواڈ کا حصہ بنانے سے انکار کردیا جس سے یہ تینوں کھلاڑی دلبرداشتہ ہوگئے عبدالرزاق نے تو انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا جبکہ عمران فرحت ایک اور موقع کی آس لگائے بیٹھے رہے لیکن اس کہانی کا انجام اس وقت ہوا جب ان کھلاڑی نے انڈین لیگ سے معاہدہ کیا جس پر کرکٹ بورڈ نے فوری ایکشن لیتے ہوئے آئی سی ایل کھیلنے والے کرکٹرزپر تاحیات پابندی کا اعلان کردیا جس پر کرکٹ حلقے چیخ اٹھے تاہم چیئرمین پی سی بی نے محض محمد یوسف کو ہی واپس لانے پر اکتفاکیا کیونکہ دیگر کھلاڑی سلیکٹرزکے پسندیدہ کھلاڑیوں کی لسٹ سے باہر تھے اور اب بھی باہر ہی ہیں۔

ٹونٹی ٹونٹی ایونٹ میں بہترین کارکردگی کے بعد پاکستان کو اپنے ہوم گراؤنڈز پر جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ٹیسٹ کے بعد ون ڈے سیریز میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جسے قومی کپتان شعیب ملک نے دورہ بھارت کیلئے تیاری قرار دیکر کرکٹ شائقین کے جذبات کو ایک اور ٹھیس پہنچائی۔اسی سیریز میں انضمام الحق نے لاہور ٹیسٹ کھیل کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انٹرنیشنل کرکٹ کو الوادع کہہ دیا جس سے ایک اور عہد کا خاتمہ ہوا۔

سال2007ء کے آخر میں پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا جہاں قومی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کی توجہ کھیل پر کم اور ارد گرد کے غیرنصابی کاموں پر زیادہ رہی ۔کھلاڑی بھارتی اخبارات میں کالم لکھنے،نائٹس کلب میں راتیں گزارنے ،شاپنگ کرنے ،فلموں میں کام تلاش کرنے اور اشتہاروں کی شوٹنگ میں مصررف رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو بھارتی سرزمین پر 24سال بعد ون ڈے اور 27سال بعد ٹیسٹ سیریز میں شکست کا داغ سہنا پڑا۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ 2007ء میں پاکستانی ٹیم کو ملنے والی شکستوں کے تمام ترذمہ دار قومی کرکٹرز خود ہیں کیونکہ پورے سال میں کھلاڑیوں نے انتہائی لاپراوہی سے کھیل پیش کیا جبکہ کرکٹ بورڈ نے اس سے کہیں زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جس سے نہ صرف قومی ٹیم ٹوٹ پوٹ کا شکار رہی بلکہ پورا سال ”پاکستان “کرکٹ کے میدان میں بھی جگ ہنسائی کا سبب بنا رہا۔ جوہوا سوہوا …آئندہ کیلئے اس بات کی دعا کے ساتھ ساتھ امید کی جاتی ہے کہ قومی ٹیم مستقبل میں کبھی بھی 2007ء کے واقعات اور کارکردگی کو نہ دہرائے … اورقومی کرکٹرز اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پاکستان کیلئے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں…آمین

مزید مضامین :