Pandit Hari Chandar Akhtar - Article No. 2182

Pandit Hari Chandar Akhtar

” پنڈت ہری چند اختر“ - تحریر نمبر 2182

مولانا آزاداُ ردو یونیورسٹی لکھنوٴ میں مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کا دو روزہ قومی سیمینار

منگل 5 نومبر 2019

احمد امیر پاشا۔ مملکتِ بحرین
وی ڈی مہاجن، ڈاکٹر تارا چنداور ڈاکٹر شیلا سین جیسے نامور تاریخ نویسوں نے بھی ہندوستانی سماج اور اس سے وابستہ تاریخی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے یہی تاثر دیا ہے کہ ازمنہِ قدیم سے زمانہِ حال تک مختلف مذاہب کی حریفانہ کشاکش کے باوجود اس کی جغرافیائی اور سماجی ایکتا کا ایک بڑا سبب لسّانی وحدت یا اس سے وابستہ علمی سرمایہ رہا ہے۔
اسی لسّانی اشتراک عمل سے اس خطے میں علمی ترقی کا وہ سنہری دور آیا جس نظیر جنوبی ایشاء کے کسی دوسرے منطقے میں نہیں ملتی، اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ابو ریحان البیرونی جیسا عظیم مسلمان عالم سنسکرت اور ریاضی سیکھنے کے لئے ہندوستان آیا۔ہندوستان ایک اتنا بڑا جغرافیائی اور ثقافتی خطہ ہے کہ اس کی بقا متضاد عناصر سے ممکن ہی نہیں بلکہ اس کی خوشحالی اور قومی سلامتی کا دارومدار موافق و مشترک عناصرکے فروغ میں ہے۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں اگر ازمنہ وسطیٰ کے ہندوستانی سماج کے آرٹ، ادب ، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کی با کمال ترقی کا جائزہ لیا جائے تو اس ہمہ گیر عمل میں زبانِ اُ ردو مرزی کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔تیرھویں صدی میں پروان چڑھنے والی اس نئی نویلی لسّانی دوشیزہ نے پوری جنوبی ایشیائی سماج کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیا تھا۔بعد میں سیاسی عروج و زوال کے تہ بہ تہ معرکوں میں اُردو نے کارِمسیحائی کیا اور سیاسی و مذہبی کشمکش کے رستے ہوئے زخموں پر نہ صرف مرہم رکھا بلکہ یہاں آباد اقوام میں باہمی افہام و تفہیم کی راہ بھی نکالی۔
اس زبان کا خمیر ہندوستانی معاشرے سے اٹھا ہے اور یہی اس خطے کی معاشرتی نا ہمواریوں کا تریاق بھی ہے۔
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو ( مملکت ِ بحرین )کے زیرِ اہتمام 30اور31اکتوبر2019 ء کو لکھنئو کی درسگاہِ علم پرورمولانا آزاد جامعہ اُردو میں منعقدہ دوروزہ سیمیناربیادِ ” پنڈت ہری چند اختر“ کا انعقاد میری مندرجہ بالا رائے کی تائید کے لئے کافی ہے۔
انگریزی میڈیم کے طوفانِ بلا خیز اور معدوم ہوتی ہوئی علمی قدروں کے اس دور میں لسانی تخریب کا ایک عالمی عمل قوموں کو ان کی شناخت کے مسئلے سے دوچار کر چکا ہے۔ ان حالات میں مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردوکا قیام بلا شبہ محترم شکیل احمد صبر حدی کا قابلِ تقلید قدم ہے جس کے ادبی و علمی اثرات عالمی سطح پر محسوس کئے جا رہے ہیں،اسی لئے صدر جمہوریہ ہندعالی جناب رام ناتھ کووندنے مجروح فہمی کی ہندی زبان میں تلخیص کی اشاعت پربانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردومحترم شکیل احمد صبر حدی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ آپکی عمدہ کاوشوں کی صدا ہندوستان تک سنائی دے رہی ہے۔

اس مضمون کا پس منظر دراصل محترم شکیل احمد صبرحدی کے خیالا ت و تاثرات سے ہی کشید کیا گیا ہے۔آپ اس ضمن میں ہندوستانی سماج میں تعاون و اشتراک کو ایک ضرورت نہیں بلکہ ایک نظرئے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔ اس نظرئے کی اصل روح غیر مذہبی بنیادو پر فروغِ اُردو کا ایک ایسا ہمہ گیر عمل ہے جس میں اس زبان کے علمی سوتوں کی دوبارہ آبیاری کر نا ہے اور اس عمل میں ان تمام علمائے اردو،ادبّاء اور شعرائے عظام کے کردار کو اشاعتی بنیادوں پر خراج پیش کر نا ہے تاکہ اس حوالے سے اصل ادبی سرمایہ اور اس سے وابستہ کاوشوں کو معتبر تاریخ کے طور پر کتابی شکل میں شائع کر کے آئندہ نسلوں کو منتقل کیا جاسکے۔

اہلِ عرب زبان دانی کے مقابلے منعقد کراتے تھے ، پھر منتخب کلام کو لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکاتے تھے، انہیں سبع معلقات کہا جاتا تھا۔ شاید یہ روایت بعد میں شعراء کے کلام کی اشاعت کے لئے تصنیف و تالیف کا ڈھب اختیار کر گئی۔مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردونے بھی اس روایت کو شایانِ شایان اندازمیں زندہ رکھا۔ایک سال اُردو کے کسی عالمی سطح کے مسلم تو اگلے سال کسی غیر مسلم شاعر کی یاد میں عالمی مشاعرے کے انعقاد کا طریق مقرر کیا۔
سال بھر اس شاعر کے مصرعوں پر طرحی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ پھر ہندوستان کی کسی نامور جامعہ میں اسی شاعرِمحترم کی شعری و ادبی خدمات کے حوالے سے و روزہ سیمینار منعقد کیا جاتا ہے۔اس سیمینار میں پڑھے گئے ارباب علم وفن کے مقالات و مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے، یہ اشاعت اپنی نوعیت کی تابناک علمی کاوش شمار ہوئی ہے، جس کی تحدیث میں عہدِ حاضرکے معروف ناقدین قلمکار اُردو، رطب اللّساں ہیں۔
اب ایسی ہر اشاعت کا ایک ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا کرے گا جو محترم شکیل صاحب کی علمی وادبی اشتراک عمل کی کوششوں پر مستزاد ہے۔ بایں ہمہ عالمی مشاعرے میں اس قابلِ قدر تصنیف کی رونمائی صدر مشاعرہ اور دیگر احبابِ علم کے ہاتھوں ہوتی ہے۔اس موقعہ پر عالمی مشاعرے میں شریک مقامی اور مہمان شعراء کے کلام پر مشتمل مجلہ شائع کر کے شائقین شعرو ادب کی نذر کیا جاتا ہے۔
یہ ایک بڑی مربوط، پیہم اورمرتب کاوش ہے جس کی سرپرستی بذاتِ خود بانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو، محترم شکیل احمدصبر حدی کرتے ہیں۔ہندوستان میں قومی سیمینار اور اس سے حاصل ہونے والے علمی مواد کی اشاعت کے ذمہ دار جناب آصف اعظمی ہیں جبکہ اس سارے عمل میں قطر میں مقیم معروف شاعر جناب عزیز نبیل مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردوکے مشیرِخاص ہیں۔
بحرین میں مجلس کے زیرِاہتمام عالمی مشاعرے اور مقامی طرحی نشستوں کے انصرام کے لئے ایک الگ متحرک نظم موجود ہے۔
بلا شبہ پنڈت ہری چند اختر اُردو کے ایک نامور صحافی اورمقبولِ عام شاعر تھے، تاہم اس عہد میں بڑے شعراء اور صحافیوں کی چکا چوند میں ، ان کی علمی قامت کااعتراف قدرے بعد میں ہوا، ہندوستان اور پاکستان میں بطور شاعر اورصحافی ان کی خدمات کوعلمی حلقوں کی طرف سے گاہے بہ گاہے سراہا گیا ہے۔
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردونے سال 2020ء کے عالمی مشاعرے کے لئے ہری چند اختر کا نام منتخب کیام اسی حوالے سے 30اور31اکتوبر2019ء کومولانا آزاد اُردو یونیورسٹی ، لکھنئو میں منعقدہ سیمینا ربعنوان ” پنڈت ہری چند اختر “ منعقد کیا گیا۔جناب عاطف عمران نے تلاوتِ کلامِ پاک سے سیمینار کے پہلے دن کا آغاز کیا۔جناب انیس احسن اعظمی، کنوینر سیمینار اور مشیرِاعلیٰ ، مرکزی مطالعات اُردو ثقافت نے اس دن نظامت کے فرائض سر انجام دئے۔
اس دوروزہ سیمینار کے پہلے دن بانی وسرپرست مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردوکے بانی و سرپرست محترم شکیل احمد صبر حدی نے اپنے استقبالیہ اور تعارفی کلمات میں کہا کہ ، اُردو کے معاملے میں دکن کو اولیّت حاصل رہی ہے،قطب شاہوں نے اس کی ابتداء کی،اُردوکا پہلا صاحب دیوان شاعر بھی محمدقلی قطب شاہ والیِ ِدکن تھااس کے بعد ولی دکنی اور کئی دسرے شاعروں نے اردو کو مالا مال کیا۔
نظام حیدر آباد نے اردوشعرو ادب کی بہت سرپرستی کی اور اسکے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا، آج کا یہ سیمینار بھی فروغِ اُردو ہی کی ایک کاوش ہے۔
جناب پرتاپ سومونشی ، ایگزیکٹو ایڈیٹر روزنامہ ہندوستان نے کہا،میرے دادا ہری چند کے اشعار پڑھا کرتے تھے،اس طرح میرا ان سے علمی تعارف ہوا۔ہری چند ایک حساس دل رکھنے والے شاعر اور صحافی تھے، وہ لوگوں کی مدد کرتے تھے ، بعض اوقات وہ لوگوں کی مدد ادھار لے کر کرتے تھے۔
ڈاکٹر عزیز احمد ،ایم ڈی ، احمد ہاسپٹل گورکھپور نے سیمینارکے پہلے دن کے اختتام پر اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ، ہری چند نے تحریک آزادی میں بڑا سرگرم حصہ لیا اس سلسلے میں انہوں نے مصائب بھی برداشت کئے۔ پہلے وہ لاہور میں تھے، پھر دہلی آ گئے۔ قیام پاکستان کے بعد اُردو کو اس ملک کی قومی زبان قرار دیا گیا جبکہ ہری چند جیسے شعراء اور صحافیوں نے مشکلات اور مخالفت کے باوجو دہندوستان میں اُردوکے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے خظاب بعنوان ” پنڈت ہری چند اختر اُردو شاعری اور صحافت کے آئینے میں “ حاضرین سے خطاب کر تے ہوئے کہا ، گو کہ پنڈت ہری چند کو ان کی شاعری اور صحافتی خدمات کے حوالے سے ان کے شایان ِشان مقام نہیں ملا تاہم ان کے حوالے سے مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردوکے اس سیمینار کا انعقاد بہت حوصلہ فزا ہے۔
پروفیسر ایوب خان،پرو وائس چانسلر نے اپنے خیر مقدمی خطاب میں کہا کہ ہمیں ادب اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں پنڈت ہری چند جیسے سیکولر لوگوں کی تلا ش کرنی چاہئے اور ان کو ان کاجائز مقام دینا چاہئے۔
31اکتوبر2019, ء مجلسِ بحرین برائے فروغِ اُردو اور ماڈرن آئییا کمیونیکیشن کے اشتراک سے مولانا آزاد یونیورسٹی لکھنئومیں منعقد اس قومی سیمینار کا دوسرا اور آخری دن تھا۔
اس دن کی تقریب میں صدارت ریاست کیرالہ کے گورنر جناب عارف محمد خان نے کی۔اس دن کی ابتدا بانی و سرپرست مجلسِ بحرین برائے فروغِ اُردوکے بانی و سرپرست محترم شکیل احمد صبر حدی کے استقبالیہ خطبے سے ہوئی۔انہوں نے اپنے اظہارِ تشکر اور استقبالیہ کلمات میں کہا کہ !بحرین میں ہماری ادبی تنظیم مجلسِ بحرین برائے فروغِ اُردو، اور ماڈرن آئیڈیاز کمیونیکیشن کے اشتراک سے ہندوستان کی مختلف جامعات میں گزشتہ چھ سال سے سیمینار منعقد کرا کے اس سے حاصل شدہ قیمتی علمی مواد کو کتابی شکل میں شائع کررہی ہے ، اس کا بنیادی مقصد اردو کے نامور مسلم اور غیر مسلم شعراء کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔
اس طرح ہماری یہ عالمی تنظیم جامعہ ہمدرد الہٰ آباداور ممبئی یونیورسٹی میں شہر یار،عرفان صدیقی،چکبست، آنند نرائن ملّااور فراق جیسے بڑے شعرائے کرام کے حوالے سے سیمینار منعقد کر کے ان کی حیات و شعری کمالات پر ضخیم کتب شائع کر چکی ہے۔اس ساری کاوش کا بنیادی مقصدزبانِ اردو کی ترویج اس کے ادبی اور شعری مزاج کے مطابق اس طرح کرنا ہے کہ اس کا علمی سرمایہ نہ صرف نسلِ نو کو منتقل ہو بلکہ قارئین کا اپنے مشاہیر سے ذہنی اور قلمی تعلق بھی بحال ہو اس ے امید ہے کہ کتاب بینی کے ذوق و شوق کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی۔

اس دن کی تقریب کی نظامت کرتے ہوئے جناب آصف اعظمی نے کہا کہ جہاں بھی ایسی علمی اور دبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں وہاں اس عظیم مقصد سے وابستہ احباب اور ان کی فلاحی سرگرمیوں کی بھر پور تحسین کی جاتی ہے۔۔اس سلسلے میں فروغِ اردو کے لئے ،جناب زاہد علی خان،ایڈیٹر روزنامہ ” سیاست “ ، خدمتِ خلق کے لئے جناب کریم عرفان، بانی اقراء خدمت سوسائٹی اور پروفیسر اروندا کشن ،سابق پرو وائس چانسلر مہاتما گاندھی انٹر راشٹریہ ہندی یونیورسٹی کو مذہبی رواداری کے لئے ان کی مساعی پر اعزازات سے نوازا گیا۔
اس موقع پر جناب جتندر سریواستو بھی شہ نشین پر موجود تھے۔گورنر کیرالہ محترعارف خان کے ہاتھوں مولانا آزاد یونیورسٹی کی رپورٹ ” ہماری پیشرفت “ کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
اپنے صدرتی خطبے میں صدرِ تقریب ، کیرالہ کے گورنر محترم عارف خان نے سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے لئے اُردو کے تاریخی کردار کی تعریف کی۔ اس ،موقع پر انہوں مولانا آزاد اور دیگر شخصیات کے حوالے بھی دئے۔انہوں نے کہا کہ مجلسِ بحرین برائے فروغِ اُردوکی ان قیمتی اور بے لوث کاوشوں سے لسّانی اور سماجی ہم آہنگی کی مساعی کو تقویت ملے گی۔انہوں نے اس قومی سیمینار کے انعقاد پر بانی و سرپرست مجلسِ فخرِبحرین برائے فروغِ اُردوکے ذاتی فیاضانہ کردار کی تعریف بھی کی۔

Browse More Urdu Literature Articles