Pope Urban 2 1042 To 1099 - Article No. 976

Pope Urban 2 1042 To 1099

سپوپ اربن دوم 1099ء۔1042ء - تحریر نمبر 976

آج پوپ اربن دوم سے زیادہ لوگ واقف نہیں ہیں۔تاہم تاریخ میں ایسے لوگ زیادہ نہیں ہیں جن کاانسانی تاریخ اس کی نسبت زیادہ واضح اور براہ راست اثر ہوا۔اربن دوم ہی وہ شخص تھا جس نے۔۔۔

جمعرات 22 اکتوبر 2015

آج پوپ اربن دوم سے زیادہ لوگ واقف نہیں ہیں۔تاہم تاریخ میں ایسے لوگ زیادہ نہیں ہیں جن کاانسانی تاریخ اس کی نسبت زیادہ واضح اور براہ راست اثر ہوا۔اربن دوم ہی وہ شخص تھا جس نے مقدس وادی کومسلمانوں کے قبضہ سے چھڑانے کے لیے عیسائیوں کو جنگ کی ترغیب دی اور یوں صلیبی جنگوں کاآغاز ہوا۔اربن کاحقیقی نام اوڈڈی لاگری تھا۔وہ فرانس کے شہر”چاٹلین سرمارنے“ میں 1042ء میں پیدا ہوا۔
وہ فرانسیسی نوابوں کے خاندان کاچشم وچراغ تھا۔اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں وہ ریمز میں اسقف اعظیم کاماتحت رہا۔بعدازاں وہ 1088ء میں بطور پوپ منتخب ہونے سے پہلے ایک راہب اور کاردنل اسقف مقررہوا۔
اربن ایک پرعزم اثرانگیز اور سیاسی طور پر زیرک آدمی تھا۔تاہم ان خصوصیات کے سبب اسے اس فہرست میں جگہ نہیں ملی۔

(جاری ہے)

جس واقعہ کے حوالے سے اربن کانام زندہ ہے ’وہ27نومبر1095ء میں وقوع پذیر ہوا۔

اس نے فرانس کے شہرکلر مونٹ میں اہل کلیسا کا ایک بڑا اجلاس منعقد کروایا۔وہاں ہزاروں کے ہجوم سے اربن نے خطاب کیا‘جوتاریخ کے موثر ترین خطابات میں شمار ہوتا ہے۔جس نے یورپ کی آئندہ صدیوں کی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے۔اپنے خطاب میں اربن نے احتجاج کیا کہ سلجوق ترک جوارض مقدس پر قابض تھے،مسیحی مقدس مقامات کی بے حرمتی اور عیسائی زائرین کودق کررہے ہیں۔
اس کاموقف تھا کہ تمام عیسائی دنیا کو مقدس جنگ کے لیے مجتمع ہوجانا چاہیے اور ارض مقدس کی بحالی کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔اربن زیرک آدمی تھا۔اس نے فقط بے غرضانہ مقاصد پر ہی اصرار نہیں کیا۔اُس نے واضح کیا کہ ارض مقدس مسیحی یورپ کے گنجان آباد خطوں سے کہیں زیادہ ثمربار ‘مالدار اور سودمند زمین ہے۔تب اس نے اعلان کیاکہ اس جہاد میں شرکے کفارے ہی کی صورت ہے اور مجاہد کواپنے تمام گناہوں کی خودبخود بخشش مل جائے گی۔

اربن کے زود اثر خطاب انے جواپنے سامعین کے اعلیٰ مقاصد اور ساتھ ہی ساتھ ان کی لالچ کی بھی تسکین کرتاتھا۔لوگوں میں بڑا جوش وجذبہ بیدارکیا۔خطاب کے اختتام سے قبل ہی ہجوم نعرے لگارہا تھا۔(Deus le Volt) یہی منشاء ایزدی ہے۔یہی بعد ازاں مجاہدوں کاجنگی نعرہ بنا۔چندماہ کے اندر پہلی صلیبی جنگ لڑی گئی۔جومقدس جنگوں کے ایک سلسلہ کی پیش خیمہ بنی(آٹھ بڑی صلیبی اور چند چھوٹی جنگیں لڑی گئیں)۔

خود اربن پہلی صلیبی جنگ کے نتیجے میں یروشلم پرقبضے کے دو ہفتے بعد مرگیا‘تاہم یہ خبر کبھی اس کی زندگی میں اس تک نہ پہنچ سکی۔
صلیبی جنگوں کی اہمیت کی صراحت ضروری ہے۔دیگر جنگوں کی مانند ان کااپنے شرکاء اور عوام پر جواس روکی زد میں آئی‘براہ راست اثر ہوا۔مزید برآں صلیبی جنگوں کاایک فائدہ تویہ بھی ہواکہ اس طور مغربی یورپ کابازنطین اور اسلامی تہذیبوں کے بیچ ایک گہرا رابط پیداہوا۔
جبکہ موخرالذکرتب اول الذ کرسے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تصور کی جاتی تھیں،اس ربط نے نشاة ثانیہ کے آغاز کی راہ ہموار کی جودراصل جدید یورپی تہذیب کے ارتقاء میں ایک سنگ میل تھا۔
اس فہرست میں پوپ اربن دوم کااندراج نہ صرف صلیبی جنگوں کے بے انتہاء اثرات کے سبب ہوابلکہ یہ بات بھی درست ہے کہ اس کے ذاتی اثرواسوخ کے بغیر وہ شروع بھی نہ ہوتیں۔
درست ہے کہ صورت حال اس کے موافق تھی بصورت دیگر لوگ اس کے خطاب کوایک کان سے سنتے اور دوسرے نکال دیتے۔تاہم ایسی عمومی یورپی تحریک کے آغاز کے لیے کسی مرکزی ہستی کی قیادت کی ضرورت تھی۔ کوئی بادشاہ اس متعقب کے اہل نہیں تھا (مثلاََ اگرجرمن بادشاہ ترکوں کے خلاف مقدس جنگ شروع کرتا توایسا ممکن ہے کہ انگیریز نواب اس کاساتھ نہ دیتے)۔مغربی یورپ میں ویسی بس ایک ہی شخصیت تھی جس کااثرنفود ملکی سرحدوں سے پار جاپہنچا تھا۔
صرف پوپ ہی تمام عیسائی دنیا کے سامنے ایک بڑا منصوبہ پیش کرسکتا تھا۔اسی سے امید کی جاسکتی تھی کہ لوگوں کی ایک بڑی جمعیت اس کی آواز لبیک کہے گی۔ یورپ کی قیادت اور اس ذرامائی خطاب کے بغیر جو اس نے کیا یہ صلیبی جنگیں‘ایک بڑی یورپی تحریک کے طور پر کبھی شروع نہ ہوتیں۔
نہ ہی حالات اس وضع کے تھے کہ کوئی یورپ کے عہدے کی شخصیت ارض مقدس کی آزادی کے لیے مقدس جنگ کی تجویز پیش کرسکتی تھی۔
اس کے برعکس یہ کئی اعتبار سے ایک ناقابل عمل تجویز تھی۔بیشتر دور رس رہنما ایسی غیر معمولی تجویز پیش کرنے میں متذبذب ہوں گے کیونکہ اس کے نتائج کی پیشین گوئی بہت دشوار تھی۔لیکن اربن دوم نے یہ جرات کی۔اور اس طور اس نے متعدد دیگر زیادہ معروف لوگوں کی نسبت انسانی تاریخ پر کہیں گہرے اثرات مرتب کیے۔

Browse More Urdu Literature Articles