Aina - Article No. 1571

Aina

آئینہ - تحریر نمبر 1571

میرا باپ کہتا تھا آئینہ شناخت دیتا ہے، جس کو اپنی شناخت مل گئی اس کو منزل مل گئی۔ ”شناخت“ اور ”پہچان“ ہی انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرتے ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعرات 2 نومبر 2017

اس پھول کی طرح جس کی تمام عمر بھولنے والے سنگدل کی کتاب میں گزری ہو میرے باپ کو بھی عجیب دکھ تھا، وہ کہتا تھا لوگ قیامت برپا کرنے والے ایٹم بم کے موجد کا نام تو جانتے ہیں مگر آئینے کے موجد کا نام کوئی نہیں جانتا۔ وہ کہتا تھا آئینہ تو شناخت دیتا ہے، جس کو اپنی شناخت مل گئی اس کو منزل مل گئی۔ ”شناخت“ اور ”پہچان“ ہی انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرتے ہیں۔

انسان عقل استدلالی کے ذریعے خدا کا ادراک چاہتا ہے جو ممکن نہیں، یہ وجدانی اور مذہبی تجربے سے ہی ممکن ہے۔ ہم کیسے عجیب لوگ ہیں خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے عمر بھر موت کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی عدالت آواز دینا بھول جاتی ہے تو کبھی عدالت گواہوں کی غیر حاضری پر اگلی لمبی تاریخ دے کر سماعت ختم کردیتی ہے اور پھر ایک دن ہماری بے حسی اور عدم دلچسپی پر عدالت موت کا سرٹیفکیٹ دے دیا کرتی ہے اور عدالت اپنے فیصلے میں لکھتی ہے۔

(جاری ہے)

معاشرے کو زندگی بخشنے والے اور ہمیں آئینہ دکھاتے بچے تو وقت کے ہونٹوں کا گلاب ہوتے ہیں، جس معاشرے میں فرشتوں کی مسکراہٹ، ستاروں جیسی آنکھیں اور آئینے جیسے نازک بدن لئے معصوم بچوں کو آگ اُگلتی گولیوں اور بارود کی خوراک بنا دیا جائے، جہاں فاختہ اپنا گھونسلہ نہ بنا سکے اور جہاں سر بُریدہ ہی صاحب دستار ٹھہریں جس طرح سانس لینے والی میتیں زندہ نہیں ہوتیں، بالکل اسی طرح وہ معاشرے اور ان میں بسنے والے انسان زندہ نہیں ہوتے۔
اور پھر عدالت حکم دیتی ہے اس فیصلے کو ”آرمی پبلک سکول“ اور گلشن اقبال پارک“ کے بڑے دروازے پر چسپاں کر دیا جائے۔
میرا باپ زہر پینے والے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، وہ سقراط کی طرح جانتا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سچ بولنے والے کو زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے وگرنہ احساس کے منصور کو سولی پر چڑھانا پڑتا ہے۔
ہم دونوں میں ایک بات مشترک تھی، ہم دونوں کو ٹوٹا ہوا آئینہ مسکراتا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ کہتا تھا یہ دنیا بھی عجیب ہے، یہاں اِذنِ سخن صرف اسی کو ملتی ہے جس کی زبان پتھر کی اور ہونٹ گیلی مٹی سے بنے ہوں۔ میں نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا تھا، سنا ہے جب میں ایک سال کا تھا وہ دنیا چھوڑ گئی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے باپ سے پوچھا: بابا! ماں کیا ہوتی ہے؟ میرے باپ نے میری طرح دیکھا اور وہ رونے لگ گیا، کافی دیر رونے کے بعد وہ بولا: بیٹا! ماں اور دعا ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں، جو اپنے بچے کے ایک آنسو پہ اپنا سارا زیور بیچ دے اس ہستی کو ماں کہتے ہیں۔
میرے باپ کو نہ جانے شہروں سے نفرت کیوں تھی، ہم جب بھی اسے گاﺅں چھوڑ کر شہر میں جا کر آباد ہونے کا کہتے تو وہ کہتا: تم ابھی نادان ہو، شہر رہنے کے لیے نہیں ہوتے صرف خریداری کے لیے ہوتے ہیں۔ کہا: شہروں میں دانہ صرف جال کے ساتھ ملتا ہے، یہاں فضا دھوئیں سے بھری رہتی ہے اور یہاں کی ہوا سوال اوڑھے پھرتی ہے۔ یہاں سب کا شوق سوداگری ہے، شہروں میں زر پرستی کی وبا پھیل چکی ہے، عنقریب ماں اپنے بچے سے دودھ کی قیمت مانگے گی، یہاں کوئی کسی کا محبوب نہیں ہوتا۔
میں نے پوچھا: بابا! محبوب کسے کہتے ہیں؟
بولے: جو جواب نہ دے کر بھی لا جواب کردے اور جس کے لیے آخری گاڑی بھی چھوٹ جائے وہ محبوب ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا: بابا! یہ صوفی، درویش، فقیر کون ہوتے ہیں؟ کہنے لگے:
بیٹا! یہ سب کوزہ گر ہوتے ہیں مگر صرف اُسی کا آبخورہ بناتے ہیں جو اپنی ذات کو مٹی کر چکا ہو۔ یہ لوگ طلب کو بڑھا دیتے ہیں، یہ طبیب بھی ہوتے ہیں اور سب کا علاج ”نظر“ سے کرتے ہیں۔

جب تک بابا حیات رہے ہم نے گاﺅں نہیں چھوڑا، بابا کے سفرِ آخرت پر روانہ ہونے کے بعد ہم نے زمین بیچی اور شہر کے لیے ہجرت کی۔ اصل میں یہ ہجرت ہم بابا کی زندگی ہی میں کر چکے تھے مگر شہر میں جاکر آباد نہیں ہوئے تھے، ہجرت کئی طرح کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم کی ہجرت میں انسان اسی جگہ رہتا ہے، گھر اور مقام تبدیل نہیں کرتا مگر اپنے خیالات پسند و ناپسند، رشتے اور تعلق تبدیل کر لیتا ہے۔
دوسری قسم کی ہجرت میں انسان اسی جگہ رہتا ہے مگر آس پاس اور تعلق والے لوگ وہاں سے چلے جاتے ہیں اور کہیں اور جا کر آباد ہوتے ہیں۔ تیسری قسم کی ہجرت میں اندر کا موسم باہر کے موسم سے یکسر مختلف ہو جاتا ہے۔ چوتھی قسم کی ہجرت میں انسان کہیں دور نہیں جاتا مگر ”چاندی کی دیوار“ کے پیچھے چھپ جاتا ہے اور پانچویں قسم کی ہجرت میں انسان گھر کے در و دیوار، پڑوس اور دوستوں کو دیکھ کر روتے ہوئے ہجرت کرتا ہے۔
ہجرت جسم سے روح کے نکلنے کے انتہائی تکلیف دہ مرحلے کا نام ہے، ہر طرح کی ہجرت میں موت کی کڑواہٹ اور تنہائی کا آسیب پیچھا کرتا رہتا ہے۔ ہر طرح کی ہجرت میں کچھ نہ کچھ کھو جاتا ہے اور پھر حسرت دیدار میں سارا جسم آنکھ بن جاتا ہے۔ اور جس ملک اور جس معاشرے میں لہجے اور رویے کیکٹس بن جائیں وہاں سے محبت اور زندگی ہجرت کر جایا کرتی ہے۔ شاید ہم سب مہاجر ہیں۔
شہر میں آکر ہم نے ترقی تو بہت کی، دولت بھی بہت اکٹھی کی مگر سکون کی دولت گم ہو چکی تھی، کبھی کبھی مجھے لگتا میں وہ یتیم اور غریب بچہ ہوں جو کوڑے کے ڈھیر سے دوسروں کے پھینکے ہوئے پرانے کھلونے تلاش کررہا ہے۔ مال اور دنیا اس کائنات کی سب سے حقیر چیز ہے اور مجھ جیسے نادان نے عمر بھر رب سے صرف یہی دو چیزیں ہی مانگیں۔ بابا صحیح کہتے ہیں، یہ بدن کیچڑ سے بنا ہے لہٰذا اس کی صفائی کے لیے بہت محنت درکار ہے، ہم پانی کے پرندوں کی طرح اندھے دلوں کے مالک ہیں، اسی تالاب کے کھاری پانی سے چمٹے ہوئے ہیں۔

ہم نے گاﺅں کی ساری زرعی اراضی بیچ دی تھی مگر باپ کی خواہش اور وصیت کے مطابق حویلی نہیں بیچی تھی، میں کبھی کبھار گاﺅں آتا، ماں باپ کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا، دوستوں سے ملتا، کچھ دیر حویلی میں ٹھہرتا۔ باپ کے کمرے میں جاتا جہاں ایک بڑا آئینہ لگا ہوا تھا، کافی دیر آئینے کو دیکھتا رہتا مگر کبھی سمجھ نہ آئی کہ بابا نے یہ کیوں کہا تھا آئینہ دیکھتے رہنے پر شناخت دیتا ہے، جس کو شناخت مل جائے اس کو منزل مل جاتی ہے۔

اب کے بار میں ایک لمبے عرصے کے بعد گاﺅں آیا تھا۔ قبرستان سے واپسی کے بعد میں حویلی پہنچ گیا۔ دوست اور عزیز و اقارب سب حویلی پہنچ چکے تھے۔ سب کا یہی مشورہ تھا کہ گاﺅں واپس آ جاﺅ، ویسے بھی تمہارا کاروبار تمہارے بیٹے سنبھال چکے ہیں۔ سب لوگ آہستہ آہستہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے اور میں حویلی میں اکیلا رہ گیا۔
شام کو مجھے شہر کے لیے روانہ ہونا تھا، بعض اوقات وقت کی رکاب سے پاﺅں نکل جایا کرتے ہیں۔
اس شام حویلی کا بوڑھا شجر بہت چپ تھا، چڑیوں کی چہچہاہٹ کے بعد خاموشی چھا گئی تھی اور میں یادوں کے جزیرے میں نکل آیا تھا۔ میری ذات کی قبا بہت بوسیدہ اور چھیدوں والی تھی اس لیے میں نے اس پر جگہ جگہ پر اپنے باپ کی یاد کے پیوند لگائے ہوئے تھے۔ میرا باپ ایک عہد تھا، وہ کہا کرتا تھا: ماﺅں کو عام بچے نہیں عہد کو جنم دینا چاہئے۔ وہ کہتا تھا جہاں دیر سے آنے پر کوئی روٹھنے والا نہ ہو وہ گھر نہیں مکان ہوتا ہے۔
وہ کہتا تھا کامیابی کے زینے کو تکبر کی دیمک چاٹ جاتی ہے۔ میں بہت سوتا تھا مگر میرا کوئی خواب بھی مکمل نہیں ہوا۔ میرے باپ کی نیند بہت کم تھی مگر اس کے سارے خواب مکمل تھے۔ وہ کہتا تھا درختوں اور رشتوں کو کاٹنے سے آپ گھنی چاﺅں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ وہ کہتا تھا اساتذہ بچوں کو Sanities کریں تاکہ بچے سب کچھ سیکھ جائیں اور کسی ملک کی پہچان اور سرمایہ حساس لوگ ہوتے ہیں۔
دانشوروں کو چاہئے وہ لوگوں کو حساس بنانے کے لیے محنت کریں وگرنہ آج کے دور کے انسان کو دیکھ کر تو درندے بھی معصوم نظر آتے ہیں۔ مجھے کہتے تھے رب سے سب سے حقیر چیز مال و دنیا نہ مانگو، یہ رب کے شایانِ شان نہیں ہے۔ رب کو رب ہی سے مانگو، رب سے سینے کی کشادگی، مومن کی سی فراست اس کی رحمت اور قرب الہٰی مانگو۔ بابا کہتے تھے: ہم عجیب معاشرے میں رہتے ہیں جہاں سچ جھوٹی کہانیوں اور افسانوں میں کہنا پڑتا ہے۔

میں نے ایک دن بابا سے پوچھا تھا بابا توبہ کی قبولیت کی کیا نشانی ہے؟ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بولے: یہ حالت جفا سے حالت وفا کے سفر کا نام ہے، میرا تو اپنے رب پر اس قدر یقین ہے کہ ابھی میرا جملہ مکمل ہی نہیں ہوتا وہ مجھے معاف فرما دیتا ہے۔
رات کافی گزر چکی تھی، میری آنکھوں سے برسات جاری تھی، بڑے بیٹے کا فون آیا۔ بابا! ہم سب پریشان ہیں آپ آئے نہیں، آپ نے شام تک آ جانا تھا۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں ستاروں کے آئینے چمک رہے تھے اور کہا بیٹا! میری آخری گاڑی بھی چھوٹ گئی ہے۔ اپنی ماں کو گاﺅں بھجوا دینا، میں نے تمہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دیا ہے، اب میں گاﺅں ہی میں رہوں گا۔ یہاں لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ بیٹا! محبت تو روح کا عرق ہوتا ہے اور عرق ہمیشہ پاک ہوتا ہے۔ اب میں اس حویلی میں تیرے دادا کے کمرے میں رہوں گا جہاں بہت بڑا آئینہ لگا ہوا ہے۔
آئینہ تو شناخت دیتا ہے اور جس کو شناخت مل جائے اس کو منزل مل جاتی ہے۔ بابا! آپ رو رہے ہیں؟ کیا ہوا بابا؟ اس سے پہلے تو آپ کبھی نہیں روئے۔ بیٹے نے تڑپ کر کہا۔
بیٹا تم نہیں جانتے میں اس سے پہلے بھی کئی بار رو چکا ہوں، کبھی خوشی سے، کبھی دُکھ سے اور کبھی رب العزت کی عظمتوں کو دیکھ کر۔
میں پہلی بار اس وقت رویا تھا جب بابا عرفان الحق سے مجھے معلوم ہوا میں رب العزت کا ہم نشین ہوں، کملی والے کے دل میں یا تو رب رہتا تھا یا آپﷺ کی امت۔
دوسری بار میں اس وقت رویا تھا جب مجھے معلوم ہوا میرا رب جو تمام طاقتوں کا مالک ہے اس کے اپنے گھر بیت اللہ میں تین سو سال تک بت پڑے رہے مگر رب کتنا اعلیٰ ظرف ہے کہ اس نے صبر کیا۔ تیسری بار میں اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا جب میں نے پڑھا تھا حضرت آمنہ کے لعل آپﷺ کے طائف میں آپ کا جسم اطہر اور پاﺅں مبارک خون سے تر ہوگئے تھے اور غزوہ احد میں آپ کے دو دندان مبارک بھی شہید ہوگئے تھے اور پھر مسلسل روتا رہا جب بھی میرے دیس میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔
میں ”آرمی پبلک سکول“، ”گلشن اقبال پارک“ اور ”جامعہ حفصہ“ کی دیواروں کے ساتھ لپٹ کر ہفتوں رویا ہوں۔ میں دہشت گردی میں مخلوق خدا کے ہر خون کے قطرے کے ساتھ رویا ہوں۔ آخری بار میں کل سے رو رہا ہوں۔ جب میں کل قبرستان سے فاتحہ کے بعد واپس آ رہا تھا تو میں نے خانہ بدوش کے ایک خیمے میں ایک نابینا کو دیکھا، وہ آئینے کو پیار سے چوم رہا تھا، میں نے جب اس سے حیرانی سے استفسار کیا تم اندھے ہو، آئینہ نہیں دیکھ سکتے تو پھر آئینے سے اتنا پیار کیوں کرتے ہو تو وہ اندھا مسکرایا اور بولا صاحب جی! کیا ہوا جو میں آئینہ نہیں دیکھ سکتا، آئینہ تو مجھے دیکھ سکتا ہے۔
اس کی اس بات سے میں اب تک رو رہا ہوں، کیا ہوا میں ربّ کو نہیں دیکھ سکتا، اگرچہ ذرے ذرے میں اس کا جلال نمایاں ہے مگر میرا رب تو مجھے دیکھتا ہے، وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے، وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے بس وہ بیٹھا مجھے پیار سے دیکھتا رہتا ہے، اس ماں سے بھی زیادہ پیار سے جو اپنے بچے کو دیکھ کر مسکراتی ہے، اس وقت بھی مجھے دیکھ رہا ہوتا ہے جب میں غفلت کی نیند سویا ہوتا ہوں۔

صبح جب میری آنکھ کھلی تو گھر میں بچوں کا شور تھا، میں نے دیکھا میرا بیٹا مجھے پیار سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور پھر سر جھکا لیا اور بولا: ابو! مجھے افسوس ہے بچے کی بال سے دادا کا آئینہ ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے ٹوٹے ہوئے آئینے کی طرف دیکھا اور اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا اور کہا: بیٹا! یہ آئینہ ٹوٹا ہوا نہیں یہ مسکرا رہا ہے، جب آئینے سے کسی کو ”شناخت“ مل جائے تو وہ مسکرانے لگتا ہے اور پھر ہم باپ بیٹا گھنٹوں روتے رہے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles