جاوید میاں داد اور شاہد آفریدی کرکٹ ہیروز

Javed Miandad Or Shahdi Afridi Cricket Heroes

11ِ اکتوبر2016ء کو پہلے جاوید میاں داد نے بیان دیا کہ اُنھوں نے بڑاہونے کے ناطے شاہد آفریدی کو معاف کر دیا اور پھر کچھ دیر بعد خبر آئی کہ شاہد آفریدی اور جاوید میاں داد کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور شاہد آفریدی نے جاوید میاں داد سے شکوہ کیا ہے کہ وہ اُنکے بڑے بھائی ہیں لیکن میرے بارے میں بات غلط کی ۔بے داغ کیرئیر پر داغ لگانے کی کوشش کی ۔لہذا اُنھیں نے الزامات واپس لینے چاہیئں

Arif Jameel عارف‌جمیل ہفتہ 15 اکتوبر 2016

Javed Miandad Or Shahdi Afridi Cricket Heroes
11ِ اکتوبر2016ء کو پہلے جاوید میاں داد نے بیان دیا کہ اُنھوں نے بڑاہونے کے ناطے شاہد آفریدی کو معاف کر دیا اور پھر کچھ دیر بعد خبر آئی کہ شاہد آفریدی اور جاوید میاں داد کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا اور شاہد آفریدی نے جاوید میاں داد سے شکوہ کیا ہے کہ وہ اُنکے بڑے بھائی ہیں لیکن میرے بارے میں بات غلط کی ۔بے داغ کیرئیر پر داغ لگانے کی کوشش کی ۔

لہذا اُنھیں نے الزامات واپس لینے چاہیئں۔ یہ بھی خبر سامنے آئی کہ بصورت ِدیگر شاہد آفریدی خود کو کلیئر کروانے کیلئے عدالت ضرور جائیں گے۔
جاوید میاں دا د نے بھی اپنے اُوپر لگائے گئے پیسوں کے مسئلے والے بیان کو واپس لینے کیلئے کہا اور یہ بھی کہا کہ ایک دو روز میں الزامات پر وضاحت دے کر معاملہ ختم کر دوں گا۔

(جاری ہے)

جاوید میاں داد اور شاہد آفریدی کے درمیان لفظی جنگ کو ختم کروانے میں کرکٹ کے چند دوست جن میں سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم بھی شامل ہیں نے اہم کردار ادا کیا۔


اس سے پہلے عمران خان نے بھی بیان دیا تھاکہ جاوید میاں دا د ہی وہ کھلاڑی ہیں جو مشکل میں کام آئے۔لہذا دونوں سٹارز کو یہ بات ذہین میں رکھنی چاہیئے کہ اس بیان بازی سے کرکٹ کو نقصان ہو گا۔
کھلاڑی سے ہیرو:
دونوں بڑے کرکٹرز کے درمیان معاملہ تواگلے چند دِنوں میں بخوبی حل ہو جائے گا۔لیکن آئندہ کیلئے یہ خیال رکھنا پڑے گا کہ پاکستان کے ماضی سے لیکر حال تک کے سب کھلاڑی قابل ِ تعریف ہیں۔

چاہے اُنھوں نے کسی بھی زمرے میں حصہ لیا ہواور پوری قوم اُن سے پیار کرتی ہے بصورت ِدیگر چونکہ شکست بھی کھیل کا حصہ ہے اُس وقت کچھ مدت کیلئے اُن پر تنقید بھی کر لیتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کھلاڑی کوئی بھی ہو اُن میں سے ہیرو وہی بناتا ہے جو اپنے کھیل کے ساتھ شائقین کا دِل بھی جیت لے۔لہذا ایسے نام کم ہی ہو تے ہیں جن میں سے اپنی اپنی جگہ پر اور صلاحیتوں کے مطابق لیجنڈ جاوید میاں داد اور شاہد آفریدی بھی بڑے کرکٹر اور ہیرو ہیں۔


شارجہ کا کنگ اور بوم بوم:
1986ء میں بھارت کے خلاف شارجہ میں ایک روزہ میچ کی آخری گیند پر شاندار یاد گار چھکا لگا کر ،1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل اور پھر انگلینڈ کے خلاف فائنل جیتنے میں اہم کھلاڑی کا کردار ادا کر کے اور اس سے پہلے 1976ء میں نیوازی لینڈ کے خلاف پاکستان کی طرف سے ہوم سیریز میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے19سالہ جاوید میاں داد نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنا کر اگر اُس وقت کے نوجوانوں کا دِل جیت لیا اور بعدازاں اپنے 20سالہ کرکٹ کے کیرئیر میں پوری پاکستان قوم کی پہچان بن کر مارچ 1996 ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد ریٹائر ہوئے تو دوسری طرف شاہد آفریدی کے انٹرنیشنل کرکٹ کیرئیر کا آغاز بحیثیت لیگ سپین باؤلراکتوبر1996ء میں ایک روزہ میچوں سے ہوا۔


شاہد آفریدی کی پہلے میچ میں تو بیٹنگ ہی نہ آئی اور دوسرے میچ میں یہ دلچسپ ہوا کہ باؤلر کی بجائے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو انتہائی جارحانہ بلے باز مِل گیا جس نے سری لنکا کے خلاف کم ترین عمر 16سال اور217دِ ن میں 37گیندوں پر ایک روزہ میچ کی تاریخ ساز سنچری بنا کر پاکستان کے حق میں نیا ریکارڈ بنا دیا۔
وہ دِن اور پھر اُنکے کیرئیر کے اِن 20سالوں میں اُنھوں نے کب پر فارمنس دکھائی اور کب نہیں لیکن اس سے پاکستان کا کوئی شہری، تجزیہ کار اور میڈیا انکار نہیں کر سکتا کہ جب بھی دکھائی تو دُنیا کرکٹ میں" بوم بوم" کے خطاب سے پکارے گئے ۔

لہذا شارجہ کا کنگ یا بوم بوم جیسے بڑے خطاب ایسے نہیں مِل جاتے۔
واقعہ:
" شاہد آفریدی سے متعلق عوام کی محبت کا اندازہ یہاں سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ایک مسافر خیبر پختون خواہ کے ایک بازارکے ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا اور ٹی وی پر ایک روزہ میچ لگا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد آواز آئی شاہد آفریدی بیٹنگ کرنے آگیا اور اگلے چند منٹوں میں دوکان پر ایک مجمع تھا۔

اگر کوئی پوچھتا پاکستان کا کیا اسکور ہو اہے تو جواب آتا شاہد آفریدی کھیل رہا ہے۔اس دوران شاہد آفریدی نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے چند چوکے چھکے مارے اور آؤٹ ہو گئے۔ کسی نے پھر پوچھا اب کیا اسکور ہوا ہے ؟تو سب ہوٹل سے واپس جاتے ہوئے بس یہی جواب دے رہے تھے کہ شاہد آفریدی آؤٹ ہو گیا ہے"۔
لفظی جنگ کا آغاز:
جاوید میاں داد سے میچ کی جیت کی اُمید ہوتی تو شاہد آفریدی سے جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے ایک بڑااسکور کرنے کی اُمید رہتی۔

عوام نے دونوں کو دِل کہ گہرایوں سے چاہا ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کہ جاوید میاں داد نے بحیثیت کوچ اُنکے کیر ئیر کو انتہائی شفیق طریقے سے اُبھارنے کی کوشش بھی کی۔لیکن 9ِ اکتوبر 2016ء کو ایک کتاب کی تقریب ِرُونمائی کے دوران جب پریس کانفرنس میں شاہد آفریدی سے یہ پوچھا گیا کہ جاوید میاں داد کا کہنا ہے کہ آپ پیسوں کیلئے " فیئر ویل" میچ مانگ رہے ہیں تو اُس کے جواب میں شاہد آفریدی نے کچھ اس طریقے سے یہ بیان دیاکہ " جاوید میاں داد کا مسئلہ ہمیشہ سے ہی پیسہ رہا ہے"۔

اس پر سارے الیکڑونک میڈیا و سوشل میڈیا نے شاہد آفریدی کے خلاف محاذ بنا کر اُنکے کرکٹ کیرئیر پر کیچڑ اُچھالنا شروع کر دیا۔
جاوید میاں داد ایک ہیرو ہیں اور رہیں گے۔گو کہ اُنھیں دِلی دُکھ بھی ہوا ہے اور اُنھوں نے بھی چند الفاظ جذباتی انداز میں بول کر شاہد آفریدی پر" میچ فکسنگ" کا الزام لگا کر معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا۔ شاہد آفریدی بھی پاکستان کے ہیرو ہیں اور رہیں گے اس لیئے اُنھوں نے بھی بڑا پن دکھاتے ہوئے اپنے بیان پر ہی افسوس کا اظہار کیا۔


اسکے بعد اچانک اگلے روز اُس وقت صورت ِحال میں ایک دفعہ پھر تناؤ آگیا جب شاہد آفریدی نے جاوید میاں داد کے اُنکے خلاف میچ فکسنگ کے بیان پر اپنے کلا ء سے مشاور ت کی او ر 13 ِاکتوبر2016ء تک جاوید میاں داد کو لیگل نوٹس بھیجنے کی خبر سامنے آئی۔
پاکستان کے کرکٹ کے شائقین نہ تو بحیثیت کرکٹر جاوید میاں داد کے خلاف کچھ سُن سکتے ہیں اور نہ ہی شاہد آفریدی کے کرکٹ کیرئیر کے اعدادوشمار سے اُنکو دِلچسپی ہے ۔وہ یہ جانتے ہیں وہ دونوں جب بھی کھیلے پاکستان کا پرچم بلند کرنے کیلئے کھیلے اور کا ش مستقبل میں بھی نئے پرانے کھلاڑیوں میں ایک جوڑ و عزت ِاحترام نظر آئے اور اُن شر پسند عناصر سے بچیں جو کھیل کے میدان بھی تفرقہ ڈلوانے والوں میں سب سے آگے ہیں۔ آمین!۔

مزید مضامین :