Aik Mulaqaat - Article No. 1922

Aik Mulaqaat

ایک ملاقات - تحریر نمبر 1922

میرے نرم لہجے کا اثر تھا۔۔ یا اس کی پریشانیوں کا نشہ کہ وہ باتوں باتوں میں، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرے قریب آرہی تھی اور میں حالات کی نزاکت سمجھ کر دروازے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔۔۔۔وہ جو کچھ کہنا چاہتی تھی میں بن سُنے سمجھ گیا تھا

وسیم خان عابد منگل 19 فروری 2019

اُن دنوں ریل گاڑیوں پر کافی رش تھا، جب نجیب شاہ نے دفتر میں آکر مجھ سے باہر آنے کو کہا، اور میں اُٹھ کے اُس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ چل کر ایک درمیانے قد کی فربہ اندام خاتون کے پاس کھڑا ہو گیا، جو مجھے ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ نیلگوں آنکھیں اور گورا چِٹا رنگ کسی کے بھی اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھے جبکہ نجیب شاہ اکثر ایسی رنگت والوں پر بہت مہربان رہتا تھا۔
میں سمجھ گیا کہ اُس نے پھر سے ترس کھا کرمجھے ڈھال بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔کیونکہ ان ملازمین کے ساتھ میرا اُٹھنا بیٹھنا بھائیوں جیسا تھا۔اور وہ بلاجھجھک مجھ سے سب کچھ کہہ دیتے۔میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ خاتون گویا ہوئی۔۔۔وہ جی!۔۔ مجھے پشاور جاناہے۔۔میں نے کہا کہ بی بی اب تو کوئی گاڑی نہیں ہے آپ کو کل آنا پڑے گا۔

(جاری ہے)

۔۔لیکن!۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئی۔

۔میں نے پھر سوال کیا۔۔۔ لیکن کیا؟۔۔لیکن یہ سامان۔۔اُس نے آنکھیں اُٹھا کر ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔۔میں نے ڈھیر کی طر ف سوالیہ نظروں سے اشارہ کیا۔۔ مگر!۔۔۔۔اتنا سامان تو پورے محلے کا ہوتا ہے ایک بندے کا اتنا سامان؟۔۔وہ۔۔ جی۔۔۔۔۔کہہ کر مسکرائی۔۔۔۔ میرا بھائی بھی میرے ساتھ ہے اوریہ سامان ہم دوبندوں کا ہے۔۔۔وہ دھیمے لہجے میں بول رہی تھی۔
۔۔جو اکثرزوداثر ثابت ہوتا ہے۔۔ شام کے سائے پھیل رہے تھے اور شب کی سیاہ زلفیں دھیرے دھیرے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھیں۔۔ اُس کا بھائی بھی سامان کے ڈھیرے کے پیچھے سے اُٹھ کر ہمارے پاس آگیا۔۔ اُس نے ایک دفعہ پھر میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھا۔۔اور میں نظریں بھانپ کر گویا ہوا۔۔ مگر اب میں کیا کر سکتاہوں۔۔؟ اس دفعہ نجیب شاہ نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
۔سرَاگر آپ بُرا نہ مانیں توانھیں شفقت صاحب کے کوارٹرمیں ٹھہرا لیتے ہیں اور سامان صبح تک گودام کے اندر رکھ لیتے ہیں۔۔ وہ اپنے ذہن میں فیصلہ کر چکا تھا مگر اُس پر میری مرضی کی مُہر ثبت کرنا چاہتا تھا۔۔ شفقت کا بھرا پُرا کوارٹر میں کیسے ایک اجنبی کے حوالہ کروں؟۔۔ لیکن ایک جوان جہان عورت کو سٹیشن پر اکیلے چھوڑنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔
۔ کیونکہ اُسکا بھائی نہ ہونے کے برابر تھا، وہ جسامت سے تو جوان مرد تھا لیکن ذہنی لحاظ سے ایک پانچ سالہ بچہ تھا۔ میں نے سٹیشن کے چند ملازموں کو اسکا سامان گودام کے اندر رکھنے کا کہا!۔اور ایک ملازم کو اُنکے ساتھ بھیج کر کوارٹر کھلوا دیا۔۔ جب میری ڈیوٹی ختم ہوئی تو رات کے نو بج چکے تھے۔۔۔ کوارٹر پہنچنے پر اُسکا بھائی آیا اور چائے کی دعوت دی۔
۔پہلے تو میں نے تکلف سے کام لیا لیکن چائے کی طلب مجھے بھی ہورہی تھی اس لیے تکلف کو بالائے طاق رکھ کر اُس کے پاس چلا گیا۔۔کھانے پینے کا سب سامان اُنکے پاس موجود تھااور وہ دونوں کھانا کھا چکے تھے۔۔ اُنکے ساتھ چائے پینے کے بعد میں اپنے کورٹر میں سونے کے لئے آگیا۔۔ اور پھر نیند کی پری مجھے کب لے اُڑی اس کا پتہ نہ چلا۔۔مگر صبح سورج نے بھی منہ نہیں دھویا تھا کہ میرے دروازے پر مُکا بازی شروع ہوگئی۔
۔ میں نے آواز دی۔۔۔ تو ''ناشتہ تیار ہے بابو جی۔۔!'' کی آوازیں کونجنے لگیں۔۔جی کڑا کرکے جاڑے کے بستر سے اُٹھا اور منہ ہاتھ ٹھنڈے پانی سے دھو کر کمبل میں ٹھٹھرتے ہوئے اُن کے پاس پہنچ گیا۔۔ اور مروتاََ ''آپ میرے مہمان ہیں ناشتہ تو میں آپ کو کراتا!۔۔ آپ نے بِلاوجہ تکلیف کی ہے ''۔۔کہہ کر بری الزمہ ہونا چاہا۔۔۔ حالانکہ میں کھسیانا سا محسوس کر رہا تھا کیونکہ نہ رات کے کھانے کا میں نے پوچھا تھا اور نہ صبح ناشتے کی دعوت دی تھی۔
یہ وہ چند الفاظ تھے جس سے میں نے اپنی خجالت ختم کرنی چاہی۔۔۔اُس نے بھی۔۔۔۔ نہیں آپ ڈیوٹی کے تھکے ہوئے ہیں! یہ ہمارا فرض تھا ۔۔۔ قسم کے چند جملے بول کر اپنی بڑائی کا ثبوت دیا۔۔ ناشتہ کرتے ہوئے ویسے ہی خاموشی توڑنے کے لئے میں نے سوال کیا: یہ اتنا سارا سامان آپ کہاں لے جارہے ہیں۔اگرچہ میرے تجسس نے اس کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
۔ لیکن منہ بند کرکے بیٹھنا بھی مجھے تکلیف دیتا ہے۔۔۔وہ شاید سنانے کے انتظار میں تھی۔۔۔ جھٹ سے جواب دیا: گھر چھوڑ کر جارہی ہوں۔۔۔مگر۔۔؟۔۔اس مگر کے پیچھے کیوں کا وہ پورا سوال تھا جو میں کرنا چاہتا تھا۔۔ اُس نے بے نیاز ہوکر جواب دیا۔۔۔۔ ہمیشہ کے لئے!۔۔۔ میرا نام کنول ہے اور میرا تعلق پشاور کے نواحی گاؤں '' شکہ کلے '' سے ہے۔میرے والد صاحب وفات پاچکے ہیں اور بڑا بھائی فوج میں ملازم ہے۔
۔ یہ میرا دوسرا بھائی ہے،نجم۔۔۔ عمر میں مجھ سے بڑا ہے لیکن بچپن سے ذہنی طور پرمعذور ہے۔بھائی کی شادی سے پہلے تو سب کچھ ٹھیک تھا۔اور میں کالج میں پڑھتی تھی لیکن جونہی اُس نے شادی کرلی تو گھر بکھر گیا۔۔میں بارہویں جماعت کی طالبہ تھی جب اُس نے میری شادی طے کی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ ہم دونوں بہنوں کو بوجھ سمجھنے لگ گیا تھا۔۔وہ امی اور نجم بھائی سے بھی جان چھڑانا چاہتا تھا۔
مگر اُسے کوئی ترکیب نہ سوجھی! نہال ابھی چھوٹی تھی اس لئے اُس نے جیسے تیسے اُسے برداشت کر لیا مگر مجھے خوشاب کے ایک فوجی دوست کے پلے باندھ دیا۔۔ پشتون روایات کی وجہ سے میں نے اسے اپنے مقدر کا لکھا سمجھا۔اور چُپ چاپ اپنے پیا دیس سدھار گئی۔۔ لیکن خوشاب جاکر پتہ چلا کہ اُس کی ایک بیوی اور پانچ بچے ہیں۔ میری عمر اُس وقت 18 سال تھی جبکہ میرا شوہر48 سے اوپر تھا۔
۔ اُس کا بڑا بیٹا بھی مجھ سے عمر میں کئی سال بڑا تھا۔۔ میں نے مقدر کا لکھا سمجھ کر چپ سادھ لی۔بوڑھے فوجی نے پہلے چند مہینے تو مجھے اپنے ساتھ رکھا لیکن پھر اپنے گاؤں میں چھوڑ دیا۔۔۔ اب گاؤں میں جانوروں کی دیکھ بھال میرے ذمہ لگا دی گئی۔۔۔ قلم اور کتاب کے عادی ہاتھ اوپلے تھاپنے لگے اور جانوروں کے چارے کا بندبست کرنے لگے۔۔۔ فوجیوں کو چھٹیاں ویسے بھی بہت کم ملتی ہیں لیکن میرا فوجی جب بھی گھر آتاتو بڑی بیوی اُسے اپنی آغوش میں کر لیتی۔
۔اور میرے پاس آنے سے روکتی۔۔۔ وہ بیٹوں والی تھی اور میں صرف ایک کھلونا جس سے بوڑھا پوری طرح کھیلنے کے لیے بھی آزاد نہ تھا۔۔۔۔ وہ میرے پاس چوری چھپے آتا اور ہم میاں بیوی ہونے کے باوجود بھی گنہگاروں کی طرح ملتے۔ بھا ئی نے میری شادی کے بعد اپنا گھر الگ کر لیا اور اماں والد کے قلیل پینشن سے نان شینہ کا بندوبست کرتی رہی۔۔۔۔ لیکن میں نے بہت برداشت کر لیا۔
اب بس۔۔اپنے گھر میں مزدوربن کر رہنے کا درد اپنی جگہ۔۔، لیکن سہاگن ہونے کے باوجود بیوہ کی ذلت بھری زندگی نا قابلِ برداشت ہے۔۔ اس لئے میں نے وہ گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا ہے اب میں اپنی اماں کے پاس جارہی ہوں!۔۔۔ گاڑی کا وقت قریب آرہا تھا۔۔ اس لئے ہم کوارٹر سے نکل کرسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔۔ وہ انتظار گاہ میں بیٹھ گئی اور میں نے بندے بھیج کر اُسکا سامان پلیٹ فارم پر رکھوا دیا۔
۔ سارا سامان اونے پونے داموں بُک کرواکے اُسے رسید تھمادی۔۔۔اُس نے ملازم کو رقم کی ادائیگی کر دی۔۔۔وی آئی پی مسافر خانہ ابھی تک خالی پڑا تھا۔۔۔۔ جب میں باہر نکلنے لگا تو اُس نے پیچھے سے آواز دی۔۔۔ جی زرارُکیے!۔۔ میں نے مُڑ کر اُس کی طرف دیکھا اور کہا: فرمائیے!۔۔۔اُس نے اپنا پرس کھولا۔۔ میرے پاس پیسے کافی ہیں میں اپنی سب جمع پونجی اور زیورات اپنے ساتھ لائی ہوں۔
آپ بھی سرکاری ملازم ہیں اور ہماری کافی خدمت کی، رات بسر کرنے کے لیے جگہ دی، آپ اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے رقم لے لیں(شاید اُسے سرکاری ملازمین کی چائے پانی والی عادت سے واقفیت تھی)۔۔ میں نے اُسکی طرف دیکھ کر کہا۔ تم بھی پشتون ہو اور میں بھی۔۔ کیا ہم مہمانوں کی خدمت رقم لیکر کرتے ہیں؟ آپ میرے مہمان ہیں اور میں نے آپ کا شاید ویسا خیال بھی نہیں رکھاجس کی آپ حقدار تھیں۔
!۔۔ آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔!میرے نرم لہجے کا اثر تھا۔۔ یا اس کی پریشانیوں کا نشہ کہ وہ باتوں باتوں میں، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرے قریب آرہی تھی اور میں حالات کی نزاکت سمجھ کر دروازے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔۔۔۔وہ جو کچھ کہنا چاہتی تھی میں بن سُنے سمجھ گیا تھا۔۔۔۔۔ کنول تم اچھی ہو بلکہ بہت اچھی ہو لیکن میں ایک شادی شدہ مرد ہوں!۔
۔۔۔۔ ان الفاظ کا کہنا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی۔میں اس اتفاقی سین سے ڈر گیا اور دروازے کی طرف جلدی سے ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔وہ سسکیاں لے لے کر کہہ رہی تھی۔۔ کاش!۔۔۔کاش!۔۔مجھے بھی صرف میری پوجا کرنے والا ملا ہوتا۔۔کاش میں بھی اپنے شوہر کو صرف میرا کہہ سکتی۔۔اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔۔بابو جی۔۔ یہ خدا بھی عجیب کھیل کھیلتا ہے۔۔
۔ اپنے مشرک کو آگ میں ڈالنے کے درپے ہے اور ہم عورتوں کے شریک جائزقرار دے دیے۔۔۔ہے نا بابوجی عجیب بات۔؟ ۔۔۔۔ اس کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا ۔۔۔۔میں نے تسلی دینے کے لیے کہا۔۔۔!۔۔ پگلی تم جوان ہو، خوبصورت اور تعلیم یافتہ ہو۔۔ کون ہوگاجو تم سے شادی سے انکار کرے گا۔۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنا۔۔ خُدا اتنا ظالم نہیں کہ بار بار ستائے۔
۔ آزمائش تو کبھی کبھی ہوتی ہے۔۔۔اور اس دفعہ انشاء اللہ تجھے مشرک نہیں موحد ملے گا۔۔۔ اُس نے مجھ سے پین لے کر ایک رف کا غذ پر اپنا پتہ لکھ دیا۔۔اور دوسرا ٹکڑا مجھے تھما کر مجھ سے موبائل نمبر لکھنے کو کہا۔۔۔۔میں نے کیوں؟ کہا۔۔۔کہنے لگی صاحب جب موحد ملے گا تو اطلاع دوں گی حالانکہ ہم عورتوں کی قسمت میں سارے مشرک لکھے ہیں۔۔۔کسی کا دوسرا خدا ،اس کے دل میں رہتا ہے اور کسی کے گھر میں۔
۔!۔ اس کی باتیں مجھے بے چین کر رہی تھیں۔ اور میں جلد از جلد اس ماحول کے طلسم سے نکلنا چاہتا تھا۔اس لیے اسکا خالی کاغذاورلکھا ہوا پتہ اُسے واپس کر تے ہوئے کہا۔۔۔کنول بھلائی اسی میں ہے کہ زندگی بھر ہم ایک دوسرے سے نہ ملیں اور نہ رابطہ رکھیں۔۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو پھر سے پھوٹنے لگے لیکن خاموش آنسو سسکیوں کے بغیر۔۔ اور وہ میرے چہرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی۔
۔۔میں نے سر جھکا کر خُدا حافظ کہا اور دروازے کی طرف لپکا۔۔ مگراُس نے کاندھے پر ہا تھ رکھ کر مجھے روکا۔۔۔جی ایک عرضی ہے۔؟ یہ زندگی بھی عجیب شے ہے ملنے والے بچھڑتے ہیں اور بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں۔۔۔ لیکن ہمارے بچھڑنے سے ظاہر ہے کہ پھر ملنے کی سعی بھی آپکی طرف سے نہ رہے گی۔۔۔ میری ایک آخری خواہش اگر پوری کر سکو تو عنایت ہوگی۔۔۔میں نے کہا:۔
۔ جی فرمائیں!۔۔ اُس نے قریب آکر کہا ایک دفعہ صرف ایک دفعہ مجھے دل کھول کر اپنے سینے سے لگا لو اور شاید یہی میری زندگی کا کل اثاثہ ہو۔۔۔میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بانہیں کھول دیں۔۔۔نجانے کیوں!۔۔۔کیونکہ اُس ماحول میں میرے لیے جسم اور جنس کا دور دور تک نام ونشان نہیں تھا!۔۔اُس کے الفاظ میری روح کو چُھو رہے تھے۔۔اور وہ مجھ سے لِپٹ گئی۔
۔ میں نے ہاتھ باندھ کر اُسے اپنے سینے کے ساتھ بھینج لیا۔۔اُسکے آنسوبہہ کراسکے ہونٹوں کو تر کر رہے تھے۔۔ اور اُسکے ہونٹ بجھتے ہوئے چراغ کی لو کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے۔۔۔۔قریب ہونے کی وجہ سے اُس نے اپنے تر ہونٹوں سے میرے گال کو ایک مدہم سا بوسہ دیا۔۔۔ اور میں اُسے اپنے آپ سے الگ کرتے ہوئے فوراََ کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔ چند منٹوں بعد گاڑی آئی اور۔۔ کنول۔۔۔ چلی گئی۔۔! لیکن آج بھی یخ بستہ راتوں میں جب گال سے کوئی نم شے مَس ہوتی ہے،تو گال دہک سا جاتا ہے۔۔۔اور بے تحاشا کنول کی یاد دلاتا ہے۔۔۔ کنول کو دل کھول کر سینے سے لگانا اور یاد رکھنا میرا شرک ہی نہ ہو۔۔ کیا دوسرا خدا مرے دل میں بھی بس چکاہے۔۔۔۔۔۔؟

Browse More Urdu Literature Articles