چیمپئنزٹرافی ہاکی: گرین شرٹ پر ایک اور سیاہ داغ لگ گیا

Champions Trophy Hockey Green Shirt Per Aik Or Siyah Dagh Lag Gaiya

قومی ٹیم جرمنی ، انگلینڈ، سپین اور آسٹریلیا کیخلاف ناکام، فیڈریشن کے دعوے کھوکھلے ثابت جس کھیل کا سرپرست اعلیٰ رحمان ملک جیسا ”دیش بھگت “ہو اس کھیل سے ذلت ہی ملنی تھی اور وہ مل گئی

اتوار 11 دسمبر 2011

Champions Trophy Hockey Green Shirt Per Aik Or Siyah Dagh Lag Gaiya
سجاد حسین: پاکستان ہاکی ٹیم کی لگاتار ناکامیوں اور ناقص کھیل کی بدولت شائقین نے اب ہاکی ٹیم سے توقعات وابستہ کرنا چھوڑ دیں ہیں جس کیو جہ سے پاکستان کا قومی کھیل ملک میں غیر مقبول ہوتا جارہا ہے۔ ہاکی کی دنیا میں ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب پاکستان کا راج تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی کا معیار گرتا چلا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر ٹیم نے ورلڈکپ میں حصہ لیا تو 12ٹیموں میں سے 12ویں پوزیشن یعنی آخری نمبر حاصل کیا اور اگر چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کا موقع ملا تو ابتدائی چھ ٹیموں میں پاکستان کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔

آج پاکستان ہاکی ٹیم جس مقام تک پہنچ گئی ہے شاید آج سے 20سال پہلے کسی نے اس عبرتناک مقام کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا مگر آج پاکستانی ٹیم ایک ایسے عبرتناک مقام تک پہنچ چکی ہے جس سے سوائے شرمندگی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

آج پاکستان ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے تو شاید سامنے والا لڑپڑے کہ ایک ایسا کھیل جس میں فتح پاکستان ٹیم سے کوسوں دور ہے وہ کیسے قومی کھیل ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جس کھیل سے پاکستان کو سب سے زیادہ رسوائی حاصل رہی ہے وہ پاکستان کا قومی کھیل ہے۔

نیوزی لینڈ میں جاری چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم نے بڑے ارمانوں کے ساتھ حصہ لیا اور فیڈریشن نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے لیکن ٹیم نیوزی لینڈ پہنچ کر بالکل ہی لینڈ کرگئی اور کوشش کے باوجود ٹیک آف کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ پہلے سپین اور انگلینڈ کیخلاف جیت کی توقع تھی لیکن ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کو دونوں ٹیموں کیخلاف شکست کھانا پڑی جبکہ آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کیخلاف پاکستانی ٹیم بالکل آف کلر نظر آئی اور 6-1کی بدترین شکست کو اپنے مقدر کا حصہ بنا لیا۔

جنوبی کوریا کیخلاف کھلاڑیوں نے قدر مزاحمت کی اور 6-2 سے کامیابی حاصل کرکے پہلی اور اکلوتی جیت اپنے نام کی ، اس کے بعد پاکستان کا مقابلہ جرمن ٹیم سے تھا جس کا شمار ورلڈ ہاکی کی خطرناک ترین ٹیموں میں ہوتا ہے اور میچ کے نتیجہ سے بھی اس بات کا ثبوت مل گیا کہ جرمن ٹیم سب سے خطرناک اور پاکستانی ٹیم سب سے کمزور ہے۔ جرمنی نے پاکستان 5-0 سے شکست دیکر قومی ٹیم سے چھٹی پوزیشن کا میچ کھیلنے کا شرف بھی چھین لیا اور اب پاکستان ساتویں اور آٹھویں پوزیشن کے میچ کیلئے کوریا سے مقابلہ کریگا ۔

چیمپئنزٹرافی میں جس طرح پاکستانی ٹیم بری طرح پٹ گئی اب آگے اولمپک میں ٹیم سے توقعات رکھنا بیکار ہوگیا ہے۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کو قاسم ضیاء چلا رہے ہیں جوکہ سابق اولمپئن ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم رہنما بھی ہیں، فیڈریشن کے سیکرٹری آصف باجوہ گزشتہ چار سال سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے بھٹہ بٹھانے میں نمایاں کردار کے حامل ہیں۔

آصف باجوہ جب سے فیڈریشن کے سیکرٹری بنے ہیں تب سے لیکر اب تک پاکستان ہاکی ٹیم نے قوم کو خوشیاں کم اورشرمندگی زیادہ دی ہے۔ ہاکی فیڈریشن ایک ایسا ادارہ ہے جسے سیکرٹری چلاتا ہے ، صدر تو بس ایک ڈمی کا کردار ادا کرتا ہے اور پی ایچ ایف میں بھی قاسم ضیاء کا کردار ایک بے جان اور بے زبان ڈمی صدر کا ہے جو محض تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ قاسم ضیاء اگر چاہیں تو فیڈریشن اور ٹیم کی حالت بدل سکتے ہیں لیکن آصف باجوہ کے پاس نجانے کونسی گیدڑ سنگھی ہے جس سے انہوں نے قاسم ضیاء کورام کیا ہوا ہے۔

موجودہ فیڈریشن کے ہوتے ہوئے پاکستانی ٹیم اولمپکس میں ذلیل ہوئی ، اس کے بعد ورلڈکپ میں عزت گنوائی اور اب چیمپئنزٹرافی میں بھی گرین شرٹ کو داغدار کردیا لیکن مجال ہے کہ ان لوگوں سے کوئی جواب طلبی کرے۔ جس ٹیم کا سرپرست اعلیٰ رحمان ملک جیسا ”دیش بھگت“ہو اس ٹیم نے بھی وہی کارنامے سرانجام دینے ہیں جو ان کے بڑے نے اب تک انجام دئیے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان پر اس وقت ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے جو کھاؤ پکاؤ اور موج اٹھاؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تو ایسے میں انہوں نے ہاکی فیڈریشن میں بھی ایسے ہی لوگوں کو رکھا ہوا ہے جو ان کی ”وفاقی پالیسی“پر عمل کرتے ہیں۔ اس لیے ہاکی ٹیم کی شکستوں پر نہ تو کسی نے استعفیٰ دینا ہے اور نہ ہی کسی نے ذمہ داری قبول کرنی ہے۔ جس ادارے کا سزا و جزا سے کوئی تعلق نہ ہو اس کی کارکردگی بھی ایسی ہی ہوتی ہے جو پاکستان ہاکی فیڈریشن اور قومی ٹیم کی ہے۔

جس طرح ملک کے بگڑے حالات دیکھ کر لوگ یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ جب تک پیپلزپارٹی کی حکومت سے جان نہیں چھوٹتی تب تک حالات بہتر نہیں ہونگے اور اسی طرح جب تک زرادری کے حواریوں کا ہاکی فیڈریشن میں راج ہے تب تک ہاکی ٹیم سے بھی اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا بیکار ہے۔

مزید مضامین :