Marie Curie 1867 To 1934 - Article No. 974

Marie Curie 1867 To 1934

میری کیوری 1934ء۔1867 - تحریر نمبر 974

میری کیوری (اصلی نام ”ماریاسکلوڈوسکا“ تھا) ہماری بنیادی سوافراد کی فہرست میں شامل کسی بھی سائنس دان سے زیادہ مشہور ہے۔

منگل 20 اکتوبر 2015

میری کیوری (اصلی نام ”ماریاسکلوڈوسکا“ تھا) ہماری بنیادی سوافراد کی فہرست میں شامل کسی بھی سائنس دان سے زیادہ مشہور ہے۔میراخیال ہے کہ اس کی شہرت کا بنیادی سبب اس کی سائنسی تحقیق نہیں بنا جتنی یہ حقیقت بنی کہ یہ کارنامے ایک عورت نے انجام دیے۔اس کی زندگی سے واضح انداز میں یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے‘کہ ایک عورت واقعتا ایسی پائے کی سائنسی دان ہوسکتی ہے۔
اسی باعث اس کی اتنی پذیرائی ہوئی اور یہ غلط بات ذہنوں میں بیٹھ گئی کہ ”تاب کاری“ کواسی نے دریافت کیا تھا۔دراصل تاب کاری(Radioactivity) کاعمل انتونیوہنری یبکیورل نے دریافت کیا۔یبکیورل کی فوقیت کامعاملہ قابل بحث نہیں ہے۔کیونکہ یبکیورل کی دریافت سے متعلق مضمون پڑھنے کے بعد ہی (اس کے ذہین سائنس دان شوہر پیرے اور) اس نے اس موضوع پر اپنی تحقیقات کاآغاز کیا۔

(جاری ہے)


میری کیوری کی سب سے اہم دریافت کیمیائی عنصر”ریڈیم“ ہے۔اس سے قبل اس نے ایک دوسرا تابکار مادہ دریافت کیاتھا جسے اس نے اپنے آبائی وطن پولینڈ کے نام پر ”پلونیم“ نام دیا۔یہ قابل تحسین کامیابیاں تھیں۔تاہم سائنس کی دنیا میں کوئی واقعتا چونکا دینے والی دریافتیں نہیں تھیں۔
1903ء میں میری کیوری اور انتونیوہنری یبکیورل کومشترکہ طور پر نوبل انعام برائے طبیعات دیا گیا۔
1911ء میں میری کیوری کو دوسرا نوبل انعام برائے کیمیا ملا۔وہ پہلی انسان تھی جس نے دوبار نوبل انعام حاصل کیا۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جب وہ اپنی انتہائی اہم سائنسی تحقیقات میں معروف تھی تب اس کے چھوٹے بچے بھی تھے۔اس کی بڑی بیٹی”آئرنی“ بھی ایک معروف سائنس دان بنی۔آئرنی کی شادی ایک ہونہار سائنس دان ژاں فریڈرک جولیت سے ہوئی۔
دونوں نے اکٹھے تحقیق کی اور مصنوعی تاب کاری کاعمل دریافت کیا۔اس دریافت کے لیے (جسے ہم قدرتی تاب کاری کے نظریے کی پیداوار قرار دے سکتے ہیں) جولیت ۔کیوریز کو1935ء میں مشترکہ نوبل انعام برائے طبیعات ملا۔میری کیوری کی دوسری بیٹی ”ایو“(Eve) ایک ممتاز موسیقار اور مصنفہ بن گئی۔یہ ہوتا ہے خاندان۔
مادام کیوری لیوکیمیامیں مبتلا ہوکر1934ء کو فوت ہوئی۔جو تابکار عناصر کی مسلسل قربت کے سبب پیدا ہواتھا۔

Browse More Urdu Literature Articles