ایمرجنسی کا فائدہ، عامر اطلس کی پاکستان اوپن سکوائش ٹورنامنٹ میں فتح

Emergency Ka Faida Amir Atlas Pakistan Open Squash Main Fateh

غیرملکی کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کیوجہ سے کسی پاکستانی کو فتح نصیب ہوئی آجکل نوجوان کھلاڑی“ پاکستان “کیلئے نہیں شہرت اور پیسے کیلئے کھیلتے ہیں

جمعہ 23 نومبر 2007

Emergency Ka Faida Amir Atlas Pakistan Open Squash Main Fateh
اعجاز وسیم باکھری: ایمرجنسی اورسیکورٹی خدشات کی بنا پر غیر ملکی کھلاڑیوں کی عدم شرکت کا سب سے بڑا فائدہ نوجوان پاکستانی سکوائش سٹار عامر اطلس کو ہوا جنہوں نے پاکستان اوپن سکوائش چیمپئن شپ کا فائنل جیت کر طویل عرصے بعد پاکستان کو کسی بڑے ایونٹ میں فتح سے ہمکنارکرایا۔عامر اطلس نے فائنل میں اپنے ہم وطن پاکستان کے نمبر ون کھلاڑی منصور زمان کو شکست سے دوچار کیا عامر اطلس نے یہ مقابلہ محض 25منٹ کی مشقت کے بعد جیتا دوران میچ عامر نے پاکستان کے نمبر ون اور قومی چیمپئن منصورزمان کو مزاہمت کا موقع ہی نہ دیا اور فائنل جیتنے میں کامیاب ہوگئے ۔

عامر اطلس کا تعلق پشاور سے ہے اور وہ پاکستان کے سابق سکوائش لیجنڈ جان شیرخان کے بھتیجے ہیں جس سے عامر میں جان شیر خان کا عکس نظر آتا ہے اور دونوں میں کئی باتیں یکساں ہیں۔

(جاری ہے)

عامر اپنے بھائی دانش اطلس اور کزن فرحان محبوب اور وقار محبوب کے مقابلے میں زیادہ محنتی اور باٹیلنٹ کھلاڑی ہے جو بڑے سے بڑے حریف کو چند منٹوں میں زیر کردیتا ہے مگر اپنے خاندان کے بڑوں کی غلط باتوں پر عمل کرکے عامر نے کئی ایونٹس میں ناکامی حاصل کی جس کی بڑی مثال 2005ء میں برٹش اوپن جونیئر چیمپئن شپ کی تیاریوں میں لگائے گئے کیمپ میں عامر سمیت اس کے تمام کزنز اور بھائی نے پاکستان سکوائش فیڈریشن کی جانب سے نامزد کردہ کوچ رحمت خان کی نگرانی میں ٹریننگ کرنے سے انکار کردیا تھا اور سبھی پشاور میں جان شیرخان کی نگرانی میں ٹریننگ کرنے لگے جس کا نقصان یہ ہوا کہ فیڈریشن نے ان چاروں کو برٹش اوپن سکوائش ٹورنامنٹ کے سکواڈ سے آؤٹ کردیا یوں عامر اطلس کو اپنے بڑوں کے غلط فیصلوں کی سزا بھگتنا پڑی جبکہ اس کے بعد بھی کئی مرتبہ ایسے موقع آئے جب فیڈریشن اور ”خانوں “میں گشیدگی پیدا ہوئی تو نقصان محض پاکستان سکوائش اور ان نوجوان کھلاڑیوں کو اٹھانا پڑا جس سے پاکستان کا نام سکوائش کے کھیل میں گرنے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آج ٹاپ ٹین میں پاکستان کا ایک بھی کھلاڑی شامل نہیں ہے جس کا تمام تر ذمہ ذاتی پسند نہ پسند اور ”انا“کو جاتا ہے ورنہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کا سکوائش کی دنیا میں طوطی بولتا تھا لیکن موجودہ دور میں قومی کھلاڑی نہ صرف ٹاپ رینکنگ سے باہر ہیں بلکہ غیرملکی کھلاڑیوں کے خلاف کھیلتے ہوئے وہ بجائے کامیابی حاصل کرنے کے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔

پاکستان اوپن میں عامر اطلس کی کامیابی خوش آئند ضرور ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ پرفارمنس کے معیار کو اس قدر بلند کرنا ہوگا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں بالخصوص ٹاپ رینکنگ کے کھلاڑیوں کے برابر کارکردگی پیش کرنی چاہیے اور وہ مقام حاصل کرنا چاہیے جو پاکستان کی پہچان تھا۔پاکستان اوپن میں ایمرجنسی کی وجہ سے دنیاکے ٹاپ کھلاڑیوں نے شرکت سے انکار کردیا تھا جس سے ایونٹ میں کمزور حریف یعنی پاکستانی کھلاڑی رہ گئے تھے جس کا عامر اطلس نے بھر پورفائدہ اٹھاتے ہوئے کامیابی حاصل کی جبکہ اس کے برعکس خواتین کے مقابلوں میں غیرملکی کھلاڑیوں نے شرکت کی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑی کوئی معرکہ مارنے میں سرخرو نہ ہوسکی یوں خواتین چیمپئن کا اعزاز سویڈش کھلاڑی نے حاصل کیا۔

ان دونوں ایونٹس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ پاکستان میں سکوائش کا کھیل ماضی کے مقابلے میں انتہائی پستی کا شکار ہوچکا ہے جس کا تمام تر ذمہ نا اہل انتظامیہ اور نئے کھلاڑیوں کو جاتا ہے کیونکہ موجودہ کھلاڑیوں میں جذبے کا بہت بڑا فقدان ہے آجکل فیڈریشن کھلاڑیوں کیلئے تمام تر سہولیات میسر کرتی ہیں جبکہ ماضی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جان شیر خان اور جہانگیر خان نے سکوائش کی دنیا پر راج کیا کیونک وہ نہ صرف حوصلہ مند کھلاڑی تھے بلکہ ان میں پاکستان کا نام سربلند کرنیکا جذب بھی تھا جبکہ آجکل کے کھلاڑی محض شہرت اور پیسے کے حصول کیلئے کھیلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ تو کوئی بڑا کھلاڑی سامنے آسکا ہے اور نہ ہی اب تک پاکستان نے کوئی بڑا ایونٹ جیتاہے۔

جہاں جذبے سے عاری کھلاڑیوں کی بھر مار ہے وہیں پاکستان سکوائش فیڈریشن کو چلانے والے بھی کسی سے کم نہیں ہیں بلکہ وہ کھلاڑیوں سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہیں۔یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت تمام کھیلوں کی فیڈریشزز اور بورڈز میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو نہ صرف کھیل کے رموز سے ناآشنا ہیں بلکہ انتظامی امور چلانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ آج کرکٹ میں 15،ہاکی میں 12اور سکوائش میں 10سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکا۔

فٹبال جو کہ دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل ہے لیکن پاکستان میں سب سے فضول ترین کھیل کا درجہ رکھتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کھیل کے فروغ کیلئے ملنے والے پیسے سے اپنے بنک اکاؤنٹس کو بھرا جاتا ہے مگر فٹبال کے کھیل کے فروغ کیلئے کچھ نہیں کیا جاتا اور کھلاڑیوں کو سہولتوں سے بھی محروم رکھاجاتا ہے ایک سال قبل پاکستان کا فٹبال کی عالمی رینکنگ میں 153واں نمبر تھا مگر محض 7ماہ میں پاکستان 181نمبر پر چلا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بجائے ترقی کرنے کے ہم تنزلی کی جانب محوسفر ہیں ۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی ہے اگر کمی ہے تو انتظامی امور کوبہترطریقے سے چلانے کی ہے اور بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم آزادی کے ساٹھ سال گزرانے کے باوجود سفارش اور ذاتی پسند نہ پسند کے آسیب سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور بجائے اس سے نجات حاصل کی جائے ہم مزید اس لعنت کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں دنیا کی تمام قومیں ترقی کی جانب سفر کررہی ہیں جبکہ پاکستان ایک ایسا واحد ملک ہے جو محض اخباری بیانوں اور کھوکھلے ڈئیلاگ میں ترقی کی منازل طے کررہا ہے لیکن حقیقت میں ہم الٹے قدموں پر چل رہے ہیں جو کہ ہم سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

مزید مضامین :