Happy Birthday - Akhri Qist - Article No. 2113

Happy Birthday - Akhri Qist

ہیپی برتھ ڈے آخری قسط - تحریر نمبر 2113

یہ صفدر کی شکر گزار محبت بھری غمگین آواز کا اثرتھایا کچھ اور کہ اس نے اسی دن سے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔

جمعرات 1 اگست 2019

محمد امین الدین
یہ صفدر کی شکر گزار محبت بھری غمگین آواز کا اثرتھایا کچھ اور کہ اس نے اسی دن سے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔سب سے پہلے اس نے اپنے رشتے دار،کزن ،ان کی بیگمات اور بچوں کی تاریخ پیدائش کو ایک ڈائری میں یکجا کیا۔پھر دوست ،احباب،پڑوسی،دفتر کے ساتھیوں کے نام اور تاریخ پیدائش کو نوٹ کیا۔آج گیا رہ دسمبر تھی اور اس کی مرتب کردہ فہرست میں فی الحال ایک نام اور ایسا تھا جس کی تاریخ پیدائش گیارہ دسمبر ہی تھی۔

اس نے فوراً فون ملایا اور سالگرہ کی مبارک باد دی۔
دوسرے دن دفتر جانے سے پہلے وقار موسیٰ نے ڈائری میں دیکھا اور اس دن پیدا ہونے والے لوگوں کو مبارک باد دی اور پھر اس نے اپنا معمول بنالیا۔جتنی دیر میں اس کی بیوی ناشتہ بناتی ،وہ ڈائری میں درج نمبروں پر بات کرتا اور سالگرہ کی مبارک باد دیتا۔

(جاری ہے)


آہستہ آہستہ اس کی فہرست بڑھتی چلی گئی۔

اس کے دوست احباب ،رشتہ دار اس کے مشغلے سے واقف ہوتے جارہے تھے۔رفتہ رفتہ اس نے فہرست میں لوگوں کی شادی کی تاریخوں کو بھی شامل کرنا شروع کر دیا۔یوں اچانک شروع ہونے والا مشغلہ عادت بنتا چلا گیا۔فہرست میں جہاں نئے ناموں کا اضافہ ہورہا تھا وہیں کبھی کبھی کچھ کٹتے بھی رہتے ۔جوں ہی اسے کسی کے مرنے کی خبر ملتی وہ اس کا نام اپنی فہرست میں سے نکال دیتا۔

پیدائش اور موت میں یکساں تناسب کبھی نہیں رہا۔اسی لئے فہرست میں شامل ہونے والے نام کٹے ہوئے ناموں سے ہمیشہ زیادہ ہی رہے ۔لیکن وہ دن بہ دن اضافے کے باوجود نہ کبھی گھبرایا اور نہ جھلایا۔کیسے بھی حالات ہوں اسے کوئی اکتاہٹ نہ ہوتی ۔بلکہ ایک گوں نہ گوں مسرت وشادمانی کا احساس ہوتا کہ اس کا مشغلہ منفرد ہونے کے علاوہ کا رخیر کا بھی درجہ رکھتا ہے ۔
چنانچہ ہر سال گیارہ دسمبرکو وہ خاص مسرت کے ساتھ پہلا فون صفدر کو کیا کرتا اور اسے یاد دلاتا کہ یہ سلسلہ اسی کی وجہ سے شروع ہو ا تھا۔صفدر بھی اس بات پر ایک گوں نہ گوں خوشی محسوس کیاکرتا۔
چوتھے برس صفدر اورار تضیٰ پٹاروکالج سے تعلیم مکمل کرکے ایئر فورس اکیڈمی چلے گئے ۔ماں باپ کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد صفدر کی دیکھ بھال اس کے چچا کے سپرد ہونے کے باوجود وہ پٹاروکالج کے زمانے سے ہی ہوسٹل میں رہنے کا عادی ہو چلا تھا اور اب بھی ہوسٹل کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھا۔
چند برسوں میں ارتضیٰ اور صفدر مشاق پائلٹ بن گئے۔
ان ہی برسوں وقار موسیٰ کو دل کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ا سے بائی پاس کروانا پڑا۔لیکن گزشتہ دس برسوں سے جڑا ہوا مشغلہ عادت ثانیہ بن چکا تھا۔اسی لئے ہسپتال جانے سے پہلے اس نے آنے والے تین دنوں میں سالگرہ کی مبارک بادیں پیشگی دے ڈالیں ۔اگلے چند برس وہ اور ملازمت سے جڑا رہا لیکن دن بدن بڑھتی ہوئی نقاہت ،بلڈ پریشر اور شوگر نے اسے مریض بنا کر چھوڑا۔
تب اس نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی اور گھر کا ہورہا۔اسے زندگی میں تھوڑاسا سکون ملا۔اب وہ اطمینان سے لوگوں کو فون کیا کرتا۔کبھی کبھی خیریت دریافت کرتا،حال احوال پوچھتا اور ادھر ادھر کی دوچار باتیں بھی کر لیا کرتا۔
کمیشن حاصل کرنے کے بعد صفدر کی شادی چچازا دسے ہو گئی۔ وقار موسیٰ نے صفدر کی شادی کی تاریخ کو بھی ڈائری کا حصہ بنالیا۔
اگلے برس وہ خود بھی بہو لے آیا اور اس سے اگلے برس وہ دادابن گیا۔
تعلقات کی اس بدلتی دنیا میں رشتوں کی نئی بنیادوں پر خلوص ومحبت کی عمارت کی دور تک پھیلی ہوئی دیواروں سے چمٹی ہوئی زندگی کی آکاس بیل فطرت کے مروجہ اصولوں کے مطابق پھیلتی جارہی تھی ۔وہ جانتا تھا کہ ارتضیٰ کو لمحہ بھر کی فرصت نہیں ہوتی ،لہٰذا وہ اس کے بچوں کے سامنے زندگی کی حیرت سے سجی کتاب کا یہ ورق الٹ دیا کرتا اور انہیں بتایا کہ تاکہ مسرت حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی کیسا راستہ اختیار کرنا پڑتاہے۔

ان ہی دنوں اس کی شریک سفر نے زندگی سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا اور وہ اکیلا رہ گیا۔درد کی ان ساعتوں میں بھی اس نے دل کڑا کر کے خود کو تھامے رکھا اور دوست احباب،رشتہ داروں کی صبحیں روشن کرتارہا۔کچھ لوگوں سے وہ دیر دیر تک باتیں کیا کرتا۔ان کی زندگی کی کتاب کو الٹتا پلٹا اور اپنی زندگی کے اور اق سے جستہ جستہ واقعات سنا کر خودکو یادوں کی بھیڑ میں تنہا ہونے سے بچائے رکھنے کی کوشش کیا کرتا۔

اب وقار موسیٰ کی زندگی ایک مخصوص ڈگر پر چل پڑی تھی۔واقعات سے بھری دنیا میں نیا کیا ہورہا ہے وہ خود کو اس سے بچائے رکھتا۔وہ کسی تبدیلی کا خواہاں نہیں تھا اور نہ ہی زندگی کے اتھاہ گہرے سمندر میں کسی ہلچل کا طلب گار تھا۔گھڑی کی مخصوص اور لگی بندھی رفتار سے چلتی ہوئی سوئیوں کی ٹک ٹک کی طرح اس کی زندگی برسوں سے ایک طے شدہ دائرے میں گھوم رہی تھی کہ وہ واقعہ ہو گیا جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔

گیارہ دسمبر کی صبح مسرت کے مخصوص احساس کے حصول کے لئے وقار موسیٰ نے جب ٹیلی فون کا نمبر ملایا تو اسے یاد تھاکہ یہ صفدر کا نمبر ہے۔اپنے بیٹے ارتضیٰ کے دوست صفدر کے امی ابو آج سے پچیس برس پہلے ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے اور وہ تنہا رہ گیا۔ان ہی دنوں ارتضیٰ نے وقار موسیٰ کو بتایا کہ ہمیشہ ہنسنے مسکرانے والا صفدر کیسا اداس اور زندگی سے مایوس نظر آنے لگا تھا۔
ارتضیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اگلے ہفتے صفدر کی سولہویں سالگرہ ہے اور ہر سال کی طرح اس کے امی ابو اس بار بھی اسے برتھ ڈے وش کرنے والے تھے مگر افسوس کہ فرشتہ اجل نے یہ خوشی چھین لی اور پھر جب وہ اور اس کی بیوی پچیس برس پہلی والی گیارہ دسمبرکی صبح صفدر کو وش کررہے تھے تو اسے ذرا اندازہ نہیں تھا کہ یہ چھوٹی سی بات کیسی روشن صبحوں کو جنم دے گی۔

مگر آج ربع صدی مسلسل رواں دواں مسرت انگیزصبحوں کے بعد دوسری طرف سے جو کچھ کہا گیا اس
نے وقار موسیٰ کو دہلا کر رکھ دیا۔
”رات ایک دوست کی پارٹی سے واپس لوٹتے ہوئے چند شرپسندوں نے صفدر سے نقدی ،موبائل اور گھڑی چھیننے کی کوشش کی۔صفدر نے مزاحمت کی تو انہوں نے اسے گولی مار دی۔وہاں موجود لوگ اسے ہسپتال لے گئے مگر وہ جان برنہ ہو سکا ۔
ابھی چند گھنٹے پہلے اطلاع ملی ہے ۔ارتضیٰ بھائی اور دوسرے لوگ ہسپتال سے میت لینے گئے ہیں“۔
اتنا کہہ کر صفدر کی بیوی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ہمیشہ کی طرح اس نے مرنے کی دعا پڑھتے ہوئے ڈائری پر قلم چلانے کے لئے جوں ہی اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس کا ہاتھ کسی انجانے احساس کے زیر اثر لرز کر رہ گیا۔تب وقار موسیٰ کو یاد آیا کہ یہی وہ نام ہے جو اس کی ڈائری میں سب سے پہلے لکھا گیا۔آج وہ شخص اپنی سالگرہ کی مبارک باد سننے کے لئے زندہ نہیں ہے۔وہ کچھ دیر کے لئے گم سم ہو گیا اور بے دھیانی میں گھر سے باہر دورنکل آیا جہاں زندگی ہمیشہ کی طرح رواں دواں تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles