Be Misaal - Article No. 1614

Be Misaal

بے مثال - تحریر نمبر 1614

بابا جب آپ بیمار تھے آپ کو پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو اس وقت ہم نے ایک ایک سے جاکر مطالبہ کیا تھا۔اس وقت بھی یہی لوگ تھے جنہوں نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں تھی بابا یہ معذور انسان ہمارے کام آیا تھا۔

منگل 5 دسمبر 2017

مسرت واحد خان:
اوئے گونگے یہاں تو ایسے بے کار کیوں بیٹھا ہے؟اٹھ دکان کھول رشید چاچا نے کہا،تو گونگا اپنے خیالوں سے نکل آیا اور افسردہ ہوکر دکان کھولنے لگا،اوئے آیا تو صبح سے تھا لیکن ابھی تک تو نے دکان نہیں کھولی ۔کیا بات ہے۔تیری طبیعت تو خراب نہیں چاچا نے اس سے پوچھا تو وہ خاموشی سے اٹھ کر گیا دکان کھولی اور صفائی کرنے لگا،اس کی نظریں رہ رہ کر گلی کی طرف جارہی تھیں اور بے چینی سے کسی کو تلاش کررہی تھیں اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی،آج دوسرا دن تھا وہ نہیں گرزرہی تھی کہیں اس کی طبیعت تو خراب نہیں وہ اسی سوچ میں مگن تھا گلی میں سکول کے بچوں کے شور کی آواز سن کر وہ باہر کی طرف دوڑا وہ بہت سے سارے بچوں میں گھری تیزی سے گزری اس کا چہرہ کافی اترا ہو اتھا،آنکھیں سوجی ہوئی تھیں،وہ پریشان نظر آرہی تھی ۔

(جاری ہے)

گونگا اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور پھر ٹھنڈا سانس بھر کر واپس دکان میں آگیا۔مشین پر کپڑے سینے لگا کپڑے سیتے وقت اس کا خیال پروین کی طرف تھا اس نے پروین کا چہرہ دیکھ کر بھانپ لیا تھا لپ ضرور کوئی نہ کوئی پریشانی بات ہے جو پروین اتنی پریشان ہے سارا دن پریشانی کے عالم میں گزرا شام کو وہ دکان بند کرکے گھر آیا تو چاچی نے اس کے آگے کھانا رکھ دیا،اسے بھوک بالکل نہیں تھی اس نے چاچی کو کھانا واپس کردیا،گونگے کیا بات ہے؟تو پریشان دکھائی دیتا ہے ۔
چاچی نے پوچھا تو چاچا بھی بھول اٹھا صبح سے ایسے ہی اس کی حالت ہے،پتہ نہیں کیا پریشانی ہے؟بتاتا بھی کچھ نہیں لیکن گونگے نے اشاروں سے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے اسے بھوک نہیں جب بھوک لگے گی تو وہ خود کھانا کھالے گا۔چاچی کی تشویش کم نہ ہوئی،چاچی نے اسے بیٹوں کی طرح پالا پوسا تھا وپ چھوٹا سا تھا کہ اس کے والدین کا انتقال ہوگیا تو چچی اس کا اپنے گھر میں لے آئی اسے پال پوس کر جوان کیا اورچچا نے اسے درزی کا ہنر سکھایا وہ چچا چچی دونوں کا احسان مند تھا۔
وہ پریشانی کے عالم میں اپنے کمرے میں چلا آیا باہر سے چچا اور چچی کے باتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی باتوں میں پروین کا تذکرہ سن کروہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور باتیں سننے لگا،چچی چچا کو بتارہی تھیں کہ آج پروین کی اماں آئی تھیں بے چاری پریشان تھی کہہ رہی تھی کہ ڈاکٹر نے پروین کے اباکو آپریشن کا مشورہ دیا ہے،اب تو اس کا دوسرا گردہ بھی خراب ہوچکا ہے اگر اپریشن نہ کروایا تو خدا نہ کرے ،،،،،،تو آپریشن کروالے چچا نے کہا کیسے آپریشن کروائے؟اتنا زیادہ خرچ زیادہ خرچ آتا ہے،پورے دس ہزار چاہیے آپریشن کے لئے کہاں سے لائیں اتنے پیسے،وہ بھلے وقتوں میں بے چاروں نے بیٹی کو میٹرک کروایا تھا جوکہ آج کام آیا ہے،وہ سکول کی استانی بن کر اس گھر کی گاڑی دھکیل رہی ہیں چچی نے کہا،اچھا مجھے جلدی سے کھانا دو میں نے کسی کام سے جانا ہے۔
چچی خاموش ہوکر کھانا دینے لگی۔گونگے کے دماغ میں آپریشن سن کر ہلچل مچ گئی اور پروین کا اترا ہوا چہرہ اور پریشان حالت والا معمہ حل ہوگیا تھا وہ فوراً چارپائی سے اترا اور بھاگ کر دروازہ بند کردیا اور پھر اپنے ٹوٹے پھوٹے سوٹ کیس کو کھول کر اس نے کپڑوں کی تہہ کے نیچے سے ایک میلی پوٹلی نکالی ۔اسے کھول کر اس نے اس میں سے ایک ڈھیر ساری رقم نکالی اور اسے گننے لگا،چچا جو جیب خرچ کے لئے پیسے دیتا تھا وہ خرچ نہیں کرتا تھا وہ پوری رقم اس پوٹلی میں ڈال دیتا تھا یہ وہ رقم کافی عرصے سے جمع کررہا تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں رقم کم نہ پڑجائے۔
وہ رقم گننے لگا جو ں جوں وہ رقم گنتا اس کاچہرہ خوشی سے دمکنے لگا جب وہ پوری رقم گن چکا تو خوشی سے اس کے منہ سے مختلف آوازیں نکلنے لگی ۔اس کے پاس پورے گیارہ ہزار روپے تھے پروین کے ابا کی ضرورت سے ایک ہزار روپے زیادہ اس نے وہ رقم واپس پوٹلی میں رکھ دیں پوٹلی کو اچھی طرح باندھ کر اپنی بغل میں دبایا اور چادر اوڑھ کر وہ کمرے سے باہر نکل آیا ۔
گھر سے باہر جانے لگا تو چچی نے پوچھا کہ وہ کہاں جارہا ہے چچا بول پڑا کے جانے دو ،ذرا باہر نکلے گا تودل بہلے گا چچی خاموش ہوگئی اور وہ سیدھا پروین کے گھر کی طرف گیا دستک دینے پر چچی رشیدہ نے دروازہ کھولا تو گونگے کو کھڑا دیکھ کر حیران ہوئی کیا بات ہے گونگے کوئی کام ہے کیا؟چاچی نے پوچھا۔گونگے نے اثبات سے سر ہلایا چاچی اس کو لے کر کمرے میں چلی آئی جہاں چاچا بستر پر لیٹا ہوا تھا پروین اس کا سر دبا رہی تھی کیسے آنا ہوا گونگے؟چاچے نے پوچھا!گونگے نے اشارے سے پوچھا آپ کی طبیعت کا پوچھنے آیا ہوں چچا نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا لگتا ہے اپنے دن پورے ہوگئے ہیں۔
گونگے نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ،تب گونگے نے بغل میں دبائی ہوئی پیسوں کی پوٹلی نکال کر چاچی کے ہاتھ میں رکھ دیں اس نے پوٹلی کھولی اور اتنے سارے پیسے دیکھ کر حیران ہوگئی یہ دیکھ کر چاچی نے گونگے سے پوچھا اتنے سارے پیسے کہاں سے آئے ؟گونگے نے اشارے سے کہا یہ اس کے اپنے پیسے ہیں،لیکن ہمارے پاس کیوں لائے ہوں بیٹا؟چاچا نے کہا،گونگے نے مختلف آوازیں منہ سے نکال کر انہیں سمجھایاکہ میں آپ کے آپریشن کے لئے یہ رقم لایا ہوں لیکن چاچا روپے لینے پر رضامند نہ تھا۔
آخر بڑی مشکل سے چاچا اس صورت میں لینے پر رضامند ہوا کہ آپریشن کامیاب ہونے کے بعدوہ یہ قرض اتار دے گا تو گونگے نے سر ہلادیا ۔دوسرے روز چچا ہسپتال میں داخل ہوگیا،گونگا ہر وقت چچا کے لئے دعائیں مانگتا رہتا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ چاچا ٹھیک ہوگیا تو پروین کے چہرے پر دوبارہ خوشی لوٹ آئے گی وہ پریشانی کی حالت میں پروین کو نہیں دیکھ سکتا تھااس کی دلی خواہش تھی کہ پروین ہمیشہ ہنستی مسکراتی ہوئی بچوں کو پڑھانے کے لیے اس کی دکان کے آگے سے گزرتی رہے اور وہ اسے یوں ہی مطمن دیکھتا رہے آخر اس کی دعا کام لائیں اور چچا تندرست ہوکر گھر لوٹ آیا چچا اس کا بہت احسان مند تھا جس دن چاچا گھر آیا تو گونگا دوڑا ہوا چاچا کی خیریت دریافت کرنے بھاگا تو چاچا نے اسے اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھا کر اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور وہ اس کا قرض اتارنے کے متعلق باتیں کرنے لگا لیکن وہ تو کچھ نہیں سن رہا تھا وہ تو پروین کو دیکھ رہا تھا جوکہ باپ کی صحت یابی سے بہت خوش دکھائی دے رہی تھی اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہورہا تھاوہ ان لمحوں کو اپنی قید میں کرنا چاہتا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ پروین کو یوں ہی دیکھتے دیکھتے اپنی عمر گزار دے ۔
گونگے تو بھی مٹھائی کھا بابا نے صحت یاب ہونے کی خوشی میں بانٹی ہے،پروین نے مٹھائی کا ڈبہ اس کے آگے کرتے ہوئے کہا لیکن پروین کے منہ سے پہلی بار”گونگے“کے الفاظ سن کر وہ اس طرح اٹھ کھڑا ہوا جیسے اسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ گونگا ہے اور پروین اسے احساس دلا رہی ہے کہ وہ گونگا ہے چاچا نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا کیا بات ہے بیٹا وہ اشاروں سے بتانے لگا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے یہ کہہ کر چلا گیا گھر جاکر سیدھا اپنے کمرے میں گیا آج اسے اپنی زبان کی معذوری کا شدت کے ساتھ احساس ہوا اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ پروین کے ساتھ پیارکرے اگر کسی کو پتہ چل گیا تو لوگ اس کا مذاق اُڑائیں گے اور خود پروین بھی اس کا مذاق اُڑائے گی۔
ٹھیک ہے اس نے چاچا کی مدد کی ہے ایک انسانی ہمدردی کے تحت،اس نے اچھا کام کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان کی بیٹی کے متعلق یوں سوچے لیکن کیوں کیا معذورانسان نہیں ہوتے ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا ان کو محبت کرنے کاکوئی حق نہیں یہ اس کے دل کی آواز تھی اس کی اپنی سوچ تھی لوگ اس کی طرح نہیں سوچتے تھے وہ نفع و نقصان دیکھتے ہیں۔خواہ وہ انسان ہو یا چیزیں نفع کی طرف ہر کوئی بھاگتا ہے یہ تو سراسر نقصان کا سودا ہے معذور ہے اس کی ضمیر نے اسے سمجھایا اور وہ اسی جنگ کی کشمکش میں سوگیا دوسرے روز اس عہد سے اٹھا کے وہ ہرگز پروین کے خیالات ذہن میں نہیں لائے گا اپنے اوپر جبر کرے گا اسی سوچ میں ڈوبا دکان پر چلا گیااور اداس ہوکرکپڑے سینے لگا سلیم مجھے معاف کردو مجھے پتہ ہے تم کل میری بات پر ناراض ہوکر چلے گئے تھے یہ الفاظ سن کر اس نے سر اوپر اٹھایا تو پروین ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑی تھی۔
آج پہلی بار وہ اپنا نام کسی کے منہ سے سن کر وہ اتنا خوش ہوا کہ خوشی کے عالم میں اس کے منہ سے مختلف آوازیں نکلنے لگیں،میں نے تمہیں گونگا کہا تھا تم یہ سن کر اُداس ہوکر چلے گئے تھے،بابا نے کہا تم جاکر سلیم سے معافی مانگو کیونکہ آئندہ میں تمہیں گونگا نہیں کہوں گی۔تم تو ہمارے مسیحا ہوں تمہاری وجہ سے ہمارے گھر میں خوشی لوٹی ہے ورنہ اس ظالم دنیا میں کون کسی کی مدد کرتا ہے ،تم زبان سے معذور ہو تو کیا تم تو ایک عظیم انسان ہوں اب مجھے معاف کردو تب گونگا کھڑا ہوا اس نے پروین کے ہاتھ پکڑ لئے اور اشاروں سے اسے کہنے لگا کہ ایسی کوئی بات نہیں میں تو ناراض نہیں ہوں تو پھر ٹھیک ہیں شام کوکھانا ہمارے گھر کھانا اگر تم نہ آئے تو میں سمجھوں گی کہ تم ناراض ہو۔
یہ کہہ کر وہ چلے گی شام کو گونگا چاچا کے گھرآیا تو چاچا نے اسے اپنے پاس بٹھایا کھانا کھلایا گونگا کافی دیر تک وہاں بیٹھا رہا پروین بہت خوش تھی کہ گونگے نے اسے معاف کردیا ،پھر تو ان کے گھر جاتا کافی دیر تک چاچا کے پاس بیٹھا رہتا۔پھر ایک روز چاچا نے ایک عجیب انکشاف کیا کہ گونگے کی شادی پروین کے ساتھ کررہا ہے یہ سن کر محلے میں بھونچال آگیا۔
ہر کسی کہ منہ یہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی زندگی تباہ کررہا ہے اس کی عقل سٹھیا گئی ہیں بیماری کی وجہ سے وہ پاگل ہوگیا ہے جبھی تو وہ اپنی پھول جیسی بیٹی کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں رشید چاچا یہ سب سن کر سیدھا کریموں کے پاس آیا یہ جو میں سن رہا ہوں کیا وہ سچ ہیں۔رشید چاچا نے کہا ہاں یہ سچ ہے رشید میں واقعی اپنی بیٹی کی شادی سلیم کے ساتھ کررہا ہوں کریمو چاچا نے کہا تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کریمو اپنی بیٹی کو تباہ کرنے پر تلے ہو۔
تمہیں پتا ہے سلیم گونگا ہے کیوں اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا مقدر پھوڑرہا ہے کریمونے رشید کو سمجھاتے ہوئے کہا تم نے سلیم کو پالا ہے اس کو ہنر سکھایا ہے وہ تمہارے بیٹوں کی طر ح ہے وہ ایک شریف انسان ہے اگر اتنی ساری خوبیوں کے ساتھ ایک عیب ہے تو کیا ہوا۔یہ عیب اسے قدرت کی طرف سے ملا ہے اس میں سلیم کا کیا قصور کریمو چاچا نے کہا۔وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی کریمو جذباتی مت بنو۔
اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرلو میں شام کو پھر تمہارے پاس آؤں گا۔یہ کہہ کر رشید چلا گیا لوگوں کی باتیں سن کر کریمو کے لئے مشکل آ پڑی تھی۔کہ اس نے جیسے بہت بڑا جرم کرلیا ہے اخر انہوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ پروین سے پوچھ کر کوئی فیصلہ کریں گے۔آخر زندگی اس نے گزارنی ہے وہ جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ اسے منظور ہوگا،شام کو اس نے پروین سے کہا پروین جو کچھ گھر میں ہورہا ہے وہ تم جانتی ہو بیٹی۔
تم ایک سمجھدار لڑکی ہو اپنی زندگی کےلیے میں جو فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہوگا کریمو نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا بابا میں لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتی یہ تو ہر اچھے برے وقت میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔بابا جب آپ بیمار تھے آپ کو پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو اس وقت ہم نے ایک ایک سے جاکر مطالبہ کیا تھا۔اس وقت بھی یہی لوگ تھے جنہوں نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں تھی بابا یہ معذور انسان ہمارے کام آیا تھا۔
سلیم ایک عظیم انسان ہے اگر وہ زبان سے معذور ہے تو کیا ہوا میں اس کی زبان بنوں گی۔یہ کہہ کر وہ بابا کے سینے پر لگ گئی اس نے بابا کی ایک بڑی مشکل آسان کردی تھی۔شام کو رشید آیا تو کریمو کہنے لگا کہ تم نے ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ لیا ہوگا ہاں رشید بھائی میں نے اور میرے گھر والوں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سلیم کی شادی ہر حال میں پروین کے ساتھ ہوگی اس لئے تم اگلے مہینے کی پانچ تاریخ کو بارات لے کر آجانا کریمو نے کہا اور رشید خاموش ہوکر باہر نکل گیا.

Browse More Urdu Literature Articles