Harf E Kun - Article No. 1548

Harf E Kun

حرف کن - تحریر نمبر 1548

ماں کی آنکھوں یا آنچل میں سے ایک چیز ہمیشہ نم رہتی ہے، اس کے آنسو اپنی اولاد کے لیے گالوں کا سفر کر کے ابھی زمین پر نہیں گرتے حرف کن بن جایا کرتے ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی بدھ 18 اکتوبر 2017

کبھی زندگی بھر کی ریاضت رائیگاں جاتی ہے اور کبھی لمحے صدیوں کو جنم دے دیا کرتے ہیں، کبھی سمندر کی موجیں ساحل سے زندگی کو چھین کر لے جاتی ہیں اور کبھی مچھلی پیغمبر کو ساحل پر زندہ اگل دیتی ہے۔ بعض اوقات اہل علم کی ہزاروں دلیلیں پتھر دور کے انسان کو غاروں سے نہیں نکال سکتیں اور کبھی کسی فقیر کی ایک صدا افکار کی بنیاد ہلا دیتی ہے۔ مالک کائنات کے بھی اپنے ہی رنگ اور اپنے ہی معاملات ہیں، وہ پہلے ظرف عطا فرماتا ہے پھر سوچ عطا کرتا ہے، شاید اسی لیے جو بولتے ہیں وہ جانتے نہیں اور جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں۔

شاید سوال شور اور ہنگامہ ہے اور خاموشی اس کا جواب، کچھ لوگ عمر بھر مرے ہوئے پھرتے ہیں اور کچھ موت کا ذائقہ چکھتے تو ہیں مگر مرتے نہیں۔ کئی بادشاہوں نے تخت چھوڑ کر فقیری اختیار کی مگر آج تک کسی فقیر نے بادشاہی کو قبول نہیں کیا۔

(جاری ہے)

میرا مالک بھی کتنا مہربان اوررحم کرنے والا ہے پہلے دعا قبول کرتا ہے اور پھر توفیق دعا دیتا ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ کن کی غلام گردشوں میں محو رقص ہے۔


مجھے تتلی کے پیچھے دوڑنے والے بچے بہت اچھے لگتے ہیں، مجھے ایسے راہزن اچھے لگتے ہیں جو دوسروں کے غم چھین لیتے ہیں یا وہ لوگ جن کو پھول، بچے اور جگنو اچھے لگتے ہیں۔ فاخر شاہ بھی میرا ایسا ہی دوست ہے جسے پھول، بچے اور جگنو اچھے لگتے ہیں۔ یہ ایسا راہزن ہے جس نے مجھ سے میرے دکھ چھین لیے ہیں۔ مگر اس کی زندگی میں ایک دکھ یہ بھی ہے کہ اس کے سارے دشمن بونے ہیں، وہ کہتا ہے دشمن کو ہمیشہ قد آور ہونا چاہیے۔
وہ ہے بھی عجیب، اس پتھر مزاج دنیا میں شیشے کے گھر میں رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے دیوار سے لپٹی دیواریں اچھی نہیں لگتی۔ اُس کی خواہش ہے وہ زمانہ لوٹ آئے جب لوگ ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے، اُن کا ہر عمل زمان و مکان سے آزاد ہوا کرتا تھا، وہ بیک وقت ماضی، حال، اور مستقبل میں رہتے تھے۔
ہم دونوں اس شہر آسیب میں رہتے تھے جہاں لاشیں تو روز ملتی تھیں مگر قاتل نہیں ملتا تھا۔
یہ خون کا فلسفہ بھی عجیب اسے کسی بھی سیاہی سے لکھیں یہ نظر سرخ ہی آتا ہے۔ اس کو درختوں کے کٹنے، گھونسلوں کے اُجڑنے اور پرندوں کے کم ہونے اور سہم جانے کا دکھ بہت ہے۔ وہ کہتا ہے درخت کاٹنا فطرت سے جنگ ہے اور جو انسان زیادہ عقلمند بن کر فطرت سے لڑائی مول لیتا ہے تو پھر اس سے ”یقین“ کا چمن چھین کر ”گمان“ کے صحرا میں پھینک دیا جاتا ہے اور پھر ایسی قوموں کا سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ بن جاتا ہے اور پھر یہ قومیں اس چند روزہ فانی دنیا میں ہاﺅسنگ سکیموں اور پلازوں کے کاروبار میں الجھ جایا کرتی ہیں، اپنا سب کچھ اینٹ اور گارے میں لٹا دیا کرتے ہیں۔
لہلہاتی سرسبز فصلوں کی جگہ دھواں اُگلتی فیکٹریاں اور پلازے بن جایا کرتے ہیں، پھر پراپرٹی ڈیلرز محلات میں اور ساغر فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ مالک مکان کرایہ داروں کا خون پینے اور اُن کے بچوں کا رزق کھانے لگتے ہیں، پھر لوگ شہرت کی بھوک مٹانے کے لیے کردار بیچ دیتے ہیں اور ”محترم“ بن جاتے ہیں۔ اِن قوموں کا احساس زیاں جاتا رہتا ہے، یہ صرف گزرتے لمحوں ہی میں جینا شروع کر دیتے ہیں، ایسی غیر فطری زندگی گزارنے والی قومیں بے شمار نفسیاتی، روحانی بیماریوں اور الجھنوں کا شکار ہو کر عاملوں، پیروں، فقیروں اور دعا کرنے والوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتی ہیں، ان کی زندگیاں عمل، تفکر اور محنت سے خالی ہو جاتی ہیں، اِن کو چھوٹے چھوٹے مسئلے پہاڑ دکھائی دینے لگتے ہیں، اِن کو بوٹ کا تسمہ باندھنا بھی عذاب دکھائی دیتا ہے اور پھر یہ عاملوں اور درویشوں کے پاس جا کر کہتے ہیں ہمیں ایسا عمل بتا دیں اور دعا کریں کہ ہمیں بوٹ کا تسمہ باندھنا نہ پڑے یا ایسا وظیفہ بتا دیں جس کے بعد بوٹ کا تسمیہ بغیر ہاتھ لگائے خود بخود بندھ جائے۔
حالانکہ دعا ہمیشہ ( Act) عمل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ لوگ رزق اور مال و دولت کے پیچھے قتل و غارت اور لڑائی جھگڑے پر اُتر آتے ہیں جیسے دو منہ والا سانپ پیدا ہوتے ہی آپس میں خوراک کے لیے لڑ پڑتا ہے اور پھر اس قوم کا المیہ سماجی انتشار، مادہ پرستی اور سیاہی بکھراﺅ بن جاتا ہے اور پھر روشنی کو اندھیروں سے جدا کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
جب سے اشفاق احمد نے مٹی اوڑھی ہے بانو آپا نے اُن کی تصویر پر کبھی گرد بھی پڑنے نہیں دی۔
جب سے میری ماں نے مٹی کا آنچل لیا ہے مجھے مٹی سے خوشبو آنے لگی ہے۔ میں ایک دن فاخر کو بتا رہا تھا مجھے میری ماں بہت یاد آتی ہے۔ بچپن کی طرح میں اب بھی اس کی یاد کی انگلی پکڑ کر محو سفر رہتا ہوں، میں نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا، میری ماں ہماری تربیت کے معاملے میں بہت سخت تھی، اُس نے خود زمین کاشت کی اور ہمیں پڑھایا لکھایا۔ میں نے ایک دن اپنی ماں سے پوچھا تو ہماری تعلیم و تربیت کے معاملے میں اتنی سخت کیوں ہے تو ماں بولی جس دن تمہارا باپ اس دنیا سے رخصت ہوا تو میں نے فیصلہ کیا کہ آج بچوں کا باپ نہیں مرا اُن کی ماں مر گئی ہے اور پھر میں نے تم کو باپ بن کر پالا ہے۔

بچپن میں ماں اور میں آنکھ مچولی اور چھپن چھپائی بہت کھیلا کرتے تھے، میں ہر بار جگہ بدل بدل کر چھپا کرتا تھا مگر میری ماں ہمیشہ اسی ایک ہی جگہ پر چھپا کرتی تھی تاکہ اُس کے بیٹے کو ڈھونڈنے میں مشکل نہ ہو، یار فاخر، میرے دوست یہ چھپن چھپائی کی عادت میری ابھی جوانی میں بھی نہیں گئی، اب میں اپنے رب کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتا ہوں، میں ہمیشہ جگہ بدل کر چھپتا ہوں، کبھی اپنے گناہوں کے پہاڑ کے پیچھے، کبھی نافرمانی کی بند گلی میں، کبھی ندامت کے غار میں، کبھی اپنی گندی سوچ کی بند حویلی میں اور کبھی اپنے اعمال کی سیاہ دیوار کے پیچھے مگر میرا پروردگار ہمیشہ اپنی رحمت کی مسکان لیے مجھے میری شاہ رگ سے بھی قریب ملتا ہے کہ اُس کو ڈھونڈنے میں مجھے کوئی تکلیف نہ ہو۔
میری یہ بات سن کر فاخر شاہ کے منہ سے سسکی نکل گئی اور وہ پھر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ میں اسے جتنا بھی چپ کرانے کی کوشش کرتا وہ اور زیادہ رونے لگتا، اس دن ابر بھی کھل کر برسا تھا، اُس دن ہم دونوں گھنٹوں روتے رہے تھے۔
آدھی رات گزر چکی ہے، سورج گہری نیند سو گیا ہے، آج آسمان نے چاند کا تاج نہیں پہنا تھا، تارے زمین پر کھیلتے جگنوﺅں کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، نیند ہرجائی محبوب کی طرح میری آنکھوں سے کوسوں دور ہے، اتنی خامشی ہے کہ خود سے خوف آنے لگ گیا ہے اور میں سوچ کی وادیوں میں کھو گیا ہوں۔
ہم دونوں دنیا سے مختلف کیوں ہیں؟ فاخر شاہ کو کون سا دکھ اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ اُس کا انداز گفتگو خاموشی کیوں ہے۔ میں نے زندگی میں اسے صرف ایک بار مسکراتے دیکھا تھا جب اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا مجھے ایسی خواتین کی سادگی پر مر جانے کو جی چاہتا ہے جو بیویاں اپنے شوہر کو سزا دینے کے لیے میکے چلی جاتی ہیں۔
میں نے ایک دن پوچھا فاخر میرے دوست تمہیں کیا دُکھ ہے؟ تمھارے اندر اتنا سناٹا کیوں ہے؟
اس نے میری طرف دیکھا اور بولا
جدائی!
زندگی تو جدائی میں بھی گزر جاتی ہے مگر برص کے داغوں کی صورت ....
اس نے خود کلامی کی
آئینہ وہ چرائے جسے بناﺅ سنگھار آتا ہو
جب زخم گھنگھرو پہن لیتے ہیں تو اس کی یادوں کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔

جب جیون کی روح رخصت ہو جائے اور صرف سانسوں کی ڈور رہ جائے تو انسان اپنے ہی مزار کا مجاور بن جاتا ہے۔
کہنے لگا:
کچھ لوگ تعبیر کی طرح ہوتے ہیں، اُن کو پانے کے لیے ہمیں خوابوں کی وادی میں جانا پڑتا ہے مگر اُن کی یاد کا اُجالا رات ہونے ہی نہیں دیتا۔ یہ لوگ رُخسارِ زیست پر تل کی طرح ہوتے ہیں، یہ کائنات کے حسن کو اور بڑھا دیتے ہیں، جو بھی اُن کی یاد کی مالا گلے میں پہنتا ہے جوگی بن جاتا ہے۔
میں کمزور آدمی ہوں، موت کو شکست نہ دے سکا، ایک دن کربلا کی مٹی اپنے خشک ہونٹ لیے کہنے لگی پیاس پانی سے بے نیاز ہو جائے تو زندگی موت کو شکست دے دیا کرتی ہے مگر میں ہمیشہ کنکریٹ کے جنگل میں سایہ ڈھونڈتا رہا۔ پھر وہ ہلکا سا مسکرایا اور بولا:
شاید سکون کہیں بھی نہیں ہے، راہگزر سے آگے بھی راہگزر ہی ہے۔ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کسی ”کن“ کی ضرورت رہتی ہے، منزلوں کو پا لینا بھی کتنی قیامت ہے، سب کچھ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ خود منزل بھی، میرے دوست میری آنکھوں کی طرف دیکھو، یہاں خواب سوئے ہوئے ہیں، جس دن بھی لفظوں کی آبرو بحال ہو گئی میں پہلا لفظ محبت لکھوں گا۔

اُس شام کی اُداسی میں کئی شاموں کے سناٹے شامل تھے، وہ دسمبر کی ایک سرد شام تھی، آسمان نے ابر کا لباس پہن لیا تھا۔ اونچے درخت پر بڑی بڑی چمگادڑیں اُلٹا لٹکی کسی صدائے کن کی منتظر تھیں، ہم دونوں باغ جناح کی سرسبز گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے، فاخر بولا کتنا عجیب ہے پانی میں جلتے وجود کی تشنگی نہیں جاتی، کبھی میں آگ کو آگ میں جلتا دیکھنا چاہتا تھا مگر اب سوچتا ہوں ابراہیمی بنو اور آگ کو گلزار کرتے جاﺅ مگر کیا کروں جب بھی دریا دیکھتا ہوں اندر کا صحرا جاگ جاتا ہے۔

وہ ہمارے سامنے کھڑا تھا۔
خوبصورت انسان جس کے آدھے بالوں میں چاندی اُتر چکی تھی، جینز اور برف جیسی شرٹ پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
میرا نام قاسم ہے۔ ڈاکٹر قاسم گاڑا
کہنے لگا
مدح سرائی سے فن ہی نہیں مرتا بلکہ ممدوح بھی گمنامی کی ابدی نیند سو جاتا ہے
سوال کی موت آپ نے لکھی ہے۔
جی! میں نے جواب دیا۔
میں اس وقت اس لیے آیا ہوں مجھے دو سوالوں کا جواب چاہیے، میری زندگی آسان ہو جائے گی۔

پہلا سوال، میں ڈاکٹر کیسے بنا؟ حالانکہ میں پڑھنا نہیں چاہتا تھا، کئی بار سکول اور کالج چھوڑا مگر میری ماں کو یقین تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں گا۔ میری ماں بھی عجیب ہے، اس کی آنکھوں یا آنچل میں سے ایک چیز ہمیشہ نم رہتی ہے۔
دوسرا سوال
سکوت اور کن میں کتنا فاصلہ ہے؟
شاید یہ سوال ایک ہی ہے کیونکہ اس کا جواب ایک ہے، میں نے کہا۔

کیا؟؟ وہ بولا:
”بھیگتی آنکھوں کی دعا“
میں سمجھا نہیں۔
قاسم بھائی یاد رکھنا۔
ماں کے آنسو اپنی اولاد کے لیے گالوں کا سفر کر کے ابھی زمین پر نہیں گرتے حرف کن بن جایا کرتے ہیں۔
جس وقت ڈاکٹر قاسم گاڑا اپنی ماں کے گھٹنوں پر سر رکھے رو رہا تھا میں اس وقت اپنی ماں کی قبر سے لپٹا اس کی مٹی کو آنسوﺅں سے سیراب کر رہا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles