Bewa - Article No. 2366

Bewa

بیوہ - تحریر نمبر 2366

بیوہ کی چوکھٹ کوئی فرشتہ بھی پَار کر جائے تو رَنڈی کہنے میں لوگوں کو دیر ہی کتنی لگتی ہے!؟ اس بیوہ کا دروازہ بھی مسلسل بج رہا تھا: ”میں ہوں بھابی ! حفیظ۔“

Atif Nadeem عاطف ندیم جمعرات 11 جون 2020

بیوہ کی چوکھٹ کوئی فرشتہ بھی پَار کر جائے تو رَنڈی کہنے میں لوگوں کو دیر ہی کتنی لگتی ہے!؟
اس بیوہ کا دروازہ بھی مسلسل بج رہا تھا:
”میں ہوں بھابی ! حفیظ۔“
یہ نام سنتے ہی اس نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔
حفیظ اس کے مرحوم شوہر کا بہترین دوست بھی تھا اور کولیگ بھی۔
کل تک حفیظ اِسی گھر کے فرد جیسا تھا، اکثر شامیں اسی گھر میں موج مستی میں گزرا کرتی۔

حفیظ مرحوم دوست کی کچھ ضروری چیزیں دینے آیا تھا،جو مرنے سے پہلے آفس میں رہ چکی تھی۔
شوہر کی وفات کے بعد پہلی بار دونوں کا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔
مرحوم شوہر اور حفیظ کے ساتھ گزری شامیں، وہ موج مستی ، سب کچھ ایک پل میں اس کی آنکھوں کے سامنے دوڑنے لگا۔
انکھیں بھیگ چکی تھیں۔

(جاری ہے)


حفیظ کا گلہ بھی شدت ِ دردسے گُھٹ رہا تھا۔


”السلام علیکم بھابی!“ دروازے کے سامنے گلی میں کھڑے حفیظ نے سلام کیا۔
”آفس میں اُن کا لیپ ٹاپ اور کچھ سامان تھا ، سوچاتھا، عدت ختم ہوتے ہی،اپنے ہاتھوں دے آؤں گا“ حفیظ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور چھوٹا سا بیگ چوکھٹ پر رکھ دیا،
”آپ کے دوست کو کسی اجنبی کی طرح دروازے سے لوٹا رہی ہوں، مجھے معاف کر دیجیے گا“ اس نے دل میں مرحوم شوہر کو پکارا۔

”اچھا بھابی چلتا ہوں“ ایک بار پھر طویل خاموشی کے بعد وہ گویا ہوا۔
”حفیظ بھائی! ، لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے اب!آپ کو پانی تک نہیں پلا سکتی ۔“
”بھابی ! میں سمجھ سکتا ہوں،اسی لیے شاید میں دوبار ہ کبھی نہ آسکوں“
دونوں محسوس کر چکے تھے کہ کسی اجنبی کی نظریں ان دونوں پر جمی ہوئی ہیں۔
کچھ فاصلے پردیوار سے ٹیک لگائے ،ایک کانا شخص مسلسل ان دونوں کو دیکھے جا رہا تھا۔
اس کی کانی آنکھ بالکل سفید تھی اور پُتلیاں بے جان تھی۔
یہی سفید، بے جان آنکھ اس کے چہرے کو خوفناک بنا رہی تھی۔
وہ کسی ڈراونی فلم کا کردار معلوم ہوتا تھا۔
اس کی چشم ِ بینا رات کے آوارہ کتوں کی آنکھوں جیسی معلوم ہوتی تھی۔ جو رات کی تاریکی میں اپنے ہی ہم جنسوں پر دانت گاڑتے ہیں۔
حفیظ خاموشی سے واپسی کے لیے پلٹ چکا تھا۔

وہ بھی دو قدم دروازے سے باہر رکھ چکی ، اور بہتی آنکھوں سے حفیظ کو دیکھنے لگی،
حفیظ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔
کانا شخص ابھی تک وہی کھڑا اسے گُھور رہا تھا۔
دروازہ بند کرتے ہوئے اس کی نظر ایک بار پھر اس کانے شخص پر پڑی،
کانے کی چشم بینا سے بیوہ کانپ سی گئی۔
شام تک محلے کے سب گھروں سے بھوکنے کی آوازیں آرہی تھی۔

مرد و زَن کی زبانیں بیوہ کے لباس کو تار تار کر رہی تھیں۔
حفیظ کی آمد اُس بیوہ کا جرمَِ عظیم بن چکا تھا۔
اہلِ محلہ ایک میں گھر جمع تھے۔
ایک وسیع کمرے میں سب انتظار میں بیٹھے تھے۔
دروازہ کُھلا۔
سب کی باتیں سرگرشیوں میں بد ل گئی۔
ایک ادھیڑ عمر شخص کمرے میں داخل ہوا، اور سب کے سامنے ایک تخت نما چارپائی پر بیٹھ گیا۔

اس نے ایک ہاتھ سے سیاہ چشمہ اتار کر گود میں رکھا۔
جیب سے سفید رومال نکالا۔
اپنی اندھی آنکھ سے بہتا گَدلا اور بد بودار پانی صاف کیا، جو کل سے مسلسل بہہ رہا تھا۔
اور پھر اپنی چشمِ بینا سے کمرے میں موجود لوگوں پر نظر دوڑائی۔
اور مخاطب ہونے سے پہلے ایک بار پھر سیاہ شیشے پہن لیے۔
کیوں کہ اب چشم ِ بینا کا کام ختم ہو چکا تھا۔

کہ اب باری زبان کی تھی۔
سرِ محفل یہ زبان ایک بیوہ کے لباس کو تَار تَار کر کے برہنہ کر دے گی۔
بیوہ کی چوکھٹ پر ایک اجنبی کی آمد جرم بن جائے گا۔
ایک بیوہ کو رنڈی ثابت کرنے پر، حاظرین محفل کانے شخص کو داد دیں گے۔
بیوہ پر زمین تنگ کر دی جائی گی۔
کل پھر اہلِ محلہ کا اَجڑ اکھٹا ہو گا۔
ایک بے آسرا بیوہ کو بے گھر کرنے پر محفل ِ فتح سجے گی۔
فاتح کی پگڑی کانے شخص کے سر پرسجے گی۔
وہ شخص ا پنی یک چشم ِ بینا پر مدتوں اِتراتا رہے گا۔
سیاہ چشمہ اُتار پھینکے گا۔
مگر اندھی آنکھ احساس ِ ندامت پر بہتی رہے گی۔
اور!
اور اپنی بے نوری پر سجدہ ِ شکر بجا لائے گی:
کہ یہ بے نور آنکھ پلید سے پاک ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles