Behr E Murdar - Article No. 1517

Behr E Murdar

بحر مردار - تحریر نمبر 1517

جب آسائشوں کو ضرورت کا نام دے دیا جائے اور دلوں کے اندر خواہشات کا جنگل اگا کر بھوک کا خوف پیدا کر دیا جائے تو زندہ انسان حنوط ہو جایا کرتے ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعرات 28 ستمبر 2017

خواب و خیال کا سفر بھی عجیب ہے۔ لمبی مسافتوں کے بعد اگر منزل مل بھی جائے تو سراپا گم ہو چکا ہوتا ہے۔ میں نے تاریخ کی کتاب کو درمیان سے کھولا، لکھا تھا فرعونوں کی لاشوں کو حنوط کرنے کے لئے ایک خاص عرصہ تک بحرِ مردار میں رکھا جاتا تھا۔ میں نے کتاب بند کی اور خواب و خیال کی دنیا میں چلا گیا۔ زندگی اور موت کے الفاظ کبھی متروک کیوں نہیں ہوتے؟ بحر مردار کو بحر مردار کیوں کہتے ہیں؟ موت کا اس سمندر سے تعلق کیونکر ہوا؟ کیا کثافتیں موت کو جنم دیتی ہیں؟ بحر مردار آج بھی میرے لئے ایک پراسرار معمہ ہے۔

میں اپنی کثافت زدہ روح کے لئے ابھی یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ شعر گنگناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔
میرے خمیر میں شامل ہے صدیوں کی غلامی
وگرنہ وقت تو ایسا ہے بغاوت کی جائے
بابا کو سلام کرنے کے بعد سعید میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا: برطانوی غلامی سے امریکی غلامی تک کے سفر میں صرف ایک تبدیلی آئی ہے، اب آقاﺅں کو زندہ انسانوں کو حنوط کرنے کا فن آگیا ہے۔

(جاری ہے)


میں نے حیرت سے بابا کی طرف دیکھا اور بولا :
بابا یہ سعید بھی عجیب باتیں کرتا ہے، بھلا کوئی زندہ انسانوں کو بھی حنوط کرسکتا ہے۔
بابا مسکرائے اور میری طرف چہرہ گھماتے ہوئے بولے
طفیل پُتر سعید صحیح کہتا ہے۔
جب آسائشوں کو ضرورت کا نام دے دیا جائے۔ مقصد حیات صرف آسائش بدن ہو جائے اور دلوں کے اندر خواہشات کا جنگل اگا کر بھوک کا خوف پیدا کر دیا جائے تو زندہ انسان حنوط ہو جایا کرتے ہیں۔
ایسے انسانوں کو دیکھ کر پتھر میں کیڑے کو رزق دینے والا رب اداس ہو جایا کرتا ہے۔ بابا کی آنکھوں میں اداسی سمٹ آئی۔ انہوں نے تاریخ کے آتش دان پر نظر ڈالی اور بولے:
غلامی کے پاﺅں میں سدا ذلت کی پائل رہتی ہے۔ غلاموں کی زندگی میں کوئی بڑا نصیب العین نہیں ہوتا اور کسی بڑے نصب العین، مقصدِ حیات کے بغیر زندگی کسی کوڑے دان کے سوا کچھ بھی نہیں۔
غلام اگر کوزہ گری بھی سیکھ لے گا تو فقط کاسے ہی بنائے گا۔ غلاموں کی صبحیں نور سے خالی، شامیں خون میں ڈوبی اور ان کے قفس کی ہوائیں زہر سے بوجھل ہوتی ہیں۔
بابا یہ غلام کون ہوتے ہیں؟
طفیل پُتر جو رب کے دیئے ہوئے ٹیلنٹ کا منکر ہو کر مایوس ہو جائے اس ناشکری کی سزا کے طور پر اسے غلام بنا دیا جاتا ہے۔ رب اپنے ماننے والوں کو غلام دیکھنا نہیں چاہتا اسی لئے تو قرآن میں غلامی کے آداب نہیں سکھائے گئے۔
پرندہ زیادہ دیر قفس میں رہ جائے تو پھر قفس اس کے اندر رہنے لگتا ہے۔
میں اور سعید دو جڑواں بھائی ہیں مگر ہم دونوں میں زمین اور آسماں کا فرق ہے۔ میں آج تک اپنی ذات کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکا مگر وہ ایسا ابر ہے جو سمندروں میں بھی برستا ہے اور صحراﺅں کی بھی پیاس بجھاتا ہے۔ مجھے صدیاں گزر گئیں ہیں لمحوں کو تراشتے ہوئے اور وہ حدودِ ذات سے نکل کر لامکاں ہوگیا ہے۔
میں آج بھی فقط ایک تماشائی ہوں مگر سعید اس گڈے گڈی کی طرح ہے جن کی فرضی شادی گاﺅں کے چھوٹے چھوٹے بچوں، بچیوں کو نہال کر دیتی ہے۔ میں اگر آتش فشاں کا لاوا اگلنے والی جون کی دوپہر ہوں تو سعید جاڑے کی سخت سرد یخ بستہ بھیگی شب۔ میرا وجود ایک ٹیبل لیمپ کی طرح ہے جو صرف اپنے آپ ہی کو منور کرتا ہے مگر وہ منڈیر پر رکھا وہ چراغ ہے جس سے نہ صرف اپنا گھر بلکہ ہمسائے کا آنگن بھی روشن ہے۔
میں صرف لینا جانتا ہوں مگر اس کا وجود سراپا قربانی ہے۔
مجھے اپنی دولت پر بہت ناز ہے، وہ کہتا ہے ملکیت ہی سارے فساد کی جڑ ہے۔ وہ کہتا ہے ملکیت کا تصور ہی غلط ہے۔ ملکیت وہی ہے جو مرنے والے کے ساتھ قبر میں جاسکے۔ میں چاہتا ہوں ہم اس پرانے گھر کو گرا کر بڑا پلازہ تعمیر کریں مگر سعید کہتا ہے گھروں کی جگہ پر صرف گھر ہی بننے چاہئیں۔ گھروں میں سکون ملتا ہے اور پلازے خوف پیدا کرتے ہیں۔
وہ کہتا ہے آج تک پلازوں میں کبھی کسی کو خدا نہیں ملا۔ وہ کہتا ہے منڈیروں کو کبھی گرانا نہیں چاہئے، شاید کبھی کوئی چراغ جلانے والا آجائے۔ منڈیروں پر پرندے بیٹھ کر گھر والوں کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے عجیب قانون فطرت ہے گھر اور شجر انسان کی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ انسان ان کی ملکیت ہوتا ہے۔ اور آنگن درختوں کے بغیر صحرا کی طرح ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی وہ اداس ہو جاتا ہے، کہتا ہے ہم عجیب دور میں زندہ ہیں جہاں دوستوں سے ملاقات بھی جنازگاہ ہی میں ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے جہاں پہچان ختم ہو جائے وہاں حیرت جنم لیتی ہے اور میرے دیس کے شہر حیرت زدہ کھڑے ہیں۔
مجھے قیمتی فانوس اچھے لگتے ہیں مگر اسے تتلیوں کے رنگ، جھرنے، پہاڑ، پھول اور تاروں سے سجا آسمان، مجھے مہنگے پرفیوم اچھے لگتے ہیں مگر سعید کو بارش کی پہلی بوندوں کے بعد کچی مٹی کی مہکتی خوشبو اور بہتے پانیوں کی باس۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میرے دل کے مندر میں اداسی برس رہی ہے۔ شاید یہاں برسوں سے کسی نے دیا نہیں جلایا تھا، کسی نے شنکھ کی صدا نہیں دی تھی، کسی نے یہاں خاموش پڑی گھنٹیوں کو نہیں ہلایا تھا۔
مجھے سیاحت کا بہت شوق ہے۔ میں نگر نگر گھوما ہوں۔ سعید کہتا ہے تم کولہو کے بیل کی طرح دائرے میں سفر کرتے ہو۔ سفر تو ہمیشہ دائرے سے باہر ہوتا ہے، دائرے کے اندر کا سفر تو کوئی سفر نہیں ہوتا۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں ایک تھکا ہوا مسافر ہوں اور بابا ایک دیوار کی طرح ہیں جس کے ساتھ کمر لگا کر میں بیٹھ جاتا ہوں۔ میں نے ایک دن بابا سے کہا بابا سعید بھی عجیب دیوانہ ہے، کہتا ہے تم دائرے میں سفر کرتے ہو، سفر تو صرف دائرے سے باہر کا ہوتا ہے۔
بابا مسکرائے، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے:
طفیل پُتر جس کی نظر میں وسعت آجائے اسے دیوانہ نہیں کہتے۔
پُتر سفر تو ہوتے ہی دو ہیں۔ ہجرت یا معراج، باقی تو پاﺅں تھکتے ہیں سفر نہیں ہوتا۔
میں نے حیرانی سے بابا کی طرف دیکھا، بابا نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے:
پُتر بوجھ نہ اٹھاﺅ تو زندگی تھکنے لگتی ہے، جب میں نے تعلیم مکمل کی تو میں بہت خوش تھا مگر اب مجھے زندگی کا سبق بہت مشکل لگتا ہے، کبھی کبھی دل چاہتا ہے ماں مجھے پھر سے سکول کا بستہ لادے، بیٹھا تختی لکھتا رہوں اور مٹاتا رہوں۔
اب وقت کی لوح پہ جو بھی لکھتا ہوں مٹایا نہیں جاسکتا۔ کبھی مجھے بھی تمہاری طرح بیسیوں کتابیں ازبر تھیں، جب سے مکتب بدلا ہے ایک کورا کاغذ ہی یاد نہیں ہو رہا۔ میں ایک خالص دنیا دار، ہوشیار بلکہ چالاک شخص ہوں مگر میری زندگی کی دو باتیں مجھے بڑی عجیب لگیں ایک یہ کہ ایک دن اچانک میرے ہونٹوں سے دعا نکلی اے خدا مجھے پھر سے پیدا کر دے۔ اور دوسری بات مجھے عجیب سا خیال آیا کہ روز قیامت رب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ جو میں نے تمہیں معصومیت دے کر بھیجا تھا وہ کہاں ہے؟ وہ معصومیت مجھے واپس کرو تو میں کیا جواب دوں گا۔

ہم دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور پھر اکٹھے ہی مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ میں نے سول سروس جائن کرلی مگر سعید نے لیکچررشپ کو ترجیح دی۔ کہنے لگا میں چاہتا ہوں اللہ نے جو مجھے علم عطا کیا ہے میں آنے والی نسلوں میں تقسیم کروں۔ میرے دل میں کبھی کسی کے لئے محبت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تھا یہاں تک کہ ساحرہ کے لئے بھی نہیں جو مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھی مگر اس کو دیکھ کر بھی میرے اندر کبھی گدگدی پیدا نہیں ہوئی۔
آئینوں کی گواہی سب سے مقدم ہوتی ہے اور آئینہ ہر روز اس کے حسن کی گواہی دیتا تھا۔ انار کی ڈالی جیسی نازک لڑکی جب نیلے رنگ کا لباس پہنے مجھ سے ملنے آئی تو یوں لگتا جیسے آسمان چاند تاروں سمیت زمین پر اتر آیا ہے۔
وہ اس دن بہت روئی تھی جب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کیسے آنا ہوا، اس نے لاجواب کر دینے والی سوال آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی اے بے مروت، بے حس انسان مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا برسوں کا سفر ضائع ہوگیا، میری برسوں کی ریاضت کہیں کھو گئی ہے۔
کہنے لگی تم کیا جانو ہجر کے چولہے میں یادوں کی گیلی لکڑی کیسے سلگتی رہتی ہے۔
جب عید کا چاند نظر آیا تو گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ہم سب بہت خوش تھے، رات کو اچانک بابا نے مجھے بلایا، کہنے لگے عید کی کیا تیاری کی ہے؟ میں نے کہا بابا تین سوٹ تین میچنگ جوتے پرفیومز وغیرہ میں نے ایک لمبی لسٹ گنوائی۔ بابا بولے یہ سب چیزیں تم اپنے دوستوں، عزیز و اقارب اور غریبوں میں صبح ہونے سے پہلے بانٹ دو، میں بہت حیران ہوا، دل تو نہیں چاہتا تھا مگر چونکہ بابا کا حکم تھا اس لئے عید کی تمام خریداری دوستوں، رشتہ داروں اور غریبوں میں تقسیم کر دی۔
مگر میں حیران تھا بابا نے ایسے کیوں کیا؟
اگلے دن جب میں نمازِ عید کے بعد سب سے عید مل رہا تھا تو مجھے عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی، اگرچہ میرا سوٹ بھی بالکل نیا نہیں تھا مگر جب ان دوستوں سے عید ملا جنہوں نے میرے ہی دیے ہوئے سوٹ پہن رکھے تھے تو مجھے بے حد خوشی محسوس ہو رہی تھی، مجھے اس دن زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا جو خوشی دے کر ملتی ہے اس کا نشہ ہی الگ ہے۔
آج مجھے پہلی بار تقسیم کرنے کی لذت سے آشنائی ہوئی۔ آج پہلی بار مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے مجھے کسی انتہائی طاقتور ہستی نے اپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ آج میرے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ تھی جو ماں کے ہونٹوں پر اس وقت سجتی ہے جب اس کا بچہ پیٹ میں کروٹ لینے کی کوشش کرتا ہے۔
گھر واپس آیا تو سب لوگ ایک دوسرے سے عید مل کر بہت خوش تھے۔ ماں سے عید ملنے کے بعد مجھے بابا نے گلے سے لگا لیا اور خوب پیار کیا۔
پھر سب سے مخاطب ہوکر بولے آج میں آپ سب کو بحرِ مردار کے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔ سب نے حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بابا مسکرائے اور بولے:
بحرِ مردار اردن اور فلسطین کے درمیان میں واقع ہے، اس کے پانی میں کثافتیں اور نمک کی مقدار بہت زیادہ ہے اس لئے اس کے پانی میں کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ دنیا میں سطح سمندر سے سب سے نچلا علاقہ ہے۔
ماہر ارضیات کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ بحرِ مردار یعنی Dead Seaوہی علاقہ ہے جہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اللہ کریم کا عذاب نازل ہوا۔
اب سوچنے کی بات ہے یہ سمندر Dead Sea یعنی بحرِ مردار کیوں بنا۔ یہ سمندر پانی دوسروں سے لیتا تو ہے مگر آگے کسی کو نہیں دیتا یعنی اپنا پانی آگے کسی کو تقسیم نہیں کرتا۔
فطرت کا ایک اصول ہے جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو آگے تقسیم نہ کرے تو وہ مردہ سمندر یعنی بحرِ مردار کی طرح ہو جاتا ہے جس کے اندر زندگی کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
اس شخص پر کیا گزرتی ہوگی جو ساری دنیا سے تو جیت جائے مگر خود سے ہار جائے، یہی کیفیت اس وقت میری تھی۔ ابو نے بات ختم کی اور مجھے پھر گلے سے لگا لیا اور مسکرا کر بولے: تمہارے دوستوں اور عزیز و اقارب کو تمہارے تحائف پسند آئے؟ بیٹا! حدیث ہے
”جو کسی مسلمان کو کپڑا پہنا دے تو جب تک اس کے بدن پر ایک دھجی بھی باقی رہے گی تب تک یہ پہنانے والا اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔

بتاﺅ بیٹا تمہیں عید پر کیا تحفہ دوں؟
میری آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے کہا بابا اس سے بڑا کیا تحفہ ہوگا کہ آپ نے مجھے بحرِ مردار ہونے سے بچا لیا۔ مجھے تقسیم کرنے کی لذت کا پتہ چل گیا ہے۔ اب میں اس کی عطا کو اس کی مخلوق میں تقسیم کرتا رہوں گا۔ اب میں کبھی بحرِ مردار نہیں بنوں گا۔
مجھے لگ رہا ہے جیسے آج میری زندگی کی پہلی عید ہے، آج پہلی بار میرے اندر ایک روشنی سی رقص کر رہی ہے، حقیقی خوشی سے آج میں پہلی بار آشنا ہو رہا ہوں۔
میں دوبارہ پیدا ہوگیا تھا۔ جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو ساحرہ کا فون آگیا، وہی کانوں میں رس گھولتا اس کا شہد آگیں لہجہ جسے سن کر لہو میں مٹھاس آ جاتی ہے۔ اس نے مجھے عید کی مبارکباد دی، اس دن میں نے پہلی بار اس سے ڈھیروں باتیں کیں، پھر حیرانی سے بولی طفیل کیا بات ہے آج سے پہلے میں نے تمہیں اتنا خوش نہیں دیکھا، کیا بات ہے؟
میں نے کہا:
ساحرہ آج میری زندگی کی پہلی عید ہے، آج بابا نے مجھے بحرِ مردار ہونے سے بچا لیا ہے، آج میرے اندر زندگی دوڑنے لگی ہے۔
آج میرے اندر دریائے نیل کا تازہ ٹھنڈا پانی رواں دواں ہے۔ جہاں محبت کی مچھلیاں اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی ہیں۔ آج میرے اندر کے دریا نے غلام بنانے والے اور زندہ انسانوں کو حنوط کرنے والے فرعون کو باہر نکال پھینکا ہے۔ آج میں بہت خوش ہوں ساحرہ بچپن کی عید کی طرح خوش، میں ابھی تمہارے گھر آ رہا ہوں۔
فون بند کرنے کے بعد میری آنکھیں دھندلا گئیں، شاید میں رو رہا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles