Amelda Kay Des MaiN Part 6 - Article No. 1474

Amelda Kay Des MaiN Part 6

امیلیڈا کے دیس میں قسط 6 - تحریر نمبر 1474

اِگوروٹ قبیلے کے علاقے میں سونے کی دریافت ان کے لئے راحت سے زیادہ مصیبت بن کر اتری

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ منگل 5 ستمبر 2017

صُورِ اِسرافیل نے صبح معینہ وقت پر کانوں کی پردہ پاشی کی تو خواب درمیان میں ہی ٹوٹ گیا۔ اچھا ہوا کہ ٹوٹ گیا ورنہ جانے کتنی دیر اور لک ملاٹھی کے ساتھ سیشن روڈ کی مٹر گشت ابھی باقی تھی۔ کم بخت نے اولین شب کا بدلہ آخر شب لیا اور خوب لیا۔ ملک فرام بھوگیوال کو بتایا تو اپنے مخصوص باغبانپوری لہجے میں بولا 'ہور چوپو'۔ بڑے بوڑھے سچ ہی کہتے تھے 'یا تے خواب ویکھو نئیں، ویکھو تے تعبیر کسی سیانے کولوں پُچھو'۔

ناشتے کی میز پر کچھ چہرے تر و تازہ تھے اور کچھ تروتازگی کا لیپ منہ پر اوڑھے ہوئے۔ حیرت سی ہوئی جب پریٹی نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔ یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ کہیں جانے سے پہلے اس نے کچھ بتانا مناسب سمجھا ہو، سو اشتیاق پیدا ہونا لازمی تھا۔ اس نے پہلے تو مقامی اِگوروٹ قبیلے کا دلچسپ تعارف پیش کیا جس کے مطابق 'اِگوروٹ قبیلے کے علاقے میں سونے کی دریافت ان کے لئے راحت سے زیادہ مصیبت بن کر اتری۔

(جاری ہے)

سونے کو سونے کی طرح استعمال کرتے نہ کہ سکہ رائج الوقت کی طرح تو شاید ہونی نہ ہوتی۔ سولہویں صدی میں ہسپانوی عیسائیت کی تبلیغ اور سونے کی یافت کے مقدس مشن پر اترے تو اِگوروٹ لوگوں کی مزاحمت کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں میں آیا سونا ریت کی طرح پھسل گیا۔ شاید امریکہ بہادر کی وہاں آمد اور لڑائی در لڑائی کا محرک بھی حُب سونا ہی ہو لیکن امریکیوں نے سونے کے علاوہ سونے جیسی قبائلی خوبیوں (حسن و سکون، ردم اور شجاعت) کے باوصف ان کے ایک گروپ کو سینٹ لوئی، میزوری کے ورلڈ فیئر میں امریکہ پہنچا دیا۔
ان آزاد پہاڑی پنچھیوں کی بے ساختہ پرفارمنس سے متاثر ہو کر ۱۹۰۵ میں ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی کہانی The Man Who Was King کے ذریعے انہیں زندہ جاوید کر دیا۔ رقص و سرود میں اپنی بے ساختگی کے علاوہ اگوروٹ قبیلے کے لوگ اپنی شجاعت کی وجہ سے بھی فلپائن کی تاریخ کا روشن باب رہیں گے جس کا مظاہرہ انہوں نے قابض جاپانی فوج کے خلاف کیا تھا'۔ پریٹی نے معنی خیز انداز میں، جسے مشکوک کہنا زیادہ موزوں ہوگا، ان کی دلچسپ دستکاریوں اور گھریلو صنعتوں کی اتنی تعریف کی کہ اشتیاق نے ناشتے کی جگہ لے لی۔
اس کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب تھا 'لگ پتہ جاؤُ گا'۔ بس میں بھی سب کی توجہ آس پاس کے نظاروں پر کم اور ان دیکھی مصنوعات پر زیادہ رہی حالانکہ نکھری نکھری دھوپ میں بل کھاتے گھومتے رستوں میں درختوں سے سر پٹختی پاگل ہوا بہت کچھ کہنے کو بے تاب ہو رہی تھی۔ آخری موڑ کے بعد بس ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی تو یوں لگا جیسے ہم کیلاش قبیلے میں پہنچ گئے ہوں۔
رنگ ہر طرف تھے چہروں پر بھی اور لباس پر بھی، کمی تھی تو بس کوڑیوں والی ترچھی ٹوپی کی۔ امریکہ کینیڈا کے ریڈ انڈین ہوں یا ہندوستان پاکستان کے الگ تھلگ قبیلے، اِگوروٹ ہوں یا افریقی، حیران کُن حد تک بولتے رنگ ان کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور پوری دنیا کے لئے قابلِ نمائش اور بس۔ ایک میلے کا سا سماں تھا، ایک جانب پہاڑی تتلیاں روایتی رقص کی شکل میں اُڑنے میں مصرف تھیں تو دوسری جانب کھڈیوں پر رنگ اتارے جا رہے تھے۔
ہم سب ساتھی ادھر ادھر بکھر کر امریکی، یورپی اور جاپانی سیاحوں کا حصہ بن گئے۔ بُوندوں کی طرح روح میں اترتی موسیقی کے سنگ ہلکورے کھاتے جسموں میں ہم اتنے مگن تھے کہ وقت کا احساس ہی نہ رہا۔ پتہ تب چلا جب ہمیں نہ پا کر پریٹی 'وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے' کہتی آئی اور ادھر لے گئی جدھر ثقافتی سرپرستی کا اہتمام تھا۔ سٹالز پر مقامی گھریلو مصنوعات کی فروخت ہو رہی تھی۔
پہلے تو ہماری دلچسپی اشیا سے زیادہ اشیا بیچنے والیوں میں رہی لیکن جب مصنوعات پر ان کی انگلیوں کی مہارت بھری حرکات دیکھیں تو پریٹی کی صبح والی معنی خیز مسکراہٹ ہی یاد نہ آئی پنجابی کے 'جیویں ٹچ بٹناں دی جوڑی' اور 'جند ساڈی اک ہوئی بھانویں دو بت وے' قسم کے گیت کِی چینز کی صورت میں مجسم شکل میں نظر آنے لگے۔ سب کی دلچسپی لکڑی اور پتھر کے اعضا کے نمونوں اور کِی چینز میں کم مگر معصوم اور نوخیز صورتوں کی انگلیوں کی مہارت کے ذریعے اعضا کی شاعری والے پیغام میں زیادہ تھی۔
جب معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اور تذکیر و تانیث کے امتیاز کے بغیر تحفے ہاتھوں ہاتھ بکنے لگے تو ہم بھلا کہاں پیچھے رہتے۔ دو ایک ہم نے بھی خرید لئے۔ ایک دیا قریب الریٹائرمنٹ ایکسئن دوست کو جو جلد ہی ایک بڑے افسر کے بٹوے میں پہنچ گیا جو اسے خاص خاص مواقع پر نمائش کے لئے نکالتے۔ خود بھی حظ اٹھاتے اور دوسروں کو بھی موقع دیتے۔ وقت کے ساتھ دلچسپیاں یوں بدلتی ہیں سن تو رکھا تھا مگر عملی مظاہرہ تب دیکھا۔
دوسرے سٹالز پر جانے کن ریشوں کے بنے خوبصورت لیڈیز پرس اور اسی قبیل کی دیگر اشیا رکھی تھیں۔ گو وہ ابھی ہمارے کسی کام کی نہیں تھیں لیکن اس ارادے سے لے لیں کہ وقت بدلتے دیر تو نہیں لگتی۔ اور جب وہ وقت آیا تو اپنے فیصلے پر خود ہی داد دے ڈالی کہ وہ most admired اشیا قرار پائیں۔ Capiz sea shells کا بنا ایک شینڈلئر بھی زادِ راہ میں شامل کر لیا جو سب سے پہلے منور قریشی کے ہاں دیکھا تھا۔
ہوا کے جھونکوں سے جب وہ جلترنگ بجاتا تو وہ ساری کُلفت بھول جاتی جو اسے براستہ بنکاک لانے میں ہوئی۔ واپسی کے سفر میں دوستوں کی دلچسپی زیادہ تر اپنے اپنے ’حاصلِ باگیو‘ میں رہی اور ہماری سونے میں۔ آنکھ کھلی تو پریٹی کو سیٹ پر اکیلا پا کر اسے اپنی فرمائش اور اس کا وعدہ یاد دلایا۔ تاکیدِ مکرر کے طور پر اسے بتایا کہ لزبانئس کے وزٹ کے بغیر میرا یہاں آنا سپھل نہیں ہو سکتا۔
اس کے نزدیک یہ مشکل اس لئے تھا کہ پورا پروگرام پہلے سے تشکیل پا چکا تھا مگر ناممکن اس لئے نہ تھا کہ ہفتہ اور اتوار کے دن فارغ تھے اور مادام امیلڈا کی سیکرٹری ہی اسے یقینی بنا سکتی تھی۔ اس سے تعاون کا وعدہ لے کر اپنی سیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ یونیورسٹی آف لائف آ پہنچے۔ بقیہ دنوں کے لئے یہ ہمارا سرکاری مہمان خانہ تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles