پاک بھارت سرحدی کشیدگی سے کھیلوں پر” بدترین سرجیکل سٹرائیک“

Pakistan Vs India

بھارت نے پاکستان دشمنی کی آڑ میں کھیلوں کے تعلقات کو بھی کراس فائرنگ میں بھون ڈالا

Ejaz Wasim Bakhri اعجاز وسیم باکھری منگل 11 اکتوبر 2016

Pakistan Vs India

سرحد اور سفارتی سطح پر پاک بھارت کشیدگی کوئی نہیں بات نہیں ، گزشتہ70 برسوں میں تقریباً کوئی سال ایسا نہیں گزرا جب پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی نہ آئی ہو اور اس کشیدگی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر کھیل ہوئے ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد اور سفارتی کشیدگی کو کبھی کھیل کے میدان میں لایا گیا ہو، ہر بار بھارت نے یہ ذمہ داری لی اور لا تعداد مرتبہ بھارت نے سفارتی اور سرحدی کشیدگی کو جواز بناکر پاک بھارت سپورٹس روابط منقطع کیے جس سے کشیدگی میں کمی آنے کی بجائے اسے مزید تقویت ملی۔ حالیہ کشیدگی نے ایک بار پھر پاک بھارت کرکٹ ، ہاکی اور کبڈی مقابلے شکوک میں ڈال دئیے اور موجودہ حالات کے پیش نظر بھارت کی جانب سے کوئی ایسا مثبت اشارہ نہیں ملا کہ وہ کھیلوں کے روابط کوبرقرار رکھنے یا بہتر کرنے کی کوشش کریگا۔

(جاری ہے)

موجودہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ انوراگ ٹھاکر کا تعلق مقتدر پارٹی بھارتی جنتا پارٹی بی جے پی سے اور انوراگ ٹھاکر ہماچل پردیس کے سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے ہیں اور اڑی حملے کے بعد انوراگ ٹھاکر نے پاکستان کرکٹ پر حملے شروع کردئیے ہیں۔ حالانکہ بطور بی سی سی آئی بورڈ کے صدر اور آئی سی سی کے رکن انوراگ ٹھاکر کو امن اور دوستی کی بات کرنا چاہئے اور کھیلوں کے ذریعے کشیدہ حالات کو بہتر کرنے کیلئے مثبت کردار ادا کرنا چاہئے لیکن کیونکہ موصوف کا تعلق بی جے پی سے ہے اور وہ اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے انوراگ ٹھاکر بیان بازی کرکے جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔انوراگ ٹھاکر نے بیان دیا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ایسے حالات میں کوئی امید رکھے کہ کرکٹ کھیلی جائے گی۔ انوراگ ٹھاکر کی جانب سے ایک طرف پاکستان کے خلاف مسلسل بیان بازی اور دوسری طرف بین الاقومی سطح پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو تنہا کرنے کی دھمکی دینا عالمی سطح پر کرکٹ کو نقصان پہچانے کی کوشش ہے جس پر آئی سی سی بھی خاموش ہے کیونکہ آئی سی سی بھارتی کمپنیوں کے پیسے پر چلتا ہے اور بھارت کی بدمعاشی پر آئی سی سی نے ہمیشہ کی طرح اس بار پھر خاموشی اختیار کررکھی ہے حالانکہ بھارت نے گزشتہ برس پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ پاکستان کا دورہ کریگا لیکن سیاسی مخالفت ، سرحدی کشیدگی اور سفارتی چپقلیش کی وجہ سے کھیلنے سے انکار کرچکا ہے اور اب ایک بار پھر بی سی سی آئی نے پاکستان کیخلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے جس سے خطے میں کرکٹ کو نقصان ہوگا اور دونوں بورڈز کو اس کے شدید مالی خسارے برداشت کرنا پڑیں گے۔ بھارتی بورڈ کی جانب سے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا جواب دینے کیلئے پی سی بی سے کسی نے جواب نہیں دیا کیونکہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ نجم سیٹھی ہمسایہ ملک کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے ہیں جبکہ شہریارخان کے تو بھارت میں دوست اور عزیز ہیں کہ ہر شہر میں ان کا والہانہ استقبال کرنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی پاکستانی کو تو جواب دینا ہی تھا اور یہ ذمہ داری بلکہ اہم فریضہ آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی نے نبھایا۔ احسان مانی نے اس تمام صورتحال پر بیان دیا کہ انوراگ ٹھاکر کے غیر سنجیدہ اور بچگانہ بیانات نے پاکستان کو بھارت کے خلاف مضبوط کیس پیش کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آئی سی سی کے کسی ٹورنامنٹ میں بھارت کے ساتھ ایک ہی گروپ میں شمولیت پر راضی نہ ہو کیونکہ ان دونوں ممالک کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے ایک گروپ میں رکھا جاتا ہے تاکہ شائقین کرکٹ بڑے پیمانے پر متوجہ ہوں۔ اس طرح آئی سی سی بہت پیسہ کماتا ہے جس کا تیسرا حصہ بھارت کو جاتا ہے۔ احسان مانی کی یہ بات درست ہے کہ بھارتی بورڈ کیخلاف پی سی بی کو سخت موقف اختیار کرنا چاہئے کرکٹ میں جس طرح بھارتی بورڈ کے صدر سیاست اور سرحدی کشیدگی کی آڑ لے رہے ہیں ایسے حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو عالمی سطح پر بھارتی بورڈ کیخلاف لابنگ کرنی چاہئے اور دنیا کے دوسرے بورڈز کو واضح پیغام دینا چاہئے کہ آپ لوگ کھیل کی بہتری اور ترقی کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اور اس کے برعکس بھارتی بورڈ انتہا پسندی کی وجہ سے ایشائی خطے میں کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے۔ آئی سی سی کی بورڈ میٹنگ جنوبی افریقی شہر کیپ ٹاؤن میں گیارہ اکتوبر سے چودہ اکتوبر تک منعقد ہورہی ہے جس میں پاکستان کی جانب سے ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی اور چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد شریک ہونگے۔ شہریارخان ان دنوں لندن میں زیرعلاج ہیں جس کی وجہ سے نجم سیٹھی اجلاس میں شریک ہونگے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے سامنے نجم سیٹھی کس مضبوط اور قوت کے ساتھ پاکستان کا موقف پیش کرینگے اس پر خدشات برقرار ہیں اور یہ خدشات بجا بھی ہیں کیونکہ ایک سال قبل یہی نجم سیٹھی تھے جنہوں نے بھارت کے ساتھ چھ سال میں آٹھ سیریز کا معاہدہ کیا ، اس وقت اس معاہدے پر تنقید کو نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ کے ساتھ زیادتی قرار دیا تھا لیکن اب سب نے دیکھ لیا جو سبز باغ نجم سیٹھی نے دکھائے تھے وہ محض سبز باغ ہی ثابت ہوئے اور تا حال بھارت نے پاکستان کے ساتھ پہلی سیریز نہیں کھیلی اور مزید سات سیریز وہ کیا کھیلیں گے۔ ایسے حالات میں نجم سیٹھی کی آئی سی سی اجلاس میں شرکت اور پاکستانی موقف کی مضبوط انداز میں پیش کرنے کی امید بھی خاصی کم ہے۔

مزید مضامین :