احد اور سحر کی شادی کو سات سال ہوچکے تھے۔ دونوں کے والدین ان کے بچوں کو دیکھنے کی خواہش اور بچوں کو کھیلانے کی آس لیے اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے
یہ اس کی زندگی کا سب سے کٹھن اور دشوار گزار مرحلہ تھا۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے اندر مچی ہلچل کی غمازی کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسی کشمکش میں تھا جہاں آگے کنواں پیچھے کھائی تھی۔ سوچ کے پنچھی نے پرواز سے انکار کردیا تھا، کوئی دوسرا راستہ بھی سجھائی نہ دے رہا تھا۔ وہ تذبذب کی کیفیت میں اسپتال کے کوریڈور میں یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔
آج اسے اپنے مرد ذات ہونے پر پچھتاوا ہورہا تھا۔ وہ کیسے کرسکتا اس قدر کٹھن فیصلہ۔ وہ قریب مرگ جاں تھا جب ڈاکٹر نے اس کے آگے چند کاغذ رکھے اور اسے آمادگی لیتے ہوئے دستخط کرنے کو کہا۔ آج شدت سے اس کے دل نے تمنا کی تھی کہ کاش وہ اپنی جان دے کر اپنی جان سے عزیز بیوی اور اس بچے کو بچالے جس کی نوید اس کے کانوں نے اپنی شادی کے آٹھ سال بعد سنی تھی لیکن وہ بے بس تھا شدید بے بس۔
(جاری ہے)
وہ کیسے کسی ایک کو بچانے کا عندیہ دے دیتا۔ ایک دل تھی تو دوسرا دھڑکن۔ اس دن اس نے اپنے اندر جمع گزشتہ آٹھ سالوں کے آنسو بہادیے۔ آپریشن شروع کیا جا چکا تھا۔ وہ دوڑ کر پرئیر ہال میں پہنچا اور سجدہ ریز ہوگیا اس معبودِ حقیقی کے سامنے جو کارساز ہے۔ جو مشکلوں سے نکالنے اور گرتوں کو سنبھالنے والا ہے۔ # # # # # ”احد آج ہم پہاڑی والے دربار پر چلیں گے میں وہاں جاکر منت مانوں گی کہ اللہ ہماری سونی گود بھر دے، سنا ہے اس دربار پر جاکر جو بھی منت مانگی جائے وہ مراد بر آتی ہے“۔
اس نے چائے کا کپ احد کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔”نہ جانے ایسے کتنے درباروں پر تم ان گزشتہ سات سالوں میں جاچکی ہو۔ کوئی دربار، کوئی مزار، کوئی خانقاہ نہیں چھوڑی ہم نے۔ نہ اس کی عبادت سے غافل ہوئے، نہ اس کی مخلوق کی خدمت سے۔ ڈاکٹرز بھی سب نارمل بتاتے ہیں۔ تم کیوں اس کی مصلحت جان کر صبر نہیں کرلیتیں“، احد نے سحر کے ہاتھ تھام کر کہا۔ اس کی بات پر سحر اپنا ضبط کھو بیٹھی اور رونے لگی۔
اس کے آنسو گویا احد کے دل پر گر رہے تھے۔ ”اچھا، چلو اب بس کرو رونا۔ تیاری کرو ظہر پڑھ کر نکلیں گے“۔ اس نے سحر کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ چائے ختم کرکے کپ وہیں رکھ کر وہ اٹھا تو سحر نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔”آپ کو کیا لگتا ہے میں صبر نہیں کرتی؟ میں اس کی مصلحت کو پس پشت ڈال کر اس سے شکوہ کناں رہتی ہوں؟“ اس نے شکوہ بھری نظروں سے احد کو دیکھا۔
”نہیں سحر، مجھے علم ہے کہ تم اس آزمائش میں ثابت قدم رہنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہولیکن یہ آزمائش کٹھن ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہم اس کے ناشکرے بندوں میں نہ شمار ہونے لگیں۔ مجھے ڈر ہے۔ دیکھونا، اب اولاد کے سوا ایسا کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے کہ کہیں یہ آزمائش ہمارے یقین، ہمارے ایمان کو متزلزل نہ کردے۔ زندگی کی ہر آسائش ہے ہمارے پاس۔
میری خواہش بس اتنی سی ہے کہ ہمارا شمار ہر حال میں اس کے شکر گزار بندوں میں ہو“۔ احد اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا تو سحر نے اپنے آنسو صاف کیے۔ ”آپ آفس چلے جائیے۔ میں اس کی رضا میں راضی ہوں، میں اب کوئی شکوہ نہیں کروں گی بس اس سے دعا کروں گی۔ آپ بھی دعا کیجیے گا کہ وہ بھی ہم سے راضی ہوجائے“، سحر نے محبت سے اپنے شریک حیات کو دیکھا۔”یعنی بیگم صاحبہ چاہتی ہیں کہ ہم چھٹی والے دن بھی آفس جاکر فائلوں میں سر کھپائیں“۔
احد کی بات پر سحر جھینپ کر مسکرادی۔ ”میرے ذہن میں ہی نہیں رہا کہ آج اتوار ہے“۔ ”چلیں آپ تیار ہوجائیں ہم باہر جا رہے ہیں“، احد اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ وہ واقعی خوش قسمت تھی جسے احد کی صورت میں بہترین، محبت کرنے والا ہمسفر ملا تھا۔ جو اس کی ہر خواہش نوک زباں پر آنے سے قبل ہی پوری کردیا کرتا تھا۔ # # # # # احد اور سحر کی شادی کو سات سال ہوچکے تھے۔
دونوں کے والدین ان کے بچوں کو دیکھنے کی خواہش اور بچوں کو کھیلانے کی آس لیے اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ ایسا کوئی علاج نہ تھا جو ان دونوں نے نہ کروایا ہو۔ غرضکہ اپنی جانب سے ہر ممکنہ کوشش وہ کر چکے تھے جانے خدا کی کیا مرضی تھی۔ اب تو دونوں ہی اس کے کن کے منتظر تھے۔ سحر کی ایک بڑی بہن تھیں جو بیاہ کر کینیڈا چلی گئیں تھیں۔ دور کے چند ایک رشتے دار تھے جن کی معنی خیز اور طنز سے بھر پور گفتگو کے سبب احد ان سے کنارہ کشی اختیار کر چکا تھا۔
اب وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی دنیا تھے اور اپنی زندگی میں مگن تھے۔ # # # # # احد آفس میں تھا جب اس کی پڑوسن رخسانہ کا فون آیا اور اسے قریبی کلینک پہنچنے کو کہا۔ وہ سارے کام چھوڑ کر فورا کلینک پہنچا وہاں وہ خوشخبری اس کی منتظر تھی جسے سننے کے لیے اس نے سات سال بے چینی سے انتظار کیا تھا۔ ان سات سالوں میں نہ جانے کتنی ہی دعائیں اس نے اپنے رب سے مانگی تھیں۔
اپنا ہر آنسو وہ پی لیتا فقط سحر کا سوچ کر کہ وہ اگر کمزور پڑگیا تو سحر کا سہارا کون بنے گا لیکن آج اس کی آزمائش ختم ہوچکی تھی۔ اس کی ہر دعا کے جواب میں ”کن“ کہہ دیا گیا تھا۔ وہ سحر کو لے کو خوشی خوشی گھر پہنچا۔ وہ اب پہلے سے بھی بڑھ کر اس کا خیال رکھنے لگا تھا۔ آفس کے بعد کا سارا وقت اس کے ساتھ گزارتا۔ اس کے ساتھ گھر کے کام کرواتا، اسے چہل قدمی کے لیے لے جاتا۔
سحر کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ احد کی اس قدر محبت دیکھ کروہ اپنے رب کا ہر آن شکر ادا کرتی۔ ان کی من کی مراد پوری ہونے کا وقت قریب آرہا تھا۔ دونوں ڈھیر ساری شاپنگ کر چکے تھے۔ احد کو اس دن آفس میں کچھ دیر ہوگئی جب وہ گھر پہنچا اور بیل بجانے پر بھی دروازہ نہیں کھلا تو اس نے جیب سے گھر کی چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ اس نے سوچا سحر سوگئی ہوگی۔
وہ گھر میں آیا تو ہر طرف سناٹا تھا۔ کچن میں آیا تو سحر کچن کے فرش پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔ نہ جانے وہ کب سے اس حال میں یہاں پڑی تھی۔ وہ اسے گاڑی میں ڈال کر اسپتال پہنچا۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ سحر کی حالت بہت نازک ہے اور بچے کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ وہ دونوں میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکیں گے۔ احد کی آنکھوں سے سیل رواں تھا۔ اس کا خواب آج پھر ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوچکا تھا۔
اس نے ڈاکٹر سے سحر کو بچانے کو کہا۔ نہ جانے کس کیفیت میں اس نے یہ فیصلہ کیا اور وہاں سے نکل کر پرئیر ہال میں آگیا اور سجدہ ریز ہوکر گڑگڑا کر دعا کی۔ وہ کسی بچے کی طرح رورہا تھا۔ یہ کیا کر آیا تھا وہ، وہ اپنی سحر کو کیا جواب دے گا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے پل گھوم گئے جب سحر اور اس نے مل کر اپنے بچے کے لیے شاپنگ کی تھی، پہروں بیٹھ کر اس کے نام پر بحث کی تھی۔
ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چہل قدمی کی تھی اور اس خوشی کو محسوس کیا تھا۔ وہ رو رو کر بارگاہ الہی میں دعا گو تھا جب نرس اسے ڈھونڈتی ہوئی آئی اور اسے مزید بلڈ کا انتظام کرنے کو کہا۔ اس کی حالت دیکھ کر اسے دلاسا دیا اور آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھ گئی۔ اسے بلڈ کا انتظام کرتے کرتے آدھی رات ہوگئی تھی، وہ ایک بار پھر وضو کرکے نفل پڑھنے کھڑا ہوگیا۔
تھوڑی دیر بعد نرس نے اسے ایک بے حد خوب صورت، تندرست، صحت مند بچہ لاکر دیا۔ وہ بچے کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا اور اگلی خبر سننے کے لیے وہ کسی طور تیار نہ تھا۔ اس نے نرس کی جانب سے منہ پھیر لیا۔ وہ کسی بھی قیمت پر سحر کی جدائی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ”گھبرانے کی کوئی بات نہیں، آپ کی وائف خیریت سے ہیں۔ تھوڑی دیر میں آپ ان سے مل سکیں گے“۔
اس نے بے یقینی کی سی کیفیت میں مڑ کر نرس کو دیکھا جو اسی کی جانب دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس کے گال پر ابھی ابھی آنسووں کے نشان واضح تھے۔ ”لیکن ڈاکٹر نے تو کہا تھا کہ وہ کسی ایک کو“ ”وہ حفاظتی اقدامات کے طور پر دستخط کروائے جاتے ہیں تاکہ کسی حادثاتی صورت میں لوگ ڈاکٹر اور اسپتال کی انتظامیہ کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں“، اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے نرس نے وضاحت کی۔ وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔ وہ دونوں اپنی آزمائش میں سرخرو ہوچکے تھے۔ اس نے محبت سے اپنے بیٹے کے ماتھے کو چوم لیا۔ ایک نئی خوشیوں بھری زندگی ان کی منتظر تھی۔