Aur Ismail Mar Gaya - Article No. 885

Aur Ismail Mar Gaya

اور اسمٰعیل مرگیا۔۔۔ - تحریر نمبر 885

پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا ۔ ۔۔ کیوں میں نے اس کی بددعا دے دی تھی۔ پہلے بھی تو ایسا کرتا تھا۔ جواکھیلتا تھا۔ ۔۔ہاتھ اٹھاتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں۔۔ پتہ نہیں کیوں۔ ارے کوئی اس کو رلاوٴ۔۔ بھری جوانی میں بیوہ ہو گی بے چاری۔

ہفتہ 18 اپریل 2015

پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا ۔ ۔۔ کیوں میں نے اس کی بددعا دے دی تھی۔ پہلے بھی تو ایسا کرتا تھا۔ جواکھیلتا تھا۔ ۔۔ہاتھ اٹھاتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں۔۔ پتہ نہیں کیوں۔ ارے کوئی اس کو رلاوٴ۔۔ بھری جوانی میں بیوہ ہو گی بے چاری۔
بیوگی کی سفید چادر اوڑھے لوگوں سے بے نیاز وہ بس یہی سوچے جا رہی تھی۔پتہ نہیں کیوں۔ پتہ نہیں کیوں ۔۔۔
اماں آج بارش آئے گی۔

اپنے کھلونوں سے کھیلتے کھیلتے اس نے ایک دم صدا لگائی تھی اور پھر سے کھیلنے میں مگن ہو گئی ۔شاکرہ۔۔شاکرہ۔۔ جااُو پر سے گندم سمیٹ لے۔۔! بارش آئے گی آج چل شاباش جلدی کر۔۔۔!
لو باجی۔۔ ! آج کہاں کی بارش۔۔ یہ تودھوپ چڑھی ہے سوا نیزے کی۔۔ ! کوئی نہیں آتی بارش۔ !شاکرہ گیلی قمیض کو نچوڑتے ہوے منہ بنانے لگی۔
جا دفعہ ہو جا۔

(جاری ہے)

۔! گندم سمیٹ لے ابھی۔

اماں نے عالیہ کو گود اٹھاتے ہوئے کہا۔
اچھا جی۔۔۔ شاکرہ پیر پٹخے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
میرے کھلونے اماں جی۔۔ ! عالیہ نے منہ بسورا۔
میں لے آتی ہوں چلو اندر ۔ چاروں قل عالیہ پہ پھونکتے ہوئے اماں نے اسے گود سے اتارا۔
پھر ایسا مینہ برسا ۔ ایسا مینہ برسا کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دباتے رہ گئے اگلی صبح ہر منٹ پر اذان دی جانے لگی تاکہ اس بارش سے جان چھوٹے۔
۔!
ابّا بس میں نہ جانا۔۔ ریل گاڑی سے جانا۔
صحن میں بیٹھی اپنی نئی قمیض کی ترپائی کرتے کرتے اس کے منہ سے نکلاتھا نہ ہی اس نے سر اٹھایا اور نہ ہی کوئی دوسری بات کی تھی۔
ارے۔ ٹرین تو آٹھ بجے جاتی ہے رات کو ،میں تو تب تک شہر پہنچ بھی جاوٴں گا ۔ بے وقوف نہ ہو تو ، اب اس کے مشورے سن لو۔۔!
پاگل ہوئی ہو، اس طرح تو پرسوں ہو جائے گی ، آج رات نکلوں کا تو صبح پہنچوں گا پھر کام دھام میں شام ہو جانی ہے ، جا سامان لا دے اندر سے۔

عالیہ کے ابّا۔ نہ جاوٴ ابھی۔۔! اماں رونے لگی تھی۔ایک توتمہاری منطق بھی عجیب ہے ابا نے غصے سے کندھے پر رکھا صافہ سامنے پڑے تخت پر پھنکا۔
اور دو گھنٹے بعد منیر گھبرایا ہوا گھرمیں داخل ہوا تھا۔ تایا جی گئے تو نہیں تھے گیارہ بجے والی بس پر۔۔؟ کہہ رہے تھے کہ جانا ہے آج ہی فیصل آباد۔۔! کیا ہوا ہے سب خیر تو ہے ؟منیرپُترشام کی ریل سے جائیں گے۔
اماں نے اس کی غیر ہوتی حالت کو دیکھا۔
شکر ہے اللہ کا۔ ! وہ تائی جی بس کا بڑا بُرا یکسیڈینٹ ہوا گیا ہے کوئی نہیں بچا ۔ دو ٹرکوں کے بیچ آگئی بس ۔ بس کا لوہاکاٹ کاٹ کر لوگوں کے حصے ٹکڑے باہر نکالے ہیں لوگوں نے استغفراللہ۔۔!منیر کو وہ منظر یاد کر کے جھُر جھری آگئی۔
دیکھ عالیہ۔۔! میرا پتر تو کبھی کسی کو بد دعا نہ دینا۔! کچھ دن بعداماں نے اس کے گھنے بالوں میں تیل ڈالتے ہوئے اس سے کہا۔

میں کیوں کسی کو بددعا دوں گی اماں جی۔! سیب کھاتے کھاتے عالیہ کا ہاتھ رک گیا۔
بس بیٹا تیری زبان میں بڑا اثر ہے تو کسی کو بددعا نہ دینا، وعدہ کر مجھ سے۔!
ہاں ،ہاں وعدہ اماں جی۔ ! وہ بے فکری سے سیب کھانے لگی۔
پھر عالیہ کچی عمر میں بیاہ کر اسمعٰیل کے گھر آگئی۔ اسمعٰیل بہت وجیہ تھا عالیہ اس پر اور وہ عالیہ پر فدا فدا ہوگئے۔
عالیہ اسمعٰیل کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ کبھی تلخ ہو جاتا تو سہہ لیتی ۔تین سال اسمعٰیل کے دل پر راج کرتے کرتے وہ دنیا کی ہر خوشی پاتی گئی۔ جلال کی پیدائش نے اسے اور ہرا بھرا کر دیا اسمعٰیل کا کاروبار چمک اٹھا۔نت نئے لوگ دوست یار بنتے گئے ۔مذاق مذاق میں لگی ہوئی جوئے کی لت اسمعٰیل کو لے ڈوبی۔ عالیہ پہ ہاتھ اٹھانے لگا۔ کاجل بھری انکھیں رورو کر سوجی ہوئی رہنے لگیں۔
ہر وقت کی چخ چخ عالیہ اور اسمعٰیل کو دور کرنے لگی۔ وہ کئی کئی راتیں گھر نہ آتا۔ آتا تو عالیہ کو خوب پیٹتا۔ ہذیان بکتا۔ پورا پورا دن بدن سمیٹے وہ جلال کے ساتھ اندر پڑی رہتی۔ ایک دن اسمعٰیل سورج ڈھلنے سے پہلے لوٹ آیا تھا مزاج بھی اچھا تھا دل میں سوچ آیا تھا کہ اب نئے سرے سے زندگی شروع کرے گا۔
ادھر آوٴ۔۔۔! اسمعٰیل نے جلال کو پکارا۔

جلال نے سہمی نظروں سے ماں کو دیکھا۔
جاوٴ۔ ۔۔!ابو بلا رہے ہیں پرانے اسمعٰیل کو دیکھ کر عالیہ کا دل ٹھنڈا ہوا تھا۔
اسمعٰیل بہت دیر جلال سے کھیلتا رہا تھا۔ عالیہ اسمعٰیل کے لیے سویاں بنانے باورچی خانے میں چلی گئی۔ دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے اس نے ہر پچھلی بات کو ذہن سے مٹانے کی دعا کی ہی تھی کہ اک دم جلال کے چیخنے کی آواز سن کر ووہ باہر کی جانب دوڑی۔
دیکھا تو اسمعٰیل بے ساختہ اسے پیٹ رہا تھا۔
حرامزادہ۔۔! کہتا ہے کہ میری امی کو مارتے ہو۔ بڑا ہو کر میں تم کو ماروں گا ۔ یہ سکھاتی ہے تو سارا دن اسے ؟
اسمعٰیل ۔! بچہ ہے جانے دو نہ مارو۔
اسمعٰیل کے ہاتھ میں کتنی جان تھی یہ عالیہ اچھی طرح جانتی تھی۔ جلال کو بچاتے بچاتے دو تین تھپڑ خود اس نے بھی کھائے۔
جلال کو زور سے دھکا دیتے ہوئے اسمعٰیل بیٹھ کر ہانپنے لگا۔
جلال کا سر لوہے کی پیٹی کے کونے سے لگا اور خون کا فوارہ اُبل پڑا۔
اس کا خون دیکھ کر عالیہ کے اوسان ہی خطا ہو گئے۔جنگلی، جانور، دیکھ کیا حال کیا اسکا۔نیم بے ہوش ہوتے جلال کا خون دونوں ہاتھوں سے روکنے کی کوشش میں وہ ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔
اللہ کرے مر جاوٴ تم۔! اللہ کرے مر جاوٴ تم۔ کیا حال کر دیا میرے بچے کا ۔مر جاوٴ اللہ کرے تم۔
!ایسے ہی مرجاوٴ تم۔ کبھی دو قطرے اپنا بھی خون ٹپکے تو پتہ چلے ۔!
جلال کو سر میں چار ٹانکے آئے تھے۔ ٹانکے لگنے کے دوران اس کے چیخنے کی آوازیں ڈسپنسری سے باہر آ رہی تھیں۔
ظالم، درندہ، اسمعٰیل کو کوستے کوستے وہ مسلسل روتے گئی۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ گھر واپس لوٹی تو باہر ہجوم جمع تھا۔
سوئے ہوئے نڈھال جلال کو نہ جانے کس کی گود میں ڈال کر وہ اندر بھاگی تھی۔ چلتا ہوا پنکھا اسمعٰیل پر آن گرا تھا۔ سارا فرش اور دیواریں اسمعٰیل کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔
پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا ۔ ۔۔ کیوں میں نے اس کی بددعا دے دی تھی۔ پہلے بھی تو ایسا کرتا تھا۔ جواکھیلتا تھا۔ ۔۔ہاتھ اٹھاتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں۔۔ پتہ نہیں کیوں۔
اتناسب تو سہہ لیا تھا یہ بھی سہہ لیتی۔

Browse More Urdu Literature Articles