قومی کرکٹ ٹیم کی قیادت کیلئے ایک بار پھر جنگ چھڑگئی

Qoumi Cricket Team Main Qiadat Ki Jang Chir Gaye

ٹیم کے پاس کھیلنے کو میچز نہیں ،کھلاڑی کپتانی کیلئے لڑرہے ہیں بورڈ کے نئے چیئرمین کیلئے سیاستدانوں اور موقع پرستوں کے درمیان سخت مقابلہ جاری

بدھ 3 ستمبر 2008

Qoumi Cricket Team Main Qiadat Ki Jang Chir Gaye
اعجاز وسیم باکھری : کچھ روز قبل تک دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقع تھی کہ جیسے جیسے ملکی حالات میں بہتری آنے کی توقع ہے ویسے ہی پاکستان کرکٹ بھی سدھر جائے گی لیکن اب جوں جوں ملکی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں ویسے ہی کرکٹ میں بہتری کے آثار بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں جس سے ایک بار پھر پاکستان کرکٹ اندھیرے کی جانب چل پڑی ہے۔نسیم اشرف کی رخصتی کے بعد ایک امید کی کرن نظر آئی تھی لیکن وفاقی حکومت اور سپورٹس بورڈ کی جانب سے پی سی بی کے متوقع چیئرمین کیلئے جن جن ناموں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ان میں بیشتر تو کرکٹ کے قواعد و ضبط کے بارے میں بھی نہیں جانتے ہیں اور جو چند دوسرے ہیں وہ ایک ایک بارپہلے بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر مزے لوٹ چکے ہیں۔

پاکستان میں ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمیشہ یہاں ایسے شحض کو کرسی پر بٹھایا جاتا ہے جومذکورہ منصب کے قابل ہی نہیں ہوتا ،چاہے وہ وزیر اعظم ہو یا صدر یا پھر کرکٹ بورڈ کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو ہمیشہ من پسند لوگوں کو نوازا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا آگے کی جانب اور ہم الٹے قدموں پر چل رہے ہیں۔

(جاری ہے)

نسیم اشرف کے متبادل کے طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کیلئے سابق ٹیسٹ کرکٹر اعجاز بٹ کا نام لیا جارہا ہے۔

اعجاز بٹ ان دنوں پی سی بی کے گورننگ بورڈ کے سینئر ترین رکن بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں جو سب سے بڑا ایڈواٹیج حاصل ہے وہ وفاقی وزیر دفاع احمد مختار کے بہنوئی ہونے کا ہے ۔احمد مختار پیپلزپارٹی کے سینئر ترین رہنما ہیں اور وہ بھر پور کوشش کررہے ہیں کہ اعجاز بٹ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنوایا جائے جبکہ دوسرے نمبر پر سندھ کی مشہورشخصیت ذوالفقار مرزا ہیں جو اس وقت سندھ کابینہ میں صوبائی وزیر داخلہ کے منصب پر فائز ہیں ان کی تقرری کے بارے میں بھی افوائیں سنی گئی ہیں۔

اس کے بعد پی سی بی کے سابق سربراہ عارف خان عباسی ،ماجد خان ،جنرل توقیر ضیاء اور انتخاب عالم کے بارے میں بھی اخبارات میں آئے روز خبریں شائع ہورہی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک پی سی بی کا نیا چیئرمین ہوسکتا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا یہ لوگ بورڈ کے کام کو خوش اسلوبی سے چلابھی سکیں گے یا محض نسیم اشرف کی پالیسی کو جاری رکھنے پر اکتفاکرینگے؟۔

حکومت نے ابھی تک نئے چیئرمین کا انتخاب نہیں کیا کیونکہ خود حکومت آصف زرداری کو پاکستان کا نیاغیر متنازع صدر منتخب کرنے کیلئے ہرطرح سے ہاتھ پاؤں ماررہی ہے لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کریں توآصف زرداری ہی اگلے صدر پاکستان ہونگے ۔یہی وجہ ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین کی تقرری تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔کرکٹ کے ماہرین اورسابق کرکٹرز کا موقف ہے کہ پاکستان کرکٹ ان دنوں شدید مسائل کاشکارہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ بورڈ کا چیئرمین کسی سیاستدان کے مامے چاچے کے بجائے کسی قابل کرکٹر کو بنائے تاکہ پاکستان کرکٹ بحران سے نکل سکے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ نئے چیئرمین کیلئے پی سی بی کے سابق چیئرمین توقیر ضیاء انتہائی موزوں امیدوار ہیں کیونکہ وہ ماضی میں بھی انتہائی مشکل حالات میں پاکستان کرکٹ کے انتظامی امور انتہائی احسن طریقے سے نبھاتے رہے ہیں اور انہوں نے کرکٹ کے فروغ کیلئے کئی قابل تحسین پراجیکٹ شروع کیے ،ان کے علاوہ عارف عباسی بھی اپنے دور میں کرکٹ کی بہتری کیلئے کافی کام کرچکے ہیں ۔

اگر حکومت سابق سربراہان کو بورڈ کا چیئرمین نہیں مقرر کرتی تو کم از کم کسی نااہل سیاستدان کو بھی کرکٹ بورڈ کا سربراہ نہیں بناناچاہیے کیونکہ کرکٹ ہی وہ واحد کھیل ہے جس کی ٹیم سے کچھ امیدیں وابستہ ہیں لیکن اگر کسی نااہل شخص کو بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تو نسیم اشرف کے مقابلے میں زیادہ تباہی ہوگی۔ پاکستان کرکٹ کی بدبختی کی ایک اور داستان سنیئے۔

غیرملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے انکارکرچکی ہیں۔چیمپئنزٹرافی کی میزبانی پاکستان سے چھن چکی ہے۔ٹیم کی کارکردگی کا معیار پستی کی جانب چلا گیا ہے۔بورڈ کا نیا چیئرمین تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملا رہا۔پاکستان بین الاقومی کرکٹ سے الگ ہوکر رہ گیا ہے اور قومی ٹیم کے سپر سٹار کھلاڑی بلاوجہ کپتانی کے حصول کیلئے جھگڑرہے ہیں۔یونس خان صاحب کہتے ہیں کہ انہیں مکمل اختیار دیکر کپتان بنایا جائے تو وہ کپتانی کرنے کو تیار ہیں۔

شاہد آفریدی کا موقف ہے کہ پورے ملک میں میں واحد کھلاڑی ہوں کپتانی کا اہل ہوں۔مجھے کپتان بنا دیا جائے شکست پاکستان کرکٹ کے دردروازے بھول جائے گی۔ایک مصباح الحق ایسا کھلاڑی ہے جس کے دل میں شاید کپتانی کرنے کی خواہش نہیں ہے مگر دیگر تمام نہ تو حالات کو دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی بورڈ کی پریشانیوں کو بس کپتان بننے کیلئے پر تول رہے ہیں۔چلیں مان لیتے ہیں یونس خان بڑا کھلاڑی ہے اور وہ کپتان بننے کا اہل بھی ہے مگر شاہدآفریدی نجانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر یہ کہہ رہا ہے کہ اسے کپتان بنایا جائے؟پہلے ہی موجودہ کپتان کی کارکردگی ناقص ہے اور اس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی اوپرسے آفریدی جیسا کھلاڑی جسے خود پر اعتبار نہیں ہے کیسے وہ پوری ٹیم کی باگ ڈور سنبھال سکتا ہے؟۔

اور ویسے بھی جو کھلاڑی ایک بال قبل کی جانیوالی غلطی کو اگلی ہی گیند پر دہرانے میں عالمی شہرت رکھتاہو میرے خیال میں اسے یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ 16کروڑ پاکستانیوں کی کرکٹ ٹیم کی قیادت کرے۔لہذا شاہد آفریدی سمیت تمام کپتانی کے خواہش مند کھلاڑی سے گزراش ہے کہ پہلے بورڈ کو آپ لوگوں کیلئے کرکٹ کھیلنے کا انتظام تو کرلینے دیں، کیونکہ جب کرکٹ ہی کھیلنے کو نہیں ہوگی تو کیا محض کاغذی کپتان بن کر رہنا ہے؟۔

مزید مضامین :