Bhalwal Se Wakhnangan Episode 6 ... Anna Ki Ana - Article No. 1382

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 6 ... Anna Ki Ana

بھلوال سے واخننگن قسط 6 ۔۔۔۔انا کی انا - تحریر نمبر 1382

وہ ماسی مارگریٹ سے کھب کھاتی تھی اور سہمی ہوئی چڑیا کی طرح چھپنے کے لئے ادھر ادھر بھٹکتی رہتی۔ وہ دو تین دن کے لئے آتی، ہمیں اپنی میزبانی سے نوازتی، وطن کی یاد دلا جاتی اور ہم اس کی اگلی آمد کے انتظار کا لطف اٹھاتے

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ بدھ 19 جولائی 2017

سنڈی سپینش تھی، کھلے سرخ گلاب کی طرح، جَو رنگ بھی تھی اور چار چفیرا معطر کر دینے والی بھی۔ انا یونانی تھی، سفید موتئے کے پھول ایسی سمٹی سمٹی، دھیمی دھیمی خوشبو لئے ہوئے۔ جہاں سنڈی بلاوا تھی، بیباکی تھی، دعوت نظارہ تھی، وہاں انا پُروائی تھی، جسے محض محسوس کیا جا سکتا ہے چھوا نہیں جا سکتا۔ سنڈی اور انا میں بنیادی فرق تعلیم تھا۔ تعلیم کی کمی اور حسن کی زیادتی نے سنڈی کو بے ساختگی اور شوخی سے اور تعلیم نے انا کو دھیمے پن اور "کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے" سے بھر رکھا تھا۔

انا ہارٹیکلچر میں Ph.Dکی سٹوڈنٹ تھی اور یہاں پارٹ ٹائمر۔ وہ ماسی مارگریٹ سے کھب کھاتی تھی اور سہمی ہوئی چڑیا کی طرح چھپنے کے لئے ادھر ادھر بھٹکتی رہتی۔ وہ دو تین دن کے لئے آتی، ہمیں اپنی میزبانی سے نوازتی، وطن کی یاد دلا جاتی اور ہم اس کی اگلی آمد کے انتظار کا لطف اٹھاتے۔

(جاری ہے)

جب بھی آتی کچھ نیا پن ہوتا اس میں۔ ایک بار آئی تو اس کی کلائیوں میں حیدرآباد کی سوہی چوڑیوں کی چھنک تھی اور اگلی بار کانوں میں گجرات کی سوہنی ایسے بڑے بڑے لُڑکے، یوں جیسے امل تاس کے پھول لٹک رہے ہوں۔

کبھی اس نے عابدہ پروین کی طرح گلے میں اجرک لٹکائی ہوتی اور کبھی کیلاش کی کافر حسینہ کی سی ٹوپی سر پر ہوتی۔ ہم آپس میں اس کے بارے میں بات کرتے کہ لگتا ہے سارا پاکستان اس پر مہربان رہا ہے مگر اس سہمی ہوئی لڑکی سے پوچھتے ہوئے سہم سے جاتے۔ ابلے چاولوں سے تنگ آئے ہوئے تھے، ایک دن ہم میں سے کسی نے کہہ دیا ان کم بختوں کو پلاوٴ بنانا نہیں آتا کیا، ابلے چاول کھا کھا کر پھاوے ہو گئے ہیں۔
پاس سے گزرتے ہوئے اس نے کہا "جی تو میرا بھی بڑا چاہتا ہے پلاوٴ کھانے کو مگر ۔۔۔" "مگر کیا؟" "مگر بنانا نہیں آتا" "بنانا تو مجھے بھی نہیں آتا، کوشش تو کر سکتے ہیں، مگر۔۔۔"۔ میں نے بھی جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ "مگر کیا؟" "کوئی جگہ بھی تو ہو ہُنر آزمانے کو" "تو میرے گھر آ جاوٴ اس اتوار کو سب پاکستانی۔ مجھے لسٹ بنا دو میں سامان لے آوٴں گی اور ہاں پاکستانی میوزک بھی سنواوٴں گی"۔
کہنے کو تو کہہ دیا اور بیٹھے بٹھائے ایک نئی مصیبت سہیڑ لی۔ اکبر خان نوشہرہ سے اور کراچی سے یونس علی ہمارے کورس کے دوسرے ساتھی تھے۔ اکبر خان سے بات ہوئی تو کہنے لگا "خو یہ بھی کوئی کام ہے۔ سامان تم لکھوا دو، بنا میں لوں گا"۔ تسلی ہو کے بھی میری تسلی نہ ہوئی۔ وہ تو اچانک میری بےغم کا فون آ گیا اور باتوں باتوں میں میں نے پوچھ لیا۔
کہنے لگی "سو بار کہا ہے تم بھی کوئی ڈھنگ کا کام سیکھ لو مگر تم نے کبھی میری بات پر دھیان ہی نہیں دیا، اب ہور چوپو"۔ تھوڑی سی خوشامد درآمد سے بات بن گئی۔ اگلے دن انا کو لسٹ تھما دی اس تاکید کے ساتھ کہ چکن اور مٹن حلال ہو۔ کہنے لگی "اس کی فکر چھوڑو مجھے پتہ ہے تم لوگ مٹکا پی جاوٴ گے مگر حلال تکوں کے ساتھ" "ارے یہ تو ہم سے بھی زیادہ باخبر نکلی"، میں نے ملک حمید کو بتایا۔
بالآخر، تھا جس کا انتظار وہ اتوار آ گیا۔ ہم پانچوں پاکی شلوار قمیض میں ملبوس اس اہتمام سے نکلے گویا عید کی نماز ادا کرنے جا رہے ہوں۔ جاتے ہوئے ہم نے پاکستان سے لائے ہوئے دستکاری کے نمونے، شیشوں کی کڑھائی کے گلے، چوڑیوں کے پیکٹ، نصرت فتح علی خان کی قوالی کی کیسٹیں، الغرض جو پوشیدہ اسلحہ جس کے پاس میسر تھا اٹھا لیا انا کی نذر کرنے کو۔
خان تو نسوار کی ڈبیا بھی اٹھانے لگا تھا، بڑی مشکل سے اسے روکا۔ کہنے لگا بھلے نہ کھائے، چھینک آوری کے لئے اور خود کو (ڈھکنے میں) پہچانے کے لئے تو استعمال کر سکتی ہے۔ دیئے گئے پتے پر پہنچے تو ایک منحنی سے ڈچ نے دروازہ کھولا۔ یہ ڈیرک تھا، انا کا منگیتر۔ اس کے پیچھے شلوار قمیض دوپٹے میں ملبوس ایک مٹیار مسکرا رہی تھی۔ اندر داخل ہوئے تو مزید حیرانی ہماری منتظر تھی، ہلکے والیوم میں پٹھانہ خان خواجہ غلام فرید کی کافی گا رہا تھا، پیلو پکیاں نیں، آچنوں رل یار۔
اور جسے انجم "پلاوٴ پکیا اے، آوٴ کھائیں مل یار" سن رہا تھا (یہ اس نے واپسی پر بتایا)۔ یوں لگ رہا تھا پاکستانی ثقافت ہمارا استقبال کر رہی ہے، اپنی سب اکائیوں کے ساتھ، صوفے پر اجرک کے کشن، زمین پر جھنگ کی دری، بیڈز پر بھیرے کے کھیس، سائیڈ ٹیبلز پر ملتان کے لیمپ شیڈز، سنٹر ٹیبل پر چنیوٹ کا بنا منقش ڈرائی فروٹ ٹرے، دیواروں پر کشمیری اخروٹ کی لکڑی کے منقش طغرے اور گلگت کے اڑیال کا سر، ایک کونے میں قصہ خوانی بازار کا لمبی گردن والا پیتل کا نقش و نگار والا کوزہ، قد آدم آئینے کے اوپر پھمن والی بلوچی جھالر اور ڈائننگ ٹیبل پر قرینے سے لگے ملتانی مٹی کے نیلے پھولوں والے برتن۔
گویا اک نگار خانہ تھا۔ ہمارے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا "واوٴ"۔ اس تحسین کے بعد اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اسے سوجھ نہیں رہا تھا کہ اس کا اظہار کیسے کرے۔ وہ ایک بچی کی طرح پاکستان بھر سے اکٹھی کی ہوئی دستکاریوں کی گڑیائیں ہمیں دکھانے لگی۔ اس نے بتایا کہ پاکستان جانا اس کا passion ہے اور وہ بیراگیری کرتی ہی پاکستان جانے کا خرچ نکالنے کے لئے ہے، پاکستان کا گوشہ گوشہ دیکھ چکی ہے اور بہت جگہوں پر دوبارہ جانے کی ہوس ہے۔
اس کا ڈچ منگیتر ڈیرک بھی ایک دو بار اس کے ساتھ جا چکا تھا مگر اس کا چہرہ کسی تاثر سے خالی تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا کہ اگلی بار ضرور مجھے بھی میزبانی کا موقع دیں گے۔ میں انا کے ساتھ کچن کا چکر لگا کر واپس آیا تو سب کو فرشی نشستوں پر موسیقی کے خزانے کی پھرولا پھرولی میں مصروف پایا، نصرت فتح علی خان تو ہالینڈ میں پاپولر تھا ہی، وہاں کیا نہیں تھا جمن فقیر سے عیسٰی خیلوی تک۔
جھگڑا یہ چل رہا تھا کہ پہلے کیا سنا جائے۔ بات قرعہ اندازی پر ختم ہوئی۔ اکبر خان کا قرعہ نکلا تو وہ پشتو موسیقی پر سر دھننے لگا۔ بلانے پر بھی ٹس سے مس نہ ہوا تو انا اور ڈیرک کے ساتھ میں نے ہنر آزمانے کا فیصلہ کیا کہ باقیوں نے ویسے ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے یہ کہہ کر کہ ہم تو صرف چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ بےغم کے نسخے کا کمال تھا یا امریکہ کے قیام کے دوران hit and trial کے تجربے کا فیضان، ہم نے پلاوٴ، زردہ اور کڑاہی گوشت بنا ہی لیا۔
ٹیبل سیٹ کرکے معزز مہمانوں کو بلایا تو میری ایک ہی شرط تھی کہ جو اور جیسا ہے صبر شکر کرکے کھا لو۔ مجھے آج بھی حیرت ہے کہ اتنا اچھا کھانا کیسے بن گیا، خصوصاً زردہ۔ اوپر والے نے لاج رکھ لی تھی۔ وہ دن تو ہمارا بہت خوبصورتی سے گزرا، مگر انا کا ثقافتی خزانہ ہمارے اس وقت بھی کام آیا جب IAC میں انٹرنیشنل کلچرل ڈے منایا گیا۔ ہم نے پاکستان کا سٹال اس خوبصورتی سے سجایا کہ پہلا انعام لے اڑے۔
وہ نہ ہوتی تو ہم شاید اپنا اپنا منہ بطور ثقافت پیش کر دیتے (یا وہ اکلوتا کھسہ جو جانے کیوں میں اٹھا لے گیا تھا اور جسے ایک ٹرکش حسینہ دل دے بیٹھی تھی مگر ہائے وہ اس کے پاوٴں سے انچ بھر بڑا نکلا ورنہ۔۔۔۔۔ انا کے ماتھے پر ایک بھی بل نہ آیا جب اسے پتہ چلا کہ ملتانی مٹی کی چینک ہماری بد احتیاطی کی نذر ہو گئی ہے۔ بس دھیرے سے اتنا بولی، اور لے آئیں گے ملتان سے جو ٹوٹ گیا۔
وہ پاکستان آئی بھی اور اس نے خوشاب میں مجھ سے رابطہ بھی کیا مگر صرف یہ بتانے کے لئے کہ وہ دو ماہ کافرستان میں گزارنے کے بعد اگلی صبح واپس جا رہی ہے دوبارہ نہ آنے کے لئے۔ شاید اسے پتہ چل گیا تھا کہ میرے ساتھ اس کی سب تصویروں پر میری بیٹی اقرا نے سیاہی پھیر دی تھی۔ مجھے اس کے نہ آنے کا اتنا افسوس نہ تھا جتنا اس بات کا کہ اس کا تعلق ڈیرک سے تڑک کر کے ٹوٹ چکا تھا۔
اس نے پی ایچ ڈی مکمل کر لی تھی اور اب واپس یونان جارہی تھی، وہاں کے رواج کے مطابق اپنی ماں کے ساتھ رہنے کے لئے۔ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کے ناتے یہ اس کی ذمہ داری تھی (اس کے بقول یونان میں بیٹیاں ماں باپ کو سنبھالتی ہیں اور ترکے کی حقدار بھی وہی ہوتی ہیں)۔ ڈیرک اپنے وعدے سے پھر گیا تھا۔ وہ اپنے باپ کا ٹیولپ ایکسپورٹ کا مستحکم کاروبار چھوڑ کر یونان سیٹل ہونے کو تیار نہ تھا اور انا ماں کو چھوڑ کر ہالینڈ میں رہنے کو۔ ویل ڈن انا! تمہاری انا کو سلام، تمہیں کوئی اور ڈیرک تو مل سکتا تھا، کوئی اور ماں نہیں، سِنڈی تمہاری یاد کا اب تک چراغ جلتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles