مصباح الحق کی لازوال کپتانی ، کوئی قومی کپتان مصباح کی طرح کامیاب نہیں رہا

Misbah Ul Haq Ki Lazwal Kaptani

مسٹر ٹک ٹک کہنے والے آج شرمندگی کے مارے مصبا ح کو عظیم کپتان کہنے پر مجبور۔۔۔ یاسر شاہ کی کوالٹی باؤلنگ نے پاکستان ٹیم کو مضبوط یونٹ میں بدل دیا

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری ہفتہ 7 نومبر 2015

Misbah Ul Haq Ki Lazwal Kaptani
  • پاکستان نے انگلینڈ کو ایک اور ٹیسٹ سیریز میں شکست دیکر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی دھاک بیٹھا دی ہے۔ پہلے ٹیسٹ میں مقابلہ ہار جیت کے بغیر ختم ہوا مگر پاکستان نے اگلے دونوں میچز میں شاندار کارکردگی دکھا کر انگلینڈ کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا۔ پاکستان کی اس جیت سے قومی کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ رینکنگ میں ترقی ہوگئی اور پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا۔

    11نومبر سے انگلینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز میں بھی قومی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے تاہم قومی ٹیم کو مصباح الحق کی عدم موجودگی کا نقصان ہوسکتا ہے اور ون ڈے میں پاکستان کی رینکنگ نویں نمبر کی ہے تاہم ٹیسٹ جیتے پر قومی ٹیم کا جو اعتماد بڑھا ہے وہ ون ڈے سیریز میں کام آئیگا۔
    یہ بات سچ ہے کہ ایشز چیمپئن انگلش ٹیم پاکستان کیلئے ترنوالہ نہیں تھی مگر میزبان ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی دکھائی جس کا کریڈٹ کپتان مصباح الحق کو جاتا ہے، ٹیسٹ میچ میں 20 وکٹیں لینا آسان نہیں ہوتا مگر پاکستانی سپنرز نے بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا۔

    (جاری ہے)

    پاکستان نے عالمی نمبر 2 پوزیشن حاصل کرکے خود کو کرکٹ کی ایک قوت کے طور پر منوایا جسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ شارجہ میں محمد حفیظ کی اننگز فیصلہ کن ثابت ہوئی، دبئی میں وہاب ریاض نے ایسا ہی کردار ادا کرتے ہوئے فتح چھین لی تھی،5 روز تک کھیل چلتا رہا، اس لیے پچ کو ٹیسٹ کرکٹ کے لیے بْرا نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ بات سچ ہے کہ انگلینڈ نے توقع سے زیادہ مزاحمت کی، ان کی لمبی بیٹنگ لائن کو زیر کرنا ایک مشکل کام تھا لیکن سپنرز نے صبر اور پلاننگ سے مشن مکمل کیا، مصباح الحق نے سپنرز سے جس طرح کام لیا ویسا کام فاسٹ باؤلرز سے تو نہیں لے سکے مگر پیسرز کو بھی ناکام نہیں کہا جاسکتا، انھوں نے اہم وکٹیں اڑائیں اور دباوٴ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

    ایشز چیمپئن ٹیم متحدہ عرب امارات پہنچی تو ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کیلئے یہ سیریز 2012ء کے مقابلے میں مشکل ہوگئی کیونکہ قومی ٹیم بکھری ہوئی ہے اور انگلینڈ نے آسٹریلیا کیخلاف تسلسل کے ساتھ کھیل پیش کیا ہے اور یہ تسلسل پاکستان کیخلاف بھی دیکھنے میں آئیگا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کی جیت کی جب گہری میں جھانکا جائیگا تو انگلینڈ کو بھی حیرانی ہوگی کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔

    مصباح الحق ایک بہترین کپتان ہیں انھیں ابھی ریٹائر نہیں ہونا چاہیئے، ان کی موجودگی میں ڈسپلن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ شاندار کامیابی کے بعد کھلاڑیوں میں زیادہ اعتماد پیدا ہوا۔
    انگلینڈ کیخلاف قومی ٹیم کی فتح کے حقیقی ہیرو یاسر شاہ ٹیسٹ کرکٹ کی 100 سالہ تاریخ میں سب سے کم میچز میں زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بن گئے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں 8 وکٹیں حاصل کر کے یاسر شاہ ٹیسٹ کرکٹ کی 100 سالہ تاریخ میں سب سے کم میچ کھیل کر زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بن گئے ہیں۔

    یاسر شاہ اب تک 12 ٹیسٹ میچز میں 24.17 کی اوسط سے 76 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جب کہ یاسر شاہ سے قبل کوئی بھی کرکٹر 100 برس میں یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔ یاسر شاہ سے قبل آسٹریلیا کے فاسٹ بولر چارلی ٹرنر نے 19 ویں صدی کے آغاز میں اپنے ابتدائی 12 ٹیسٹ میچز میں 80 شکار کیے تھے۔یاسر شاہ نے انگلیڈ کے خلاف 2 ٹیسٹ میچز میں مجموعی طور پر 15 وکٹیں حاصل کیں اور سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

    اس کے علاوہ یاسر شاہ پاکستان کی جانب سے سب سے کم میچز میں 50 وکٹیں حاصل کرنے والے ٹیسٹ بولر بھی ہیں، انھوں نے یہ کارنامہ صرف 9 ٹیسٹ میچز میں انجام دیا اور ٹیسٹ کرکٹ کے 10 بہترین بولرز میں شامل ہو گئے۔آسڑیلیا کے مایہ ناز لیگ سپنر شین وارن بھی یاسر شاہ کو دنیا کا بہترین لیگ سپنر قرار دے چکے ہیں جب کہ عبد القادر بھی یاسر شاہ کی بہترین بولنگ کے معترف ہیں جوکہ نوجوان باؤلرز کی کوالٹی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    پاکستانی ٹیم کو اس سیریز میں شعیب ملک کی شاندار آل راوٴنڈ کارکردگی سے خاصی مدد ملی، انھوں نے پہلے ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنائی جبکہ بعد میں بطور بولر بھی صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہے،اب وہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے اور اتنی خوشگوار یادوں کے ساتھ کھیل سے علیحدگی انھیں ہمیشہ یاد رہے گی، مصباح الحق اس سیریز میں بھی اچھی بیٹنگ و کپتانی کرتے دکھائی دیے، بڑھتی عمر کا اثر ان کے کھیل پر بالکل نہیں پڑا، ان کے ساتھ یونس خان کیلیے بھی یہ سیریز یادگار رہی اور وہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والے بیٹسمین بن گئے۔

    چیئرمین شہریار یار خان نے شارجہ میں فتح کے بعد ایک بار پھر کہاکہ مصباح الحق کو جانے نہیں دینگے، سیریز کے دوران ان سے بار بار ریٹائرمنٹ کا سوال کیا جاتا رہا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا،وہ ابھی خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے فٹ سمجھتے ہیں،مصباح الحق نے پاکستان ٹیم کی قیادت 2010میں سنبھالی جب سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی وجہ سے بحران کی صورتحال اور وقار کی بحالی کا چیلنج درپیش تھا،اس وقت ٹیم کو دھیما مزاج رکھنے والے قائد اور انضمام الحق کا خلا پْر کرنے کیلئے ایک ذمہ دار بیٹسمین کی ضرورت تھی۔

    مصباح الحق نے یہ دونوں ضرورتیں پوری کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عروج کی جانب سفر جاری رکھا،ثابت قدمی سے کی جانے والی اس پیش رفت کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کیخلاف شارجہ ٹیسٹ میں فتح کے ساتھ 9سال بعد عالمی رینکنگ میں دوسری پوزیشن پر آچکی ہے، اس میں سینئر بیٹسمین کا بطور کھلاڑی اور قائد ریکارڈ قابل رشک ہے۔مارچ2001 میں نیوزی لینڈ کیخلاف ڈیبیو کرنے والے مصباح الحق نے کیریئر کی دوسری اننگز شروع کرنے کیلئے طویل انتظار کیا،2003سے2007تک وہ ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیل پائے،بعد ازاں کم بیک کے بعد اپنی افادیت منواتے گئے، انھوں نے مجموعی طور 63ٹیسٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 48.89 کی اوسط سے 4352 رنز سکور کیے ہیں، اس دوران 9 سنچریاں اور32 ففٹیز بنا چکے، ایک اننگز میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور161 رنز رہا، سٹار بیٹسمین 20 ٹیسٹ فتوحات کے ساتھ پاکستان کے کامیاب ترین کپتان ہیں۔


مزید مضامین :