Happy Birthday - Article No. 2082

Happy Birthday

ہیپی برتھ ڈے - تحریر نمبر 2082

وقار موسیٰ نے دوسری طرف کی آواز سننے کے بعد ہمیشہ کی طرح ڈائری میں لکھے ہوئے نام اور نمبر پر قلم چلانا چاہا تو ہاتھ خیال کی کسی اچانک لہر کے سبب لرزکررہ گیا۔

پیر 24 جون 2019

محمد امین الدین
وقار موسیٰ نے دوسری طرف کی آواز سننے کے بعد ہمیشہ کی طرح ڈائری میں لکھے ہوئے نام اور نمبر پر قلم چلانا چاہا تو ہاتھ خیال کی کسی اچانک لہر کے سبب لرزکررہ گیا۔قلم ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ڈائری میں لکھے حرف ناچنے لگے۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔جب کبھی اسے اطلاع ملتی کہ مطلوبہ شخص دنیا میں نہیں رہا تو مرنے کی دعا پڑھتے ہوئے نام اور نمبر پر قلم چلا دیتا اور آئندہ کے لئے اسے فہرست سے خارج کر دیتا ۔
مگر آج کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ڈائری کے مطابق اسے آج چار فون کرنے تھے اور یہ پہلا فون تھا لیکن پہلے فون سے ہی وہ خوف کے حصار میں جکڑ گیا جہاں سے نکلنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
دیر تک خلا میں بے سبب گھورنے کے بعد طبیعت سنبھلی تو وہ بلا ارادہ اور بغیر بتائے گھر سے باہر نکل گیا۔

(جاری ہے)

وہ جانتا تھا کہ یہ گھر کے اصولوں کے خلاف تھا۔یہ اصول اس نے خود بنائے تھے۔

اس کے بچے حتیٰ کہ تیسری نسل بھی ان اصولوں پر پابندی سے کار بند تھی۔مگر اس وقت وہ خود گھر سے نکلتے ہوئے بھول گیا کہ اسے یہ بتا کر آناچاہئے تھا کہ کہاں جارہا ہوں۔لیکن وہ کیسے اور کیوں کر کسی کو بتاتا کہ کہاں جارہا ہوں۔وہ تو یوں ہی بے سبب ،بے ارادہ گھر سے نکل آیا تھا ۔آج اس نے ایک اور اصول بھی توڑا تھا۔
صبح ناشتے کے فوراً بعد فون کرنے کا اصول۔

جس پر وہ گزشتہ پچیس برسوں سے قائم تھا۔کیسابھی کڑے سے کڑاوقت ہو ․․․․موسم خراب ہو․․․شہر کی فضا بدلی ہوئی ہو․․․․․وہ شہر میں ہو یا شہر سے باہر ،بیمار ہو یا دن بدن بڑھتی ہوئی مصروفیت،وہ لوگوں کو فو ن ضرور کیا کرتا۔مگر آج تو اس نے صرف ایک فون کیا اور جو کچھ دوسری طرف سے سنا اس کے بعد نہ جانے خوف یادکھ کے بے رنگ سائے کے پہلو بہ پہلو گھر سے دور نکل آیا اور اب چلتے چلتے ایک مصروف سڑک سے گزررہا تھا،جہاں زندگی ہمیشہ کی طرح رواں دواں تھی۔

یہ ربع صدی پہلے کی بات ہے جب وقار موسیٰ نے موسم بہار کی آمد پر آنگن کی کیاری میں گل داؤدی کے بیج بوئے۔جس دن زمین سے پھوٹنے والی شاخوں پراودھے اور نیلے رنگوں کی دھنک اوڑھے پہلا پھول کھلا،اسی دن پٹاروکالج سے اس کے بیٹے ارتضیٰ کا فون آیا تھا۔
”بابا!مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے “۔
’خیریت تو ہے ؟کیا کہنا چاہتے ہو ․․․․․کہو“۔

”بابا!کل صفدر کی سال گرہ ہے“۔
”تمہارے دوست کی ؟“
”جی ہاں بابا․․․․․․“
وہ سمجھ گیا ارتضیٰ کیا کہنا چاہتا ہے ۔اس نے جواب دیا۔
”میں اس کے لئے کورئیر سروس کے ذریعے گفٹ بھجواتا ہوں اورکل میں اور تمہاری امی اسے وش بھی کریں گے“۔
”بابا یو آر سوگریٹ ۔اگر آپ اور امی اسے وش کریں گے تو وہ اپنے امی ابو کے غم کو کچھ کم کرپائے گا“۔

کچھ دیر بعد وقار موسیٰ نے کورئیر سروس کے دفتر جا کر پھولوں کا گلدستہ ،برتھ ڈے کارڈ ،اور خوبصورت سوئیٹر کا گفٹ پٹاروکالج کے پتے پر بک کروادیا جو کہ آنے والی صبح نو بجے صفدر کو ملنے والا تھا۔دوسرے دن نو بجے سے کچھ پہلے اس نے پٹاروکالج کے نمبر پر فون کیا اور صفدرسے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔چند منٹ بعد وہ اور اس کی بیوی صفدر کو سالگرہ کی مبارک باد دے رہے تھے ۔صفدر سے بات کرتے ہوئے وہ غم اور خوشی کی باہمی کیفیت سے گزرا تھا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے زندگی کا ایک عجیب فیصلہ کیا۔
محبتیں بانٹنے کا فیصلہ․․․․․․

Browse More Urdu Literature Articles