پھر ”ریورس گیئر“ لگنے والا ہے؟

Phir Reverse Gare Lagne Wala Hai

پاکستان کرکٹ میں تبدیلی کے نام پر ایسے لوگ دوبارہ پی سی بی کا حصہ بننے والے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے بری طرح ناکام ہوچکے ہیں

Farhan Nisar فرحان نثار جمعرات 7 اپریل 2016

Phir Reverse Gare Lagne Wala Hai

ورلڈ ٹی20میں قومی ٹیم کی کارکردگی کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستانی ٹیم نے ون ڈے اور ٹی20فارمیٹس میں قطعاً اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ون ڈے رینکنگ میں پاکستانی ٹیم اس وقت آٹھویں نمبر پر ہے اور نویں نمبر کی ٹیم ویسٹ انڈیز محض ایک پوائنٹ کے فرق سے پاکستان سے پیچھے ہے۔ٹی20فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم کا درجہ ساتواں ہے اور یہاں سری لنکا کی ٹیم دو پوائنٹس کے فرق سے آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ون ڈے میں ویسٹ انڈیز اور ٹی20میں سری لنکا کی ٹیمیں پاکستان سے پیچھے ہیں مگر ویسٹ انڈیز کی ٹیم ٹی20 فارمیٹ میں عالمی چمپئن اور رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہے اور اسی طرح سری لنکا کی ٹیم ون ڈے رینکنگ میں پانچویں درجہ رکھتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں ٹیمیں کسی ایک فارمیٹ میں اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں لیکن پاکستانی ٹیم محدود اوورز کے دونوں فارمیٹس میں نچلے درجوں پر موجود ہے جبکہ بھارت،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیمیں پاکستان سے کوسوں آگے ہیں۔

(جاری ہے)


یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اس وقت محدود اوورز کی کرکٹ میں دوسری ٹیموں سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور گرین شرٹس کو دوبارہ ٹاپ ٹیموں کے ہم پلہ بنانے کیلئے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے ارباب اختیار کا اس کھیل کیساتھ مخلص ہونا بہت ضروری ہے ۔اگر اب بھی درست فیصلے نہ کیے گئے تو پھر ممکن ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ2019ء میں جگہ بنانے کیلئے بھی کوالیفائنگ راوٴنڈ کھیلنا پڑے ۔یہ تمام خدشات پاکستان کے شائقین کرکٹ کو دکھائی دے رہے ہیں مگر جن لوگوں نے ان خدشات کو دور کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کو بہتری کی جانب لے کر جانا ہے اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ ایک مرتبہ پھر ویسے ہی فیصلے کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں جو ماضی میں ”فائر بیک“ ہوچکے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہیڈ کوچ کی تلاش کیلئے جو اشتہار دیادیا اس میں سب سے اہم شرط پانچ سالہ کوچنگ کا تجربہ ہے اور عاقب جاوید ایسے پاکستانی کوچ ہیں جو اس معیار پر پورا اترتے ہیں مگر کل شام عاقب جاوید نے ہیڈ کوچ کے عہدے کیلئے درخواست دینے سے انکار کردیا ہے جو یقینا بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ عاقب کو ”خدشہ“ ہے کہ وسیم اکرم اور رمیز راجہ پر مشتمل کوچ فائنڈنگ کمیٹی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی غیر ملکی امیدوار کو یہ عہدہ دلانا چاہتی ہے۔ غیر ملکی کوچ کے حوالے سے وسیم اکرم کا ”فیورٹ“ ڈین جونز ہے جو پی سی بی کی وضع کردہ ”کسوٹی“ پر پورا نہیں اترتا مگر وسیم اکرم کا ساتھ اور پی ایس ایل میں فاتح ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کا کوچ ہونا ڈین جونز کی سب سے بڑی ”خوبی“ بن گیا ہے۔اگر پی سی بی اپنے ہی معیار کو جھٹلاتے ہوئے ڈین جونز کو قومی ٹیم کا کوچ بناتا ہے تو یہ ایک قدم آگے بڑھنے کی بجائے دو قدم پیچھے کی جانب سفر ہوگا ۔پاکستان کرکٹ ایسے ہی ”ریورس گیئرز“ کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہی اور پاکستان کرکٹ بورڈ اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہا۔ پی سی بی جب اپنے ہی وضع کردہ قوانین کی دھجیاں اڑائے گا تو پھر کھلاڑیوں یا کوچز سے یہ توقع نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں۔
2014ء سے پاکستان کرکٹ کو سب سے زیادہ نقصان نجم سیٹھی اور ان کے بعد سابق کپتان معین خان نے پہنچایا ہے جنہیں سب سے پہلے قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا اور ان کی کوچنگ میں پاکستانی ٹیم پہلی مرتبہ ورلڈ ٹی20کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔اس کارکردگی کا ”انعام“معین خان کو چیف سلیکٹر بنا کر دیا گیا اور پھر انہیں قومی ٹیم کے مینجر کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی جنہوں نے ٹیم میں گروپ بندی کو ہوا دی اور کوچ وقار یونس کے کام میں بھی مداخلت کی۔جس مینجر کا کام بیرون ملک ٹورزپر کھلاڑیوں میں نظم و ضبط قائم رکھناہے وہ خود ورلڈ کپ 2015ء میں کسینو میں ”پکڑا“ گیا اور اب سننے میں آرہا ہے کہ محسن خان کے انکار کے بعد معین خان کو چیف سلیکٹر کی ذمہ داری سونپی جارہی ہے ۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ کی باگ دوڑ کم و بیش ہر دور میں ایسے افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے جنہیں خود کرکٹ کا کچھ پتہ نہیں اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے جو کھلاڑی میدان میں پاکستان کیلئے کارنامے دکھاتے رہے ہیں وہ بھی اپنے مفادات کی خاطر ایسے افراد کے ہاتھوں ”یرغمال“ بنتے ہوئے ملکی کرکٹ کی تباہی میں پورا پورا حصہ ڈالتے ہیں۔ ورلڈٹی20میں ناکامی کے بعد تبدیلیوں کی جو ہوا شروع ہوئی ہے وہ پاکستان کرکٹ کو تبدیل نہیں کرے گی کیونکہ ملکی مفاد پر ذاتی فائدے کو ترجیح دینے والے ایک مرتبہ پھر ریورس گیئر لگاتے ہوئے ایسے افراد کو دوبارہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا حصہ بنا دیں گے جو کچھ عرصہ پہلے ”چور دروازے“ سے پی سی بی میں داخل ہونے کے بعد ”ناکامیوں کا ٹوکرا“ سر پر اٹھائے بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس گئے تھے!

مزید مضامین :