Amelda Kay Des MaiN Part 8 ... SaleeboN Par Jaey Salik - Article No. 1498

Amelda Kay Des MaiN Part 8 ... SaleeboN Par Jaey Salik

امیلیڈا کے دیس میں قسط 8 ۔۔۔۔ صلیبوں پر جے سالک - تحریر نمبر 1498

سارا دن سڑک پیمائی کے بعد شام سے پہلے لوٹ آیا تو ملک کی آواز کے ساتھ ایک مترنم آواز سنائی دی، کانڈا کو ملک کے ساتھ دیکھ کر اندازہ ہو گیا ملک کا دن کیسے گزرا ہو گا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ منگل 19 ستمبر 2017

جِیپنی ڈرائیور اینجلو نے منہ مُہاندرے سے ہمیں اپنے دیگر مسافروں سے مختلف پا کر اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر مسافر نوازی کا ثبوت دیا تو ہم نے بونٹ پر بندھے اس کے گھوڑوں کی تعریف کرکے بدلہ چکا دیا۔ 'یار تمہارے گھوڑے تو تمہاری جِیپنی سے بھی تیز بھاگتے ہیں' اتنی سی بات سے وہ اتنا نہال ہوا کہ ہمیں شام کو ملاتے میں دعوتِ San Miguel دے ڈالی۔ بات ملاتے تک رہتی تو ہمیں کیا برا تھا جانا لیکن اس سے اگلی بات خود کردہ را علاجِ نیست کے زُمرے میں آتی تھی سو 'جس گراں نئیں جاناں اوہدا ناں کی لینا' پر عمل کرتے ہوئے مصروفیت کا بہانہ بنا کر اور پھر کسی روز کا کہہ کر اس عنایتِ خُسروانہ پر اس کا شکریہ ادا کیا جو ظاہر ہے اس نے قبول بھی کر لیا۔

سفر کے دوران جس طرف نظر اٹھتی اینجلو اس کا تفصیلی تعارف کروانا اور سماجی اور معاشی صورتِ حال پر تبصرہ کرنا نہ بھولتا۔

(جاری ہے)

معاشی ناہمواریوں کا ذکر کرتا مگر وجوہات کے ذکر کو گول کر جاتا۔ جہاں نام آتا مارکوس کا، بات اس کے ہونٹوں تک پہنچتے پہنچتے لرزش بن جاتی۔ ممکن ہے ہم نے اسے اپنے شاہی مہمان ہونے کی خبر نہ دی ہوتی تو لبوں کی لرزش لفظوں میں ڈھل جاتی۔

اونچی اونچی عمارتوں پر نظر پڑتے ہی لگا کہ ہم کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ مکاتی تھا، منیلا کا فنانشل ڈسٹرکٹ۔ اینجلو ہمیں مرعوب دیکھ کر بولا 'یہ سب چینی سرمائے کا کمال ہے۔ یہاں سب کچھ ان کا ہے، ہمارا تو صرف حُقہ پانی ہے'۔ دوبارہ ملنے کی وعید سنا کر مکاتی کے ایس ایم سٹور کے سامنے اتارتے ہوئے اس نے سٹور کو اندر سے کھنگالنے، جیب پر گرفت مضبوط رکھنے اور دوسری جانب صلیب زدہ فرزانوں کی زیارت کا مشورہ دیتے ہوئے کہا 'اگر آپ نے وہ نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا'۔
شکر ہے اس نے ونڈو شاپنگ سے احتراز کا مشورہ نہیں دیا ورنہ سفر اکارت جاتا۔ جیب پر ہاتھ رکھ کر ہم ایس ایم سٹور میں داخل ہوئے تو اس کی وسعت اور خریداروں کے غول دیکھ کر حیران سے زیادہ پریشان ہوئے، حیرانی اس بات کی کہ اب تک ہم ٹانڈو سَلَم کی وسعت اور ناداری کو دیکھ کر فلپائن کو جھُگی واسوں کا ملک سمجھتے رہے تھے۔ بہانہ یقینا کرسمس سیل کا ہو گا لیکن پیسوز کا یک طرفہ اور تیز رفتار بہاؤ جاری تھا۔
جیبوں سے بہنے والے پیسوز کے ندی نالے ایس ایم سٹور کے سمندر میں گرتے جا رہے تھے۔ ہم بھی چاروں فلورز پر لُور لُور پھرتے رہے کسی قابلِ گرفت شے کی تلاش میں لیکن پرائس ٹیگ چیخ اٹھتا 'دیکھ سکتے ہو، چھُو سکتے ہو، ساتھ لے کر جا نہیں سکتے'۔ ملک نے خود کو اور اپنی جیب کو مضبوطی سے تھامے رکھا لیکن میری ہتھیلی پر مسلسل خارش نے چوتھے فلور پر بالآخر ایک جوتے کو ہم سفر بنا ہی لیا۔
پورے فلور پر وہ سب سے کم قیمت شُوز تھے جن کی قیمت میں بنکاک میں چار جوتے خریدے جا سکتے تھے۔ کاش یہ بات ملک مجھے کمرے میں آ کر بتانے کی بجائے وہیں بتا دیتا اور یوں لٹنے سے محفوظ رہتا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ اِدھر سے نکلے تو اُدھر کا رخ کیا جِدھر کا ہدایت نامہ اینجلو نے جِیپنی سے اترتے ہوئے پکڑا دیا تھا۔ ایک جمِ غفیر ہمارے اور نظارے کے درمیان حائل تھا۔
سینما کی ٹکٹ لینے کے لئے کُہنیوں کے استعمال کا تجربہ آخر کب کام آتا۔ کبھی علی شوکت خواجہ نے کہا تھا ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے لوگ دریا نے بھی گزرنے کا رستہ نہیں دیا مگر ہمارا تجربہ مختلف نکلا۔ ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہجوم میں رستہ خود بخود کھلتا گیا، بس کُہنیاں ذرا سا دُکھ رہی تھیں۔ مذہبی مناجات کے شور میں ہماری چیخ دب سی گئی جب دیکھا سامنے قطار میں لگی صلیبوں پر زندہ ڈھانچےایک جانب ڈھلکی گردنوں کے ساتھ میخوں کی مدد سے ٹنگے تھے۔
دیکھا تو نہیں لیکن سن رکھا ہے ایک ہمارے ہاں بھی جے سالک ہوا کرتا تھا۔ جے سالکوں کی دنیا میں کہیں کمی نہیں۔ کہیں گھٹنوں کے بل سیڑھیاں چڑھ کر دیوی کے چرن چھونے جاتے ہیں تو کہیں انگاروں پر چل کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہے۔ کہیں جسموں سے بارود باندھ کر ابدی حیات تلاش کی جاتی ہے تو کہیں چیلوں کوؤں کی خوراک بن کر۔ کچھ بھی کہیں لیکن عقیدت اپنے اظہار کے رستے نکال لیتی ہے۔
عقیدت میخوں پر ہی نہیں لٹکی تھی، عقیدت ہجوم کے نعروں میں بھی موجود تھی۔ ادھر ہی پریسی بھی اپنی بچیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اسی سے پوچھا یہ کہہ کیا رہے ہیں۔ اس نے رُندھی آواز میں ہجوم کے جذبات کا ہمارے لئے یوں ترجمہ کیا
People hurt you
Jesus will heel you
People humiliate you
Jesus will magnify you
People judge you
Jesus will justify you
عقیدت کو اہلِ عقیدت کے پاس چھوڑ کر ہم اپنے آزمودہ طریقے سے واپس لوٹ آئے کہ وہاں کھڑے رہنے کے لئے جتنی ہمت درکار تھی، کم از کم ہم اس سے محروم تھے۔
رات گہری ہو رہی تھی اور ہم چلتے چلتے عقیدت کی پہنچ سے دور ہو رہے تھے مگر عقیدت دور تک ہمارے تعاقب میں رہی۔ واپسی پر سستانے اور تھکاوٹ دور کرنے کو ایک کیفے میں رکے تو کچھ ہم عمروں سے گپ شپ ہوئی۔ انہی میں ڈارنا بھی تھی۔ رات گہری ہو رہی تھی، گانے بغیر وقفے سے چل رہے تھے اور اسی شور میں ملک ڈارنا سے راز و نیاز میں مصروف تھا۔ واپس شاہی سرائے میں پہنچے تو کچھ دوستوں کو سوتے پایا اور کچھ کے بستروں کو انتظار کرتے۔
اگلے دن کے پروگرام تو کئی تھے مگر ملک کی نذر ہو گئے۔ صبح کے لوازمات سے فارغ ہو کر واپس آیا تو ملک بدستور خواب دیکھ رہا تھا۔ بار بار اٹھانے پر بھی یہ کہہ کر اٹھنے سے انکار کر دیا کہ 'آج میرا ہفتہ وار فراغت کا دن ہے'۔ بات پلے نہ پڑی تو پوچھنے پر بھی یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا 'یہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا'۔ جانے اس کا مطلب کیا تھا مگر جو سمجھ مجھے آئی اس کا یہی جواب بنتا تھا 'انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد'۔
صاف ظاہر ہے جن کا ایک دن فراغت کے بغیر نہ گزر سکتا ہو وہ ملک کے حوصلے کی داد نہیں دیں گے تو اور کیا کریں گے۔ منیلا جیسے شہر میں دن ملک کے بغیر کیسے گزرا ہو گا اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو اوکھے پینڈے، لمیاں راہواں کے شناور ہوں یا پھر بھیرہ والے جو ایسے مواقع پر'کتھے گئے آؤ' کے سوال پر کہتے سنے جاتے ہیں 'لالے موسے، پینڈا مفت دا تے گھٹا ۔۔۔۔'۔ سارا دن سڑک پیمائی کے بعد شام سے پہلے لوٹ آیا کہ اگلے روز لزبانئس جانا تھا۔ سائیں سائیں کرتے کمرے کی خموشی تب ٹوٹی جب ملک کی آواز کے ساتھ ایک مترنم آواز سنائی دی۔ کانڈا کو ملک کے ساتھ دیکھ کر اندازہ ہو گیا ملک کا دن کیسے گزرا ہو گا۔

Browse More Urdu Literature Articles