Intqaam - Article No. 1616

Intqaam

انتقام - تحریر نمبر 1616

گرمی بلا کی تھی ندی نالے،دریا،تالاب سوکھے پڑے تھے کسانوں کی امید بھری نظریں آسمان کی طرف اٹھیں اور مایوس ہوکر پلٹ آتیں ان کے دل کہہ رہے تھے کہ بارشیں نہ ہوئی تو کھیتوں میں ایک دانہ بھی نہ اگے گا۔۔۔۔۔۔اور جنگل بھی سوکھ چکا تھا

بدھ 6 دسمبر 2017

مسرت واحد خان:
یہ واقعہ،،،،سچا واقعہ،،،آج سے پچیس سال پہلے مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش)کے اس مشہور جنگل میں پیش آیا جسے سمندر بن کہتے ہیں،اس جنگل میں ہرن،بارہ سنگے،تیندوے شیر اور چیتوں کے علاوہ ہاتھی بھی پائے جاتے ہیں،چوں کہ جنگل کی لکڑی سے حکومت کوکروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی تھی اس لیے حکومت کا محکمہ ہر وقت چوکس رہتا تھا کہ جنگل کو کوئی نقصان نہ پہنچے پائے،اب ہماری کہانی شروع ہوتی ہیں،اس سال بارشیں بالکل نہیں ہوئی تھیں گرمی بلا کی تھی ندی نالے،دریا،تالاب سوکھے پڑے تھے کسانوں کی امید بھری نظریں آسمان کی طرف اٹھیں اور مایوس ہوکر پلٹ آتیں ان کے دل کہہ رہے تھے کہ بارشیں نہ ہوئی تو کھیتوں میں ایک دانہ بھی نہ اگے گااور پھر سال بھر تک وہ اور ان کے بال بچے بھوک سے بلکیں گے،بارش نہ ہونے سے انسان ہی نہیں جنگل کے حیوان بھی پریشان تھے،وہ تالاب اور ندیاں جو پہلے پانی سے بھری رہتی تھیں اور ان سے سارا جنگل اپنی پیاس بجھاتا تھا اب ان میں سوائے کیچڑ اور دل دل سے ہونٹ لگا کر تھوڑی بہت نمی چوس لیتے تھے مشکل ہاتھیوں کی تھی جن کے لئے منوں پانی چاہیے۔

(جاری ہے)

پینے کے لئے بھی نہانے کے لیے بھی،جب گرمیہ تڑاخے کی پڑے بارش نہ ہو اور ہوا زور کی چلے تو ٹہنیوں کی رگڑ سے سوکھے درختوں اور جھاڑیوں اور جھاڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے اور ایک دفعہ جنگل میں آگ بھڑک اٹھے تو آناًفاناً سارے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ان کی آن میں تمام جنگل جل بھن کر کوئلہ ہوجاتا ہے۔اس سال چوکہ موسم خشک تھا اور جھکڑ چل رہے تھے اس لیے جنگل میں آگ لگنے کا اندیشہ تھا محکمہ جنگلات نے اپنے افسروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ماتحت ملازموں کے ساتھ جنگل کے مختلف حصوں میں کیمپ لگائیں اور جہاں کہیں آگ بھڑکے فوراً بجھا دیں۔
ان افسروں میں ابوالقاسم نام ایک نوجوان بھی تھا لمبا تڑنگا گٹھے ہوئے جسم کا خوب صورت نوجوان۔ابوالقاسم نے اپنا کیمپ جنگل کے جس حصے میں لگایا تھا وہاں ہاتھی رہتے تھے اس کے ساتھ بیس پچیس آدمی تھے جنہیں آگ بجھانے کا کافی تجربہ تھا انہیں ہروقت جنگل میں رہنا پڑتا تھا اس لیے وہ بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے یہ لوگ ہر روز نئی جگہ کیمپ لگاتے اور گھوم پھر کر دیکھتے کہ کہیں آگ تو نہیں لگی،ایک دن ابوالقاسم نے اپنا کیمپ ایک تالاب کے کنارے لگایا یہ تالاب دوسرے تالابوں کی طرح بالکل خشک نہیں ہوا تھاآس پاس گھنے درختوں کی وجہ سے اس میں تھوڑا سا پانی تھا اور اس کے کناروں پر ہاتھی کے پاؤں کے نشانات تھے اس کا مطلب تھا کہ یہاں ہاتھی پانی پینے آتے ہیں کیمپ کے لوگ یہ نشانات دیکھ کر بڑے گھبرائے،مگر ابوالقاسم نے انہیں تسلی دی کہ صرف دو تین روز ہی ٹھہرنا،پھر کسی جگہ کیمپ لگا لیں گے اس کے دم دلاسے سے ان لوگوں کی کچھ ہمت بندھی،ابو القاسم کو معلوم تھا کہ جس جگہ انسان ہوں وہاں ہاتھی نہیں آیا کرتے وہ تالاب کے کنارے کیمپ لگادیکھیں گے تو ادھر کا رخ نہ کریں گے اور کوئی دوسرا تالاب تالاش کریں گے۔
ابوالقاسم کو محکمے کی جانب سے ایک خدمت گار ملا ہوا رتھا جو چپراسی کا کام کرتا اور باورچی کا بھی اس کے بیوی بچے بھی اس کے ساتھ تھے اس کا نام فضل حق تھا،سانولے رنگ کا خوب موٹاتازہ سفید براق وردی پہن کر وہ ابوالقاسم کے دفتر کے باہر مونڈھے پر بیٹھا تو چھوٹے موٹے لوگ اسے جھک جھک کر سلام کرتے اور اسے چھوٹاصاحب کہا کرتے۔اسے محکمہ جنگلات میں نوکری کرتے بیس برس ہوگئے تھے اور ان بیس برسوں میں اس نے پانچ افسروں کی خدمت کی تھی ابوالقاسم چھوٹا افسر تھا جسے اس محکمے میں ملازم ہوئے صرف چھ مہینے ہوئے تھے۔
ابھی انہیں یہاں کیمپ لگائے ایک دن بھی نہ گزرا رتھا کہ شام کے وقت ایک چوکی دار بھاگا ہوا ٓیا اس نے اطلاع دی کہ ایک میل دو ر شمال کی جانب جھاڑیوں میں آگ لگ گئی ابو القاسم نے اپنے آدمیوں کو تیاری کو حکم دیا اورآگ بجھانے کا سامان لے کر اس جگہ پہنچ گیا بڑے زورجھکڑ چل رہا تھا اور آگ لمحہ بہ لمحہ پھیلتی جارہی تھی یہ دیکھ کر ابوالقاسم شعلوں میں کود پرا اس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھی اور رات بھر کی جدوجہد کے بعد وہ آگ بجھانے میں کام یاب ہوگئے صبح کو ابوالقاسم نے اپنے آدمیوں کی گنتی کی تو معلوم ہو افضل حق ان کے ساتھ نہیں آیا ہے۔
دن چڑھے یہ لوگ گرتے پڑتے واپس کیمپ میں آئے تھکے ہارے نیند سے بوجھل اور بھوک سے بے تاب کیمپ کے باہر فضل حق نئی دھلی ہوئی سفید براق وردی پہنے بڑے ٹھاٹھ سے بیٹھا تھا ابوالقاسم کے تن بدن میں آگ لگ گئی وہ گرج کر بولامیں نے حکم دیا تھا کہ کیمپ کا ہر شخص میرے ساتھ چلے،تم نے میرا حکم کیوں نہیں مانا،؟آگ بجھانا میرا کام نہیں،فضل حق نے بڑے اطمنیان سے جواب دیا میں آپ کا خدمت گار ہوں ۔
تمہیں ہر کام کرنا پڑے گا ابو القاسم اور زور سے گرجا ورنہ کہوئی اورٹھکانا تلاش کرلو یہ کہہ کر وہ غصے سے پیر پٹختا خیمے میں چلا گیا،فضل حق نے اپنی نئی دھلی ہوئی خوب صورت وردی کو دیکھا اب شاید وہ اسے کبھی نہ پہن سکے محکمہ جنگلات میں نوکری کرتے اسے بیس برس ہوگئے تھے اور اب چند سال بعدپنشن ملنے والی تھی مگر اب اس کی پنشن بھی خطرے میں تھی ابو القاسم کے ذرا سے اشارے پر اسے ملازمت سے جواب مل سکتا تھا پھر وہ کیا کرے گا؟بیوی بچوں کو لے کر کہا جائے گا؟یہ سوچتے ہوئے اسے یہ بات یاد آئی دو تین مہینے پہلے کی بات جب ابوالقاسم کے ساتھ مرغابیوں کے شکارپر گیا تھا تو اس نے ابوالقاسم کی بندوق ریتلی زمین پر رکھ دی تھی اس پر ابوالقاسم بہت خفاہوا تھا اور اس نے کہا تھا بندوق زمین پر نہیں رکھنی چاہیے اس کی نال میں مٹی بھرگئی تو چلاتے وقت مٹی کی رگڑ سے وہ پھٹ جائے گی اور میرے پر خچے اڑجائی گے یہ بات یاد کر کے فضل حق کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس دن آدھی رات کو جب سارا کیمپ سویا پڑا ہوا تھا فضل چپکے سے ابوالقاسم کے خیمے میں داخل ہوا ابوالقاسم کے پاس دو بندوقیں اوردو پستولیں تھیں فضل نے ایک ایک کرکے چارو ں ہتھیار اٹھائے پھر وہیں رکھ کر دبے پاؤں باہر نکل آیا۔جنگل کے ہاتھیوں نے ایک دن تو صبر کیا اورکیمپ لگا دیکھ کر تالاب کے پاس تک نہ پھٹکے لیکن دوسرے دن جب مارے پیاس کے ان کی انتڑیاں خشک ہونے لگیں تو وہ بے چین ہوگئے ان میں ایک ہاتھی بڑا گراں ڈیل،طاقت ور اور خوف ناک تھا دوسرے ہاتھی تو پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نکل گئے لیکن وہ جھومتا جھامتا اس تالاب کی طرف بڑھا جس کے کنارے ابو القاسم کا کیمپ لگا تھا۔
صبح کے آٹھ بجے تھے ابو القاسم خیمے میں بیٹھا ناشتا کررہا تھا کہ ایک آدمی نے آکر خبر دی کہ ایک بڑا ہی خوف ناک ہاتھی تالاب کی طرف آرہا ہے ابوالقاسم نے جلدی سے بندوق بھری دس بارہ کارتوس جیب میں ڈالے اور باہر نکل آیا۔کیمپ میں بھگڈر مچی ہوئی تھی مرددرختوں پر چڑھ گئے تھے اور عورتیں کو لے کر جھاڑیوں میں چھپ گئی تھیں۔ابوالقاسم ایک درخت کی آڑ لے کر کھڑا ہوگیا ایک منٹ دو منٹ تین منٹ اور پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے زمین ہل رہی ہے جیسے بھونچال آرہا ہے اس نے درخت کی آڑ سے جھانک کر دیکھا ایک پہاڑ سا ہاتھی چنگھاڑتا ہوا تالاب کی طرف آرہا تھا معلوم ہوتا تھا کئی دن پیاسا ہے اس نے دائیں دیکھا نہ بائیں سیدھا تالاب میں گھس گیا اور سونڈ بھر بھر کر پانی پینے لگا مارو صاحب مارو،درخت کے اوپر سے کسی نے کہا ابوالقاسم نے سراٹھاکر اوپر دیکھا فضل حق ایک شاخ پر سہما بیٹھا تھا اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی،نادر صاحب مارو جلدی کرو فضل حق نے دوبارہ کہا۔
لیکن ابوالقاسم قدرت کے اتنے بڑے عجوبے کو خواہ مخواہ مارنا نہیں چاہتا تھا وہ چپ چاپ بت بنا کھڑا رہا مگر اس کی انگلی بندوق کی لب لبی پر تھی اور اس کی ہلکی سی جنبیش اس دیو جیسے ہاتھی کو خاک و خون میں لتا سکتی تھی۔ہاتھی نے پہلے خوب پیٹ بھر کے پانی پیا پھر سونڈ میں پانی بھر بھر کر نہانے لگا جب اس کا سارا جسم تر بتر ہوگیا تو وہ خوشی سے چنگھاڑا اور جنگل کی طرف جانے کے لیے مڑا۔
کیا کرتے ہو صاحب؟“فضل نے چیخ کرکہا گولی کیون نہیں چلاتے؟اور تب ایک ننھا سا بچہ ایکا ایکی پاس کی ہاتھی کی طرف دوڑنے لگا بچے کو دیکھ کر ہاتھی نے سونڈ اوپر اوٹھائی اور آگے پیچھے اس طرح جھولا جیسے بس حملہ کرنے ہی والا ہے،یہ بڑا نازک وقت تھا ابوالقاسم کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟اگر کوئی چلاتا ہے تو ہاتھی زخمی ہوکر غضب ناک ہوجائے گا وہ سمجھے گا کہ اس کی تکلیف کی وجہ سے یہی بچہ ہے وہ اسے پیروں تلے کچل دے گا اتنے بڑے ہاتھی کو مارنے کے لیے کم از کم پانچ چھ گولیاں چاہیں۔
اور جب تک وہ دوبارہ بندوق بھر ے گا ہاتھی بچے کی ہڈیوں کا سرمہ بنا چکا ہوگا۔بچہ ہاتھی سے پچاس ساٹھ قدم دور رہ گیا تھا ابوالقاسم نے بندوق پھینک دی اور پوری رفتار سے بچے کی طرف دوڑا اس نے پھرتی سے بچے کو گود میں اٹھایا اور بجلی کی سی تیزی سے درخت کے پاس واپس آگیا ہاتھی ہکا بکا کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا تھا پھر اس نے ایک ہول ناک چیخ ماری اور گھنے جنگل میں غائب ہوگیا۔
تمام لوگ درختوں سے کود پڑے مائیں بچوں کو لے کر جھاڑیوں میں سے نکل آئیں ابوالقاسم نے ماتھے سے پسینا پونچھا اور بچے کو زمین پر کھڑا کرکے بولا یہ کس کا بچہ ہے؟میرا جناب،پیچھے سے آواز آئی۔ابوالقاسم نے مڑ کردیکھا یہ فضل حق تھا اس کا خدمت گار اس کا سر جھکا ہوا تھا آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور چہرے کی جھریاں لرز رہی تھیں۔”اکیلا کیوں چھوڑدیا تھا اسے؟ابوالقاسم نے اسے ڈانٹا۔
چھوٹا بچہ رورہا تھا،فضل کی بیوی نے کہا میں اسے خاموش کرانے لگی تو یہ موقع پاکر بھاگ نکلا۔“صاحب افضل کپ کپاتی آواز میں بولا میں بہت شرمندہ ہوں خدا کے لیے مجھے معاف کردیجئے،ابوالقاسم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور بولا قصور تمہارا نہیں تمہاری بیوی کا ہے میں اس بات کی معافی نہیں مانگ رہا حضور فضل نے آہستہ سے کہا یہ دیکھیے۔اس نے ابوالقاسم کی بندوق اٹھائی اور اس کی نال نیچے کی تو اس میں سے مٹھی بھر مٹی نکل کر زمین پر گر پڑی۔
اف میرے اللہ ابو القاسم نے گٹھی ہوئی آواز میں کہا تم تم مجھے مارنا چاہتے تھے؟جی ہاں فضل سرجھکا کر بولا آپ نے مجھے نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی تھی اس لیے میں آپ سے انتقام لینا چاہتا تھا خدا کاشکر ہے کہ آپ نے فائر نہیں کیا یہ کہہ کر وہ گھٹنوں کے بل جھکا اور ابوالقاسم کا ہاتھ تھام کر بولا کہہ دیجیے کہ میں نے تجھے معاف کیا میں گناہ گار ہوں میں قصور وار ہوں۔
روتے روتے اس نے اس کی ہچکی بندھ گئی اور آنکھوں سے آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگی کہ ابوالقاسم کا ہاتھ تر بترہوگیا اس نے فضل کا کاندھا تھپ تھپایا اور بڑی نرمی سے بولا اٹھو فضل اٹھو میں نے تمہیں معاف کیا خدا بھی تمہیں معاف کرے۔“اچانک ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا مشرق کی طرف سے گھن گھورگھٹا جھوم کر اٹھی کیمپ والوں کے دل مسرت سے کھل اٹھے اور وہ امید بھری نظروں سے امنڈتے گمنڈتے کالے سیاہ بادلوں کو دیکھنے لگے۔یہ گھٹا ضرور برسے گی۔ان کے دل کہہ رہے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles