John Locke - Article No. 1764

John Locke

جان لاک - تحریر نمبر 1764

معروف انگریز فلسفی جان لاک پہلا مصنف تھا جس نے آئینی جمہوریت کے بنیادی تصورات کو ایک مربوط صورت میں یکجا کیا ۔اس کے نظریات نے امریکی کے بانیان کو شدت سے متاثر کیا

پیر 10 ستمبر 2018

مائیکل ہارٹ

معروف انگریز فلسفی جان لاک پہلا مصنف تھا جس نے آئینی جمہوریت کے بنیادی تصورات کو ایک مربوط صورت میں یکجا کیا ۔اس کے نظریات نے امریکی کے بانیان کو شدت سے متاثر کیا ۔فرانسیسی خردافروزی کے دور کے متعدد ممتاز فلاسفہ بھی اس کے اثرات بے پایاں تھے ۔لاک انگلستان کے شہر رنگٹن میں 1632ء میں پید ا ہوا۔اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ‘جہاں 1956ء میں اس کو گریجو ایشن کی سندملی ۔

اور 1658ء میں ایم ۔اے کی ۔نوجوانی میں اسے سائنس میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔چھتیس برس کی عمر میں وہ ”رائل سواسائٹی “کا رکن منتخب ہوا ۔معروف کیمیا دان رابرٹ بوئل سے اس کے دیرینہ تعلقات تھے ۔بعدازاں آئزک نیوٹن بھی اس کے قریبی دوستوں میں شامل ہو گیا ۔

(جاری ہے)

اسے علم طب میں بھی دلچسپی تھی ۔اس شعبے میں اس نے بیچلر ڈگری حاصل کی ۔تا ہم عملی طور پر اس کا اطلاق کم ہی کیا۔

نواب”سیفٹس بری“سے ملاقات اس کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ثابت ہوا۔وہ اس کا سیکرٹری اور خاندانی معالج بن گیا۔”سیفٹس بری“سیاسی آزاد خیالی کا حامی تھا۔ اپنی انہی سیاسی سرگرمیوں کے باعث وہ بادشاہ چارلس دوم میں قید بھی ہوا۔1682ء میں ”سیفٹس بر ی“ہالینڈ فرار ہو گیا ،جہاں وہ اگلے ہی برس مرگیا ۔”سیفٹس بری“سے اپنے دیرینہ مراسم کے باعث خود لاک مشکوک افراد میں شمار کیا جاتا تھا ۔
1683ء میں وہ بھی ہالینڈ بھاگ گیا ۔وہ چارلس کے جانشین بادشاہ جیمذ دوم کے تحت نشین ہونے اور پھر 1688ء میں انقلاب کے ذریعے اس کی دست برداری تک وہیں مقیم رہا ۔1689ء میں وہ گھر واپس آیا اور انگلستان میں رہنے لگا ۔اس نے مجروزندگی گزاری اور1704میں فو ت ہوا۔جس معروف کتا ب سے اسے شہرت حاصل ہوئی ‘وہ”انسانی فہم سے تعلق ایک مضمون “(1690ء)تھی ۔
جس میں اس نے انسانی علم کے مبداء ‘ہےئت اور حدود پر مفصل بحث کی ۔لاک کی فکر بنیادی طور پر تجربیت پسندانہ تھی ‘جبکہ اس کے افکار پر فرانس بیکن اور رینے دیکارت کے اثرات واضح ہیں ۔لاک کے افکار نے جارج برکلے ‘ڈیوڈہیوم اور ایمنو ئل کانٹ جیسے مفکرین پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔اگر چہ اس کی مذکورہ بالاکتاب لاک کی بہترین تصانیف اور فلسفہ کے کلا سیکی اد ب میں شمار ہوتی ہے۔
تا ہم اس کی سیاسی تحریروں کی نسبت تاریخی ارتقا پر اس کتاب کے اثرات کم ہیں ۔اپنی کتاب ”تحمل پسندی“سے متعلق ایک خط میں (جو پہلی بار1689ء میں مصنف کے نام کے بغیر اشاعت پذیر ہوا)لاک نے یہ موقف اختیار کیا ہے ہ ریاست کولوگوں کی مذہبی آزادی پر قد غن نہیں لگا نی چا ہیے ۔وہ پہلا انگریز نہیں تھا جس نے پروٹسٹنٹ فرقہ کے حوالے سے عیسائیوں کی تحمل کاسبق پڑھایاتھا ۔
تا ہم اس حکمت عملی کے لیے رائے عامہ کو بہتر بنانے میں تحمل وبردباری پر اس کے مضبوط دلائل نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔مزید برآں لاک نے تحمل کی نصیحت کوغیر مسیحیوں کے لیے بھی صاد قرار دیا ”نہ بت پرستوں ‘نہ مسلمانوں ‘نہ یہودیوں کو ہی ان کے مذہبی اعتقادات کی بناء پردولت مشترکہ میں شہر ی حقوق سے محروم کرنا جائز ہے “۔ لاک کا خیال تھا کہ تحمل وبرداشت کی یہ پابندی کیتھولک فرقہ پرعائد نہ کی جائے کیونکہ اس کے خیال میں وہ ایک بیرونی حاکم کی اطاعت کرتے ہیں ۔
نیزلااردی بھی اس سے مستثنیٰ ہیں ۔آج کے معیارات کے حوالے سے وہ خود تنگ نظر ثابت ہوتا ہے لیکن اس دور کے مروجہ نظریات کے تناظر میں اس کی بات باجواز معلوم ہوتی ہے ۔دراصل مذہبی رواداری کے حق میں اس کے پیش کردہ خیالات اس کے قارئین کے لیے قابل قبول تھے۔آج لاک کی مہربانی سے مذہبی برداشت کی روایت ان فرقوں میں بھی پھیل رہی ہے جنہیں اس نے اس حوالے سے خارج کیا تھا ۔
لاک کی ایک نہایت اہم تحریر ”حکومت پردو مقالے“
(1689ء)میں شائع ہوئی ۔جس میں اس نے آزاد آئینی جمہوریت کے بنیادی تصورات پر بحث کی ہے ۔تمام انگریزی بولنے والی یورپی اقوام کے سیاسی افکار پر اس کتاب کا اثر بے پایاں ہے ۔لاک کا حتمی خیال تھا کہ ہر انسان قومی حقوق کا حامل ہے اور یہ کہ یہ صرف زندہ رہنے کے حق پر ہی مبنی نہیں ہے ‘بلکہ ذاتی جائیداد ‘اور آزادی کے حقوق بھی اس میں شامل ہیں ۔
لاک نے واضح کیا کہ حکومت کا بنیادی مقصد اپنی عوام اور ان کی جائیداد کا تحفظ ہے ۔اس نظریہ کو عموماََ ان لفظوں میں دھریاجاتاہے کہ ”حکومت کی شبی چوکیداری کا نظریہ “۔بادشاہوں کے الہامی حقوق کو رد کرتے ہوئے ‘لاک نے کہا کہ ”حکومتوں کی پائیداری کا انحصار فقط اپنی عوام کی رائے ہے “۔معاشرے میں انسان کی آزادی کسی دوسری قانونی طاقت کے زیر تحت نہیں ہے بلکہ اس طاقت کے جسے دولت مشترکہ میں عوامی منشاء سے قائم کیا جائے “۔
لاک نے عمرانی معاہدے کے تصور پر بے حداصرار کیا ۔یہ تصور ایک حد تک گزشتہ انگریز فلسفی تھا مس ہابز کی تحریروں سے اخذ کیا گیا تھا “لیکن ہانبر نے تو عمرانی معاہدے کے تصور کو مطلق العنانیت کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے استعما ل کیا تھا ۔لاک کے خیال میں خود عمرانی معاہدہ قابل تردید ہے“۔”جب قانون ساز جائیداد کو لوگوں سے چھیننے اور تباہ کرنے یا انہیں استبدادی طاقت کے ذریعے غلام بنانے کی سعی کی‘تو انہوں نے خو د کو لوگوں سے ایک جنگ میں مبتلا پایا ‘جن سے آپ مزید اطاعت کا مطالبہ کرنے کے مجاز نہیں رہے ۔
ان سب سے مشترکہ طور پر پنا ہ حاصل کی جوخدا نے انہیں جبراور نشدد کے خلاف مرحمت کی ہے ۔“اور یہ کہ ”لوگوں میں ان قوانین کو ختم یا تبدیل کرنے کی اعلیٰ طاقت بیدار ہو جاتی ہے ‘جب وہ قانونی بندش ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے “۔انقلاب کے حق پر لاک کے اصرار نے تھامس جیفر سن اور دیگر امریکی انقلاب پرستون پر گہرے اثرات مرتسم کیے ۔
لاک اختیارات کی تقسیم کے اصول پر یقین رکھتا تھا ۔تا ہم اس نے محسوس کیا کہ ایک قانون ساز کو عام انتظامی افسر سے بلند ہونا چاہیے(اور اسی طور عدالت کو بھی جو اس کے خیال میں انتظامی شعبے ہی کی شاخ ہے)۔قانون کی برتری کے معتقد کی حیثیت سے لاک نے باصرار عدالتوں کے اس حق کی مخالفت کی کہ وہ کسی بھی قانونی اقدام کو غیر آئینی قراردے سکتی ہیں۔
لاک کا اکثریت کی حکمرانی کے اصول پر گہراا عتقاد تھا ۔اس نے صراحت سے بیان کیا کہ ایک حکومت کے پاس غیر محدود حقوق ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ایک اکثریت کا انسانوں کے فطری حقوق پر تسلط نہیں ہے ‘اور کوئی حکومت اپنی عوام کی منشاء کے بغیر اس کی نجی املاک پر قابض نہیں ہو سکتی ۔(امریکہ میں اس نظریہ کو اس نعرے کی صورت میں پیش کیاگیا کہ ”کسی واضح نمائندگی کے بغیر محصولات کا تقاضا نہیں کیا جائے گا “)۔
تاریخ کے آئندہ واقعات سے یہ ثابت ہوا کہ لاک نے قریب ایک صدی قبل امریکی انقلاب کے سبھی اہم نظریات کو بیان کردیا تھا ۔تھامس جیفرسن پر اس کے اثرات حیران کن ہیں ۔لاک کے نظریات یورپ کے اہم ملکوں میں سرایت کر گئے خاص طور پر فرانس میں ان کا کردار ایک بلواسطہ اہم عنصر کی حیثیت سے تھا‘ جیسے انقلاب فرانس ‘اور انسانی حقوق کا فرانسیسی معاہدہ ‘وغیرہ کے معاملات ہیں ۔اگر چہ والٹےئر اور تھامس جیفرسن جیسی شخصیات لاک سے زیادہ مقبول ہیں ۔اس کی تحریروں نے برتری حاصل کی ‘اور ان پر اپنے اثرات چھوڑدے۔یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ فہرست میں اس کا نام ان دونوں سے بلند ہونا چاہیے ۔

Browse More Urdu Literature Articles