Bhalwal Se Wakhnangan Episode 3 .... Welay DiyaN NamazaN - Article No. 1369

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 3 .... Welay DiyaN NamazaN

بھلوال سے واخننگن قسط 3 ۔۔۔۔۔۔۔۔ ویلے دیاں نمازاں - تحریر نمبر 1369

چند سال کی ہی تو بات ہے تب تک یہ آپ لوگوں کو زندہ باد، مردہ باد میں الجھائے گا۔ پاکستان کے پاس یہی دو چار سال ہیں پھر پاکستان کے پاس خون دھونے کو پانی ہوگا نہ بات کرنے کا وقت یا حوصلہ

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ جمعرات 13 جولائی 2017

لنچ کا وقفہ ہوتا تو یوں لگتا شہر کا شہر ترے در پہ اتر آیا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں، رنگ رنگ کے لوگ۔ کچھ لباس میں پوشیدہ، کچھ کا لباس ہی پوشیدہ۔ کیا پروفیسر کیا سٹوڈنٹ اپنا اپنا کاسہ اٹھائے ماسی مارگریٹ کے حضور سر نیہوڑاۓ یوں کھڑے ہوتے گویا نہ کوئی بندە رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ پھر جسے جہاں جگہ ملتی سما جاتا۔ عجیب نفسا نفسی کا عالم ہوتا۔
ایک دن تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ایک کرسی خالی ہوتی دیکھی تو میں ادھر لپکا۔ سامنے نظر پڑی تو ایک دیسی بی بی دال کو دلیا کر رہی تھی۔ ہماری کوشش ہوتی تھی اس مخلوق سے پرے ہی رہا جائے۔ ادھر ادھر کوئی اور جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخر ہمت کر کے بیٹھ گیا اور پورے دھیان سے کھانا کھانے لگا۔ انجم ماسی کے ساتھ مصروف تھا اور ملک ابھی تک لائن میں لگا تھا۔

(جاری ہے)

بی بی نے ایک نظر میری اور میری پلیٹ کی طرف دیکھا، جیسے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہو۔ 'آپ بھی انڈیا سے ہو؟' 'جی نہیں پاکستان سے' 'میں انڈیا سے آئی ہوں، سری نگر سے'۔ 'تو یوں کہیں نا آپ کشمیری ہیں' 'کہ سکتے ہیں۔ ویسے میرا نام اپرنا ہے، اپرنا نیگی۔ ایک NGO میں کام کر رہی ہوں۔ ویمن ڈیویلپمنٹ ان رورل ایریاز کے شارٹ کورس کے لئے آئی ہوں اور آپ؟' 'میں ظہیر ہوں ظہیر پراچہ۔
واپڈا میں انجینئر ہوں۔ ہم واٹر مینیجمنٹ میں ریسرچ کرتے ہیں۔ یہاں لینڈ ڈرینیج کے ایک کورس پر ہوں چار ماہ کے لئے۔ آپ سے مل کر اچھا لکا'۔ 'مجھے بھی، چلیں کوئی تو ملا اپنی زبان بولنے والا' اور پھر بات چل نکلی۔ اپرنا ایک آئی سی ایس آفیسر کی بیٹی تھی جو مقبوضہ کشمیر میں شاید چیف سیکرٹری ٹائپ کی کوئی چیز تھا۔ قبول صورت مگر انتہائی خوبصورت لب و لہجہ کی ذہین لڑکی تھی۔
سنجے اروڑا کے بعد جو بنکاک میں ہمارا کلاس فیلو تھا، یہ پہلی ہندوستانی لڑکی تھی جو تعصب کے بغیر اور rational انداز میں بات کرتی تھی۔ جو کشمیریوں کی حالت زار کی بات کرتے ہوئے رنجیدە ہو جاتی تھی۔ جہاں وہ پاکستان کی کشمیر پالیسی پر تنقید کرتی تھی وہیں اپنی حکومت کے کشمیریوں کے ساتھ کھِلواڑ پر بھی برستی تھی۔ ہماری جب بھی ملاقات ہوتی، نہ چاہتے ہوئے بھی بات کشمیر سے ہوتے ہوئے باہمی تعلقات کی طرف مڑ جاتی۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے ساتھ جذباتی وابستگی کے باوجود کبھی ہماری بات میں تلخی نہیں آئی۔ اس نے واضح الفاظ میں بتایا کہ بھارت ہو یا پاکستان، کشمیر دونوں کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں اپنے معاشی مفادات کے تحت کشمیریوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس نے مانا کہ ہندوستان غاصب ہے اور اس کے جبر کی بات سمجھ میں آنے والی ہے، پاکستان تو کشمیریوں کا محسن کہلواتا ہے اپنے آپ کو، وہ ان پر بھروسہ کیوں نہیں کرتا۔
کیوں ان کو اندرونی آزادی نہیں دیتا؟ کیوں ایک سیکشن آفیسر کے ذریعے ان کے منتخب وزیراعظم سے جواب طلبیاں کرتا ہے؟ کیوں آپ کی ہر آنے والی حکومت سب سے پہلے کشمیر کو فتح کرتی ہے؟ آپ کے ہاں تو کشمیر کا درجہ کرکٹ کنٹرول بورڈ سے بھی کم ہے، جب چاہا توڑ دیا جسے چاہا مسلط کر دیا۔ کیا ایسی ہوتی ہے آزادی؟ پاکستان اگر دو کی بجائے تین آپشن کشمیریوں کے سامنے رکھے تو ان کے دل بھی جیتے گا اور دنیا کی حمایت بھی۔
ویسے دنیا نے کشمیر آپ کو دلوانا ہوتا تو انڈس واٹر ٹریٹی کیوں کرواتی، کچھ دریا دنیا نے قیمتاً انڈیا کو دلوا دیئے، کچھ پر یہ خود قبضہ کر لے گا۔ چند سال کی ہی تو بات ہے تب تک یہ آپ لوگوں کو زندہ باد، مردہ باد میں الجھائے گا۔ آپ کیا سمجھتے ہو یہ اکیلا ہے اس کام میں، نہیں دنیا کی حمایت حاصل ہے اسے۔ رہا انڈیا تو اس کے پاس تو صرف ایک ہی آپشن ہے، اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے کا، بغیر کسی اخلاقی جواز کے، کشمیریوں کی مرضی کے خلاف۔
۔ فائدە کس کا ہو گا یہ وقت بتا دے گا آپ کو۔ اگلی بات جو اس نے کی وہ چونکا دینے والی تھی۔ کہنے لگی پاکستان کے پاس یہی دو چار سال ہیں پھر پاکستان کے پاس خون دھونے کو پانی ہوگا نہ بات کرنے کا وقت یا حوصلہ۔ یہ صورت حال بھارت کے مفاد میں نہیں ہے مگر آپ کی تو سالمیت بھی داوٴ پر لگنے والی ہے، اب بھی وقت ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت اور پاکستان آپسی تعلقات بہتر کر لیں ورنہ پاکستان کو اس کا بہت نقصان ہوگا۔
وقت آنے والا ہے جب پاکستان بھارت کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگا کیونکہ دنیا اس کی بات پر توجہ ہی نہ دے گی۔ اپرنا سے ایک طویل عرصے تک میری خط و کتابت رہی مگر پھر ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی بنا پر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سلسلہ یک طرفہ طور پر منقطع کرنا پڑا۔ ہمارے دوست افتخار کھوکھر ایک روسی ادارے سے تعلیمی وظیفے کے لئے رابطے پر زیر عتاب آ گۓ۔
میں نے سوچا اگر مقبوضہ کشمیر سے آنے والا کھُلا ڈُلا خط کسی روز کھل گیا تو میرا بھی کھاتہ کھل جائے گا۔ آج یہ سب لکھتے ہوئے مجھے اپنا ایک برطانوی پروفیسر بھی یاد آ رہا ہے جس نے مجھے بنکاک میں Project Appraisal and Evaluationکا مضمون پڑھایا تھا۔ ایک دن کہنے لگا 'اگر تمہارے لوگ بھیجے کا استعمال کرتے تو آج میں تمہیں بنکاک کی بجائے لاہور میں یہ کورس پڑھا رہا ہوتا جہاں پہلے دو سال پڑھایا جاتا رہا تھا۔
تم لوگوں نے اپنا جھوٹا تسلط رکھنے اور راست فائدے کے لئے ایک بنا بنایا ادارہ تھائیوں کے حوالے کر دیا۔ تم لوگ بالواسطہ فائدوں کو دھیان میں رکھتے تو ہر سال مفت میں اور گھر بیٹھے تمہارے دو سو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوتے، سینکڑوں لوگوں کو ملازمتیں ملتیں اور جو غیر ملکی پروفیسر آتے، بچے آتے کیا زرمبادلہ کے بغیر آتے، پھر خرچ بھی تو وہیں کرتے۔
مگر تمہیں تو انکم ٹیکس کی فکر پڑی تھی یا ادارے پر کنٹرول کی۔ اور سنو یہی کام تو بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ کر رہے ہو۔ آج ہر کوئی تمہارے ہاں سرمایہ لانے کو تیار ہے مگر ایک وقت آئے گا تم منتیں کرو گے اور کوئی تمہارے ملک میں ایک پائی بھی نہیں لگائے گا'۔ مجھے اس بات پر اپنی دادی یاد آ گئیں۔ اکثر کہا کرتی تھیں 'ویلے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں'

Browse More Urdu Literature Articles