Aur Jis Ne Meri Yaad Se Mun Mora - Article No. 904

Aur Jis Ne Meri Yaad Se Mun Mora

اور جس نے میری یاد سے منہ موڑا - تحریر نمبر 904

"اور جس نے میری یاد سے مُنہ پھیرا اُس کے لئے مُعیشت کی تنگی ہے اور آخرت میں ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے"

پیر 8 جون 2015

عدنان جبار: "اور جس نے میری یاد سے مُنہ پھیرا اُس کے لئے مُعیشت کی تنگی ہے اور آخرت میں ہم اُسے اندھا اُٹھائیں گے" قُران پاک کی یہ آیت پڑھی تو تجسس ہوا کہ یاد سے مُنہ پھیرنا کیا ہے بھلا اللہ پاک کو ، اپنے خالق و مالک کی یاد کوئی بھلاتا ہے کسی دم ؟ ایک مولانا اور قریبی دوست نما بزرگ سے پوُچھا تو اُنہوں نے جھٹ سے جھوُم کے کہہ دیا اللہ کی عبادت پنج وقتی اور اُس کی راہ میں نکلے لوگوں کا ہر دم خیال رکھنا چاہئے ۔
تسّلی نہیں ہوئی ایک غیر شرعی روشن خیال دوست سے سوال عرض کیا اور مولانا کی رائے بھی بتائی تو آنکھوں میں معنی خیز چمک لا کے بولے بھئی اپنے آپ کو محدود نہ رکھو مولویوں کے کہنے پر انسانیت کا سوچو یونیورسل سوچ رکھو ہمارے ساتھ آؤ اور "سماجی بہبودُد" کے لئے کام کرو پھر بھی تسلی نہ ہوئی اور یونہی کئی سال گُزرگئے ایسے ہی مگر سوال حل نہ ہوا کہ اگر اللہ پاک نے تنبیہہ کی ہے تو ضرور بچنا چاہئے پر کیسے یہ سمجھ نہ آیا ایسے ہی پچھلے سال ایک عزیز کی وفات پر تعزیت کے واسطے جانا ہوا تو باتوں باتوں میں مرحوم کے آخری لمحات بتانے لگے کہ بس میں پانی لے کے آیا تو ابا جی نے سانس دے دیے سانس : تبھی ایک سوچ اُبھری کہ سانس ۔

(جاری ہے)

۔۔! ہاں سانس زندگی کی علامت جو ہر دم ہر زندہ انسان اندر باہر اندر باہر کر رہا ہے ، سانس ایک پُراسرار مشق جس کو قابو میں کرنے کے لئے یوگا کی جاتی ہے ہم ہر وقت اس مشق کو دہرا رہے ہوتے ہیں پر غور نہیں کرتے ، تبھی احساس ہوا کہ جیسے مواصلاتی رابطے کے لئے "ریسیپشن" سگنل ضروری ہوتے ہیں ورنہ کنکشن مُردہ تصور کیا جاتا ہے ٹھیک ایسے ہی سانس انسانی سگنل ہیں جب تک چل رہے ہیں ٹاور کے ساتھ کنکشن بحال ہے اور ہر آتے جاتے سانس کے ساتھ ڈیٹا بھی ٹرانسفر ہو رہا ہوتا ہے جو ہمارے اندر کی کیفیت ، سوچ ، شعور ، لاشعور سب تک کا ریکارڈ ایسے ہی ٹرانسفر کرتا ہے جیسے موبائل یا کمپیوٹر کا حساس ادارے ریکارڈ کرتے ہیں کہ آپ کیا براؤز کر رہے ہیں اور کن افعال میں مشغول ہیں یکدم جھرجھری آ گئی کہ اگر ایسا ہی ہے تو ہم بہت بڑی آزمائش میں گھِرے ہوئے ہیں ، شکل مومناں کرتوُت کافراں ، اوپر سے دینی خدمت اور اندر سے بیواؤں کے اور مظلوموں کے نام پر ہوس اور گندگی کے شکار ، کونسا شعبہ بچتا ہے اسکول کے اساتذہ سے لے کر قلمی مجاہد صحافی تک ، کون کسی بے بس کو چھوڑتا ہے مُردار کا گوشت ہی نہیں ہڈیاں تک بھنبھوڑ جاتے ہیں ، چاہے ایک ضرورت مند اہل کو نوکری ہی دینی ہو بس جیسے ہی کسی مجبور کا سر جھُکا فوراً دبوچ لیا جاتا ہے ۔
ہر دم اندر بے ایمانی ، ہوس ، لالچ ، بددیانتی ، جھُوٹ فریب ، مکر اور خوشامد کے پلان بن رہے ہوتے ہیں مگر ہم مُنہ پر معصوُمیت سجائے ، انسانوں میں ننگ دھڑنگ خیالات اور سوچیں لئے گھوُم رہے ہوتے ہیں ، یہ جانے سوچے بغیر کہ ہر سانس اللہ کے ڈر سے غافل اور منافقت سے آلوُدہ ہو کے جا رہا ہے اللہ پاک جو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ، دل کی دھڑکن میں بھی شامل ہماری ہر سوچ آمیز سانس کو ریکارڈ میں لگا رہا ہے اور یہی پلندہ روزِ حشر ہمارے مُنہ پر مارا جائے گا نام نہاد شرافتیں ، منطقیں ، ٹخنوں سے اوُپر پائنچے ، شرعی داڑھی ، بیواؤں کی خیرخواہی ، روشن خیالی اور سماجی بہبود یہ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اللہ پاک ہمارے کِسی ، کِسی بھی مکر میں آنے والے نہیں وہاں ہمارے ظاہر کے چیتھڑے اُڑا دئے جائیں گے اور باطن کو ننگا کر کے رکھ دیا جائے گا پھر کِدھر مُنہ چھُپائیں گے سرکار ؟

Browse More Urdu Literature Articles