Bao G - Article No. 2369

بائو جی - تحریر نمبر 2369

Arif Chishti عارف چشتی اتوار 14 جون 2020

گول باغ کے دو چکر لگانے کے بعد تھک کر موزیک کے بنے چھوٹے سے ٹیبل پر بیٹھ گیا. مبارک صاحب لنگوٹیا دوست ھیں وہ بھی آگیے اور فرمائش کی کہ بچپن کے کسی کردار پر بات کرو جو اب ناپید ھو چکا ھو. جب پاکستان آزاد ھوا تو اکثریت گورداسپور، امرتسر، بٹالہ، مکیریاں، پٹھان کوٹ و دیگر علاقوں انبالہ، میرٹھ، دھلی سے ھجرت کرکے لاھور آءی پھر جہاں جہاں روزی روزگار کا سلسلہ بنتا رھا مہاجرین منتقل ھوتے رھے.
اول تو اکثریت ان پڑھ تھی صرف گھریلو ھنر کاری سے روزی کما کر گزارہ کرتے تھے. بعض نے کھانے ڈھونڈے سے میٹرک پاس نہ ملتے تھے. اگر کوءی ملتا تو کسی سرکاری دفتر میں جونیئر یا سینئر کلرک ھوتا تھا.

(جاری ہے)

اس کو تمام علاقے کے لوگ باءوجی کہا کرتے تھے اور اسکو وی آءی پی کا درجہ دیا جاتا تھا. سارے محلہ اور علاقے کے لوگوں کی خواھش ھوتی تھی کہ انکے بیٹے کم از کم میٹرک کرکے کسی بھی وفتر میں باءو لگ جاءیں تاکہ معاشرے میں انکی بھی عزت ھو.

یہ ایک عام ساءیکی تھی. علاقے کے لوگ ھر کام میں باءوجی سے مشاورت کرتے تھے. مجھے 1953 میں اس بات کا شعور ھوا تھا. لازماً میرے والدین کو بھی مجھے باءو بنانے کا ارادہ تھا. بچوں کے والدین ڈرانے کے لءے باءوجی کا نام لیتے تو بچوں کی سٹی گم ھو جاتی. باءوجی صبح 7 بجے اپنے سرکاری دفتر جاتے تھے اور دوپہر ڈیڑھ بجے دو بجے گھر پہنچ جاتے تھے. راستے جو بھی ملتا باءو جی سے سلام کرنا ایک سعادت سمجھتا تھا.
اگر دفتر میں خوشگوار دن گزرتا اور موڈ اچھا ھوتا تو پر تپاک طریقے سے جواب دیتے اور علاقے کی مکمل رپورٹ لیتے ورنہ خاموشی اختیار کرتے. بچے تو ایسے بھاگتے تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ. باءوجی کی سب بڑی جدوجہد علاقے کے بچے بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا اور ساری عمر ھر کلاس کے بچے بچیوں کو مفت ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے. شام چار بجے بچے انکے دس مرلے کے مکان کی چھت پر اپنے اپنے گھروں سے لاءی ھوءی چادروں یا ٹاٹ کی بوریوں پر بیٹھ جاتے.
باءوجی کے چھینٹے (گھوڑے کو مارنے والی چھڑی) ان کے ھاتھ میں ھوتی تھی جب وہ اپنے کمرے سے برآمد ھوتے. ھر بچہ سہما سہما رھتا تھا خواہ سبق یاد ھو یا نہ ھو. جسکو سبق یاد نہ ھوتا اسکی خوب پٹائی کرتے. علاقے کے کسی بھی والدین نے کبھی بھی کوءی گلہ یا ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ یہ کہتے اسکو دو اور لگاءو یہ ھمارا کہنا نہیں مانتے. انکے ذھن میں لفظ پاس ھونا کوءی معنی نہیں رکھتا تھا وہ یہ جدوجہد کرتے تھے کہ سکول میں پوزیشن کیا آءی ھے اور بزرگوں سے جب بھی ملنا ھے سلام کرنا ھے.
انکے اپنے بچے، بہنیں ھمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتے تھے. سبق یاد نہ ھوتا تو ایک گھنٹہ کھڑا رکھتے ورنہ بقول شخصے مرغا بنا دیتے. جب سبق یاد ھو جاتا تو نمک پارے یا بوندی دیکر انکو پیار سے دیتے تاکہ کل وہ زیادہ محنت کرکے سبق یاد کرے اور مار سے بچ جاءے. آپ کو حیرت ھوگی کہ وہ دفتر سے کبھی کبھی وفقہ کے دوران سب بچوں کے سکولوں کا چکر لگاتے اور انکی پروگریس معلوم کرتے.
غلط بیانی پر وہ دھناءی کرواتے کہ بچہ یا بچی تکلے کی طرح سیدھے ھو جاتے. انکی بیگم صاحبہ علاقے کی جگت آپا تھیں ان کے اپنے بچے بھی انھیں آپا ھی کہتے تھے. وہ بچیوں کو یسرالقران اور بعد میں تیسویں پارے کی تعلیم دیا کرتی تھیں. بچے مسجدوں میں مولوی صاحب سے قرآنی تعلیم کے لئے جایا کرتے تھے. مجھے 1954 میں والد صاحب نے ایک اس وقت کے سب سے معتبر مدرسے میں نو ماہ میں قرآن مجید کی مکمل تعلیم دلواءی.
مسلم مسجد لوھاری کے امام مسلم بی اے نے میرا تلاوت اور قرات میں امتحان لیکر مجھے اول پوزیشن کا درجہ دیا تھا. باءوجی محلے کی مسجد کے بھی اھم عہدیدار تھے. اسکی دیکھ بھال امام صاحب کا ماھانہ ھدءیہ، تراویح اور دیگر مذھبی تقریبات کا اھتمام و دیگر لوازمات انکی زمہ داری تھی. وہ ایک زبردست ایڈمنسٹریٹر تھے. جب بھی مسجد جاتے جو بچہ بھی نظر آتا اسے ساتھ لیکر نماز ادا کرواتے تھے.
علاقے کی پانچ گلیاں تھیں وہ کسی بھی گلی سے ھو کر مسجد باقاعدہ جاتے تھے. جو بچہ اخروٹ کھیلتا، کانچ کی گولیاں سے کھیلتا، سگریٹ کی ڈبیوں سے تاش کے پتے بنا کر کھیلتا وہ اسکے جانی دشمن تھے. ھم بچہ پارٹی نماز کے وقت ایک بچے کی ڈیوٹی لگا دیتے تاکہ باءوجی کی آمد کا سگنل سیٹی بجا کر دے دے اور سب وقتی طور پر بھاگ کر چھپ جاءیں. میں نے بھی کءی دفعہ باءوجی سے ان کھیلوں میں رنگے ھاتھوں پکڑے جانے سے کافی مار کھاءی تھی کھاءی تھی.
باندر کلہ، سٹاپو، کرکٹ، فٹبال، چھپن چھپائی پر کبھی نہیں مارتے تھے لیکن مغرب کی اذان کے بعد باھر نظر آنے والے کی کم بختی آ جاتی تھی. بسنت کے دنوں میں دو دنوں یعنی 10 اور 11 فروری کو پتنگیں اڑانے کی اجازت تھی. کیونکہ گھروں کی ساءیڈ کی دیواریں چھ چھ فٹ بلند ھوتی تھی گرنا کا خطرہ کم ھوتا تھا اور ڈور بھی عام سی ھوتی تھی جس سے کسی کی گردن تو نہ کٹتی تھی لیکن انگلیوں میں چیر پڑ جاتے تھے.
جس گھر میں قرآن خوانی کروانی ھوتی تھی باءوجی دعاءے ختم شریف از خود کرتے تھے. عیدالفطر پر سیویوں پردعاءے ختم شریف اور عیدالاضحٰی پر قربانی کے جانور پر ان سے دعا پڑھنے کے بعد چھری پھرواءی جاتی تھی. باءوجی جی علم کا سمندر تھے. کوءی مسئلہ ھوتا ان سے مشاورت ضروری ھوتی تھی. علاقے میں ایک بلڈنگ تھی جو ھندووں کے زمانے کی تھی اس میں ایک درجن کے قریب خاندان رھتے تھے.
کوءی دن ایسا نہ تھا کہ کسی قسم کا پھڈا نہ ھو. شام کو مغرب کے بعد باءوجی بلڈنگ کے چار سمجھ دار مردوں کو بلا کر پنچایت لگاتے تھے. حقائق کی بنا پر فیصلہ ھو جاتا تھا. جس کو سب مانتے تھے. کسی کی کیا مجال باءوجی کے فیصلے کو چیلنج کرے. بعض اوقات ایسا بھی ھوا کہ جھگڑے بڑھ کر ڈانٹ سوٹوں اور اینٹوں کے تبادلے کی نوبت اختیار کر لیتے. سر بھی پھٹ جاتے اور معاملہ تھانے تک پہنچ پاتا.
تھانے دار کی دھونس کی وجہ علاقے کے لوگ گھروں سے غاءیب ھو جاتے تاکہ گواھی نہ دینی پڑ جاءے اس وقت صرف باءوجی کی گارنٹی پر تھانیدار صلح صفائی کروا کے چلا جاتا. علاقے لوگ خطوط پڑھوانے یا لکھوانے کےلیے باءوجی کے پاس آتے تھے. اگر وہ مصروف ھوتے تو انکی بہنیں یا بچے یہ کام سر انجام دیتے تھے. پورے علاقے میں باءوجی کے خاندان کی دھوم مچی ھوءی تھی کہ اس خاندان میں فیل ھونے کا تصور نہیں اور واقعی یہ سو فیصد حقیقت تھی.
مبارک صاحب میری باتیں غور سے سن رھے تھے. میں نے پوچھ ھی لیا کہ اگر بور ھو رھے ھیں تو بقیہ سلسلہ بعد میں گوش گوار کروں گا. انکا کہنا تھا بھاءی اتنے عرصہ کے بعد ملے ھو اپنا سلسلہ کلام جاری رکھیں اور منرل واٹر کی بوتل سے پانی کا گلاس بھر کر میرے ھاتھ میں تھما دیا. جن دنوں بچوں کے نتائج کے دن ھوتے باءوجی چھٹی لیکر انکے سکولوں میں پہنچ جاتے گیندے کے پھولوں کے ہار لیکر.
بچے اور بچیوں کے نتیجوں کے دن مختلف ھوتے تھے. جیسے ھی نتیجہ پڑھ کر سنایا جاتا ھر بچے کےھاتھ سے استادوں کے گلے میں ھار پہنایا کرتے تھے جس سے بچوں اور استادوں کی حوصلہ افزائی ھوتی تھی اور استاد بچوں کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور خآص خیال رکھتے تھے. بچوں کے والدین باءوجی کی کاوشوں کا نعم البدل تو نہ دے سکتے تھے کیونکہ وہ کسی سے کسی قسم کی فیس نہیں لیتے تھے.
لیکن گھر میں مٹھائی کے ڈبوں کی بھر مار ھو جاتی تھی. باءو جی کے سینکڑوں شاگرد تھے ان میں کءی ڈاکٹر، کءی وکیل، کءی انجنئیر اور کءی بیرون ملک چلے گئے. باءوجی ھر چھ ماہ علاقے کے تمام بچوں کو صبح آٹھ بجے اکٹھا کرتے اور عمروں کے حساب سے انکی درجہ بندی کرتے اور پھر دوڑ کے مقابلے شروع کروا دیتے. دوڑ کی لمباءی گلیوں کے حساب سے کرتے اور درجہ بندی کے حساب سے مقابلہ کرنے والوں کی سلیکشن کرتے.
مقابلوں کے بعد جیتنے والوں کو برفی، جلیبیاں اور نمک پارے تقسیم کرتے. اگر کوءی پھڈا کرتا یا دوبارہ دوڑ لگواتے یا پھڈا ڈالنے والے کو دوڑ سے خارج کر دیتے. آج باءوجی کے لگاءے پودے بھی بوڑھے ھو چکے لیکن کوءی بھی باءوجی جیسا ثانی پیدا نہ کر سکا. کیونکہ آج آپ کسی کے بچے سے اونچی آواز میں بات تو کرکے دیکھ لیں وہ ماں بہن ایک کردے گا کہ اللہ کی پناہ.
اگر باءوجی جیسے کردار آج تک پھلتے پھولتے رھتے تو یہ ملک تعلیم اور تربیت اور اخلاقی اقدار میں دنیا کا یکتا ملک ھوتا. اور پھر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ھوتا. باءوجی کے اپنے خاندان کے کءی افراد (مرد و خواتین) ماسٹرز ھیں پی ایچ ڈی ھیں، ڈاکٹر ھیں. اپنی زندگی میں بچوں کی شادیوں سے بھی فارغ ھوگیے اور پھر 2005 کو خالق حقیقی سے جا ملے. مبارک صاحب نے روھانسی انداز میں انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور کہا بس آج اتنا ھی کافی ھے.زندگی رھی تو پھر بات ھوگی

Browse More Urdu Literature Articles