Ammaa Ameera - Article No. 1490

Ammaa Ameera

اماں امیراں - تحریر نمبر 1490

اماں امیراں نے بیگم صاحبہ کے آگے دوسوروپے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلایا تو بیگم صاحبہ غصے سے پھٹ پڑی

بدھ 13 ستمبر 2017

اماں امیراں:
اماں امیراں نے بیگم صاحبہ کے آگے دوسوروپے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلایا تو بیگم صاحبہ غصے سے پھٹ پڑی۔ اماں تمہیں ہروقت پیسے کی ضرورت رہتی ہے۔ جب دیکھو منہ اٹھائے مانگنے چلی آتی ہو کیا کرتی ہو اتنے پیسوں کا؟بیگم صاحبہ عدیل کا داخلہ بھیجنا ہے اگر فیس جمع نہ کرائی تو وہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکے گا۔
اماں امیراں نے بے بسی سے کہا ایک تو پتہ نہیں تم لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا اوپر سے تعلیم کے خواب دیکھتے ہو بیٹے کو کسی کام میں ڈالو چار پیسے کمالائے گا کیا ملے گا اسے اتنا پڑھا کر؟ تعلیم تم جیسے لوگوں کے بس کاکام نہیں۔ تم تو پیٹ پالنے کی سوچا کرو۔ بیگم صاحبہ کی طنزیہ باتیں سن کر اماں امیراں کا دل غم سے بھرگیا۔

(جاری ہے)

بی بی جی کیا کروں اسے بہت شوق ہے پڑھائی کا ۔

اس کی بمشکل آواز نکلی میں تو جی آپ سے ایڈوانس مانگ رہی تھی آپ میری اگلی تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیجئے گا میں کبھی بھی آپ کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتی میں بہت مجبور ہوگئی تھی۔ اماں امیراں یہ کہتے ہوئے باقاعدہ رونے لگی اچھا یں سوچوں گی اب جا کر کام کر ایک آتی دیر سے ہو اور پھر باتیں بنانے کھڑی ہوجاتی ہو۔ تم لوگوں سے خدا ہی پیچھا چھڑاوائے جونک کی طرح چمٹ جاتی ہو۔
یہ کہہ کہ بیگم صاحبہ اپنے بیڈ روم کی طرف چلی گئی اماں امیراں کے آنسو اب پوری روانی سے جاری ہوگئے وہ غریب ضرور تھی لیکن اس کی اپنی ایک انا تھی اس سے بے عزتی برداشت نہیں ہوتی تھی۔ کام کرنے پر مجبور تھی یوں نوکری چھوڑ کر بھی نہیں جا سکتی تھی۔ اس کے سوا کمانے والا اور کوئی نہیں تھا اس کا خاوند عدیل کی پیدائش کے فوراََ بعد چل بسا تھا۔ بیوگی کی حالت میں اس نے لوگوں کے گھر کے کام کاج کرکے عدیل کو پالا پوسا تھا۔
عدیل کو وہ اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتی تھی۔ اس پہ اس کی آس لگی تھی اسے شروع ہی سے پڑھائی کا بہت شوق تھا۔ بڑی محنت سے اور دل لگا کے پڑھتا تھا۔ اب بی اے کے آخری سال میں تھا اماں امیراں کو امید ہوچکی تھی کہ بی اے کرنے کے بعد عدیل ملازمت کرلے گا تو وہ سکون کا سانس لے گی۔ برسوں سے کام کرکے وہ تھک گئی تھی۔ پڑھائی کے اخراجات اور گھر چلانے کے لیے وہ دن رات کام کرتی تھی۔
باقی زندگی کے دن آرام سے گز ر جائیں گے۔ عدیل کے لئے محنت کرتی تھی عدیل کی فیس وغیرہ کے پیسے وہ پہلے ہی جمع رکھتی تھی لیکن پچھلے دنوں اس سخت بخار ہوگیا تھا جو جمع پونجی تھی اس کی دوا دارو پہ خرچ ہوگئی تھی اب اس کے پاس ایک دھیلہ بھی نہیں بچا تھا۔ اوپر سے یہ افتاد آپڑی تو وہ مانگنے پر مجبو رہو گئی تھی۔ کام ختم کرکے وہ بیگم صاحبہ کے بیڈروم تک گئی تو اندر سے صاحب اور بیگم صاحبہ کے لڑنے کی آواز سن کر اس کمرے میں جانے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ واپس اپنے گھر آگئی عدیل ماں کو آتا دیکھ کر فوراََ بولا ماں لے آئی ہو ہاں بیٹا لے آئی ہوں سینے میں چھپے ہوئے ہیں۔
اماں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ سینے میں چھپے ہوئے ہیں کیا مطلب؟ اماں کھل کے بتاؤ عدیل نے سوالیہ انداز میں پوچھا! رقم ہقگئی تو پلو میں باندھ لاتی لیکن بیگم صاحبہ نے کوسنے دیئے ہیں جومیرے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہوگئے ہیں۔ عدیل یہ سن کر غصے میں آگیا اماں میں کل سے کالج نہیں جاؤں گا محنت مزدوری کروں گا بس اب تم ان بڑی کوٹھیوں میں نہ جانا جہاں ہم غریبوں کو طعنوں کوسوں سے مارا جاتا ہے۔
آخر ہم بھی انسان ہیں غریب ہیں تو کیا ہوا خون تو سب کا ایک جیسے رنگ کا ہے۔ عدیل میں نے پورے چودہ برس تمہیں پڑھایا ہے اب تمہارا آخری امتحان باقی ہے ۔ اس کے بعد ہم دونوں کا خواب پورا ہوجائے گا ۔ اب تم آخر میں ہمت مت ہارو یہ کڑے وقت تو آتے رہتے ہیں۔ اس سے بیٹا ناامید نہیں ہوتے۔ ابھی کل کا دن باقی ہے۔ خدا سے امید رکھو میں کوئی نہ کوئی بندوبست کرلوں گی۔
اماں امیراں نے عدیل کا ماتھا پیار چومتے ہوئے کہا اور ہاں خبردار جو آئندہ تمہارے منہ سے یہ نکلا کہ میں کالج نہیں جاؤں گا۔ تو مجھ سے بُراکوئی نہیں ہوگا۔ اماں امیراں نے دردناک لہجے میں کہا تو عدیل ٹھنڈی سانس بھر کر باہر نکل گیا۔ دوسرے روز اماں امیراں کو ٹھی کام کرنے کے لئے گئی تو کرمو چوکیدار نے بتایا کہ بیگم صاحبہ کسی کام کے سلسلے میں باہر گئی ہیں تاکید کر گئی تھی کہ اماں امیراں کو کہنا کہ آج میرا بیڈ روم اچھی طرح صاف کردے اماں امیراں جھاڑو پونجا لئے بیگم صاحبہ کے بیڈ روم میں گئی بیڈ کی چادر ست کرتے ہوئے اسے تکئے کے نیچے سے سو سو کے دس نوٹ نظر آئے اماں امیراں کا دل اچاہا کہ اس میں سے پانچ نوٹ نکال لے تو اس کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔
بیگم صاحبہ لاکھ مزاج کی تیز سہی لیکن اس پہ اعتماد بہت کرتی تھی۔ وہ کبھی بھی پہ چوری کا الزام نہیں لگائے گی۔ صاف کر موپہ الزام لگے گا تیرا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ امیراں کے دماغ سے آواز آئی۔ لیکن امیراں تمہیں پیسیکی اشد ضرورت ہے تم کہاں سے لاؤ گی رقم تمہارے بیٹے کا اگر آج داخلہ نہ گیا تواس کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ اس لئے تمہیں رقم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے تو فائدہ اٹھا لے ۔
امیراں کے دل نے کہا تو امیراں نے پانچ نوٹ نکال کر مٹھی میں دبالئے اور باقی تکئے کے نیچے رکھے اس چھوٹے سے کام کرنے سے وہ پسینے سے شرابور ہوگئی ساری زندگی تو نے ایمانداری سے گزاری ہے اس چھوٹی سے حرکت سے تو اپنے نظروں میں آپ گرجائے گی تمہارا ضمیر تمہیں بقیہ زندگی ملامت کرتا رہے گا اسکے ذہن نے صدا لگائی لیکن ان پیسوں سے تمہارے بیٹے کا مستقبل سنور جائے گا وہ امتحان پاس کرکے تیری بقیہ زندگی کی خوشیوں کا ضامن بن جائے گااور اب اس رقم کو گھر جا جہاں عدیل تمہارا منتظر ہے۔
اس کی داخلہ فیس جمع کرانے میں صرف دوگھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ اس کے دل نے مشورہ دیا یہ رقم لے جا کے تو اپنے سکون کا سودا کررہی ہے۔ ساری زندگی اپنے آپ کو معاف نہیں کرسکے گی۔ اپنے بیٹے کی قسمت کو خدا پہ چھوڑ وہی مددگار ہے۔ اس کی مددکی طالب بن چوری مت کر اس کے ذہن نے کہا دل دماغ کی لڑائی میں اماں امیراں نڈھال ہوگئی اس نے ایک لمحے کچھ سوچھا اور پھر اس نے مٹھی سے نکال کر تکئے کے نیچے واپس رکھ دی۔
اس کے بعد وہ پرسکون ہوگئی۔ آہٹ ہونے پر اس نے سامنے دیکھا تو کرمو کھڑا تھا میں تمہیں بتانا بھول گیا اماں امیراں یہ پانچ سو روپے بیگم صاحبہ دے گئی تھیں انہوں نے کہا کہ تھا کہ یہ اماں کو دے دینا اس نے اپنے بیٹے کا داخلہ فیس بھیجنی ہے۔ اب تو جلدی جا اپنے بیٹے کو رقم دے کے آ۔ اماں امیراں نے لرزتے ہاتھ سے رقم لے کر دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اسے ایک بہت بڑے امتحان میں ڈالا تھا جس میں وہ سرخرو ہوگئی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles