Khoobsoorat Faateh - Article No. 1488

Khoobsoorat Faateh

خوبصورت فاتح - تحریر نمبر 1488

سیانے وہ ہوتے ہیں جن کی پہلی اور آخری ترجیح رب ہوتا ہے، وہ پرانی اور شکستہ قبروں کی پکار بھی سن لیتا ہے۔

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی منگل 12 ستمبر 2017

اس کی آنکھیں جیسے ساحلِ سمندر پر بہت دور غروب ہوتے سرخ سورج کا نظارہ کر رہی ہوں۔ ساحلِ وقت پر وہ یادوں کی سیپیاں تلاش کر رہا تھا، اس کا بچپن اور لڑکپن کتنا خوبصورت تھا، وہ زمانہ امید اور محبت کا زمانہ تھا، ہرے بھرے جنگلات پھلوں اور پرندوں سے لدے باغات، اناج کی نعمت جھولی میں ڈالے فصلوں کی جھکی ہوئی کومل ڈالیاں جہاں پرندوں کی چہچہاہٹ اور مویشیوں کے گلے میں بندھی ٹلیوں کی آوازیں مل کر خوشگوار سر پیدا کرتی تھیں، بہتے دریاؤں کی جولانیاں قلب و نظر کو تازہ اور روح کو معطرکرتی تھیں۔

برکھا رت خوشیوں کا پیغام لاتی تھی۔ پودے اور فصلیں دھل کر اور بھی سبز ہو جاتے تھے، فضا دھل کر آسمان کو اور بھی نکھار دیتی تھی۔ بارش میں نہانا کاغذ کی ناؤ بنانا، میٹھے ”پوڑے“ کھانا اور بانٹنا، پرندوں کا اپنے گھونسلوں میں دبک کر بیٹھنا اور دھنک کے شبنمی رنگوں کو اپنی روح میں اتارنا، خواب گاہوں میں سونا مگر خوابوں میں رہنا یہ سب کتنا خوبصورت تھا۔

(جاری ہے)

اسے دو باتیں کبھی نہیں بھولیں، اس نے بچپن میں پہلی بار چھپ کر مٹی کب کھائی تھی اور جون کی سخت گرمی میں انتہائی سخت پیاس میں پہلی بار اپنی ماں سے پانی کب پیا تھا۔ شاید اسی لئے اس کا پہلا عشق مٹی اور پانی تھا۔ پھر اس نے ان سے زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا، مٹی سے عاجزی سیکھی جو رحمتِ خداوندی حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے اور پانی سے زندگی بانٹنا۔
وہ جانتا تھا جو بھی پانی کی طرح زندگی بننا چاہتا ہے اسے بھی پانی کی طرح بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ہونا پڑے گا۔ کیسا قانونِ فطرت ہے پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں مگر زندگی کے سارے رنگ اسی کے وجود سے ہیں۔
وہ سوچنے لگ گیا میری دھرتی کو کس کی نظر کھا گئی، میرے پانیوں میں کون زہر گھول گیا، میری سر سبز اور شاداب دھرتی بنجر اور صحرا کیسے ہوئی، کہیں ہم سے جانے انجانے میں شرک اور ظلم تو نہیں ہوگیا۔
ہم تو جانی دشمنوں کو معاف کر دینے، انہیں امان دینے والے رحمت العالمین کی امت میں سے تھے، ہم تو پتھر کھا کر دعائیں دینے والے کی اُمت میں سے تھے۔ ہم درندے کیسے بن گئے۔ ہم تو کوڑا پھینکنے والی کی تیمارداری کرنے والے اور کلیجہ چبانے والی کو معاف کرنے والے کے اُمتی تھے۔ ہم چھیننے والے کب سے بن گئے۔ ہم تو بھوکے بچوں کو سلا کر چراغ بجھا کر مہمان کو کھلانے والے لوگ تھے، ہم ایثار و محبت میں مہاجر و انصار والی مثالیں قائم کرنے والے لوگ تھے۔
ہم ظالم اور استحصال کرنے والے کیسے بن گئے۔ جہاں دریا گاتے، جھومتے رواں دواں تھے آج اس کی خشک زمین پر نوحے پڑھے جاتے ہیں، ان نوحوں میں سسکیاں بھی ہیں اور بلا کا کرب بھی، اب ان اجڑے پتنوں پر مالی ہیں نہ مسافر، کشتیاں ٹوٹ گئیں، پتوار بکھر گئے بدنصیبی کی ایسی آندھی چلی کہ لوگوں کی فطرت بھی بدل گئی، ملاحوں نے صحراؤں میں پناہ لے لی، صحرا کی ریت نے ماہی گیروں کی آنکھوں کے آنسو جذب کرلئے ہیں، انسان بھیڑیے بن گئے اور بھیڑیے انسانوں سے خوفزدہ ہو کر غاروں میں چھپ گئے ہیں، اب وہ جنگل رہے ہیں نہ وہ جنگلی پھول، نہ وہ سائے اور نہ خوشبو، تتلیاں شاخ در شاخ نوحہ کناں ہیں ۔
مہیب کالی گھٹاؤں نے جگنوؤں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔ آج کے منصور بھی انا الحق کی صدا لگانے سے گریزاں ہیں۔ خوف کے کہرے نے شہر کے شہر بھی برف کے کر دیئے ہیں، اب کیلینڈر نہیں بدلتا، سارے مہینے دسمبر بن گئے ہیں، لفظ اور رویے سرد ہونے لگ گئے ہیں، چہروں پر دسمبر کی شاموں نے اپنا بچھونا ڈال دیا ہے۔ ظلم حد سے بڑھ جائے تو چہرے زباں بن جایا کرتے ہیں۔
ہجوم اب بھی بہت ہے مگر چہرے ختم ہو گئے ہیں، راستوں پہ اور بازاروں میں صرف زبانیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔
اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر صحن میں کھیلتے ہوئے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھا جن کے چہروں پر معصومیت کی بجائے لاتعداد سوالات لکھے نظر آ رہے تھے۔ وقت نے ان کو بھی تہذیب سکھا دی ہے، اب وہ سہمے ہوئے سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہیں اور شرارتیں نہیں کرتے۔
ان کی آنکھوں میں وہی خوف ہے جو ہوا کے دوش پر رکھے چراغ کی لو میں ہوتا ہے۔
ہم نے ان بچوں کو کیا دیا؟؟ اس نے سوچا۔
خوف اور دہشت گردی میں ڈوبا پاکستان، جہاں مائیں بچوں کو سکول بھیج کر خود مصلے پر بیٹھ جاتی ہیں، جہاں باپ اپنے جگر گوشوں کو بھوک میں تڑپتا نہیں دیکھ سکتا اور اپنے گردے بیچ دیتا ہے، اسے لگا جیسے اس کے بچے اس کی طرف دیکھ رہے ہوں اور کہہ رہے ہوں بابا ہمیں ڈالر نہیں چاہئیں، ہمیں سکون چاہئے، ہمیں امن چاہئے۔
کیا ساری دنیا کو میدان جنگ کے لئے ہمارا ہی خطہ نظر آتا ہے۔ ہمیں ڈالر نہیں چاہئیں، ہمارے پرندے ہم سے روٹھ گئے ہیں، اب جگنو ہم سے بات نہیں کرتے ہیں۔ تتلیاں اب ہم سے نہیں کھیلتیں ۔ ہمیں بارود نہیں چاہئے، ہمیں پھول چاہئیں، ہمیں رنگوں سے کھیلنے دو۔ ہمیں کھلونوں سے کھیلنے دو۔ بابا ہمیں سرخ رنگ سے نفرت ہو گئی ہے۔ وہ اپنی سسکیوں کو نہ روک سکا، کیا یہ وہی پاکستان ہے جو جناح نے ہمیں دیا ہے۔
خون میں نہلایا ہوا پاکستان جہاں صرف بے یقینی کا سناٹا پھن پھیلائے بیٹھا ہے، جس کی پھنکار سماعتوں کو متاثر کر دیتی ہے، پھر انسان وہ نہیں سنتا جو کہا جاتا ہے بلکہ وہ سنتا ہے جو نہیں کہا جاتا، اب شیر خوار بچے کی کلکاری، سہاگن کی چوڑیوں کی کھنک ، پھولوں سے لچکتی شاخیں اور پرندوں کی ثنا خوانی کہیں سنائی نہیں دیتی۔ بام و در اداس اور گلیاں ویراں کیوں ہیں؟ کہیں کوئی اہل وفا شہر تو نہیں چھوڑ گیا۔
اس کے ہاتھ اپنے ہی گریبان تک پہنچ گئے۔ جبر اور ظلم کی حکومت… بیعت کرو یا ہجرت ۔۔۔ اس کا سانس بند ہونے لگا۔ کتنی گھٹن ہے۔ اتنا حبس کیوں ہے؟ کہیں سوال کی موت تو نہیں ہو گئی، اگر ایسا نہیں ہے تو اذنِ عام کیوں نہیں ملتا۔ اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اس کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اے رب کائنات ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں، ہماری مدد فرما، ہمیں ڈالروں کے شر سے بچا، ہمارے پاس صرف اپنے گناہوں، اپنی غلطیوں کا اعتراف ہی اعتراف ہے۔
صرف ایک دلیل ہے، صرف ندامت کے آنسوؤں کی یہ دلیل قبول فرما۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے، اس کی بند آنکھیں ندامت کے آنسوؤں سے وضو کر رہی تھیں۔
اور پھر جیسے بھٹکتی روح کو قرار آجائے۔ برکھا کھل کر برسے اور دھوپ نکل آئے اور پھر ندامت کے آنسوؤں کے پانی نے امید کی مٹی میں بوئے خواب کے بیج کو آگہی کی زندگی عطا کی۔
اس نے سرگوشی کی۔
مغرب کا سپر مین نہیں نہیں صرف۔

مشرق کا خوبصورت فاتح۔
اس کے لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نے فتح حاصل کی۔
اس نے بچوں کو آواز دی۔
بچے باپ کی آواز سن کر دوڑے آئے اور باپ کے ساتھ لپٹ گئے۔
بابا ہمیں کیوں بلایا، کیا کوئی ہمیں کہانی سنانی ہے؟
ننھی ندا نے معصومیت سے کہا۔
ہاں بیٹا میں تم تینوں کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔
یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کہانی کی اس دھرتی کو ضرورت ہے۔
اس کہانی کا نام ہے خوبصورت فاتح۔
بچے خاموشی سے بیٹھ گئے اور کہانی سننے لگے۔
بچو!
کسی ملک میں ایک بڑا نیک اور رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا، اس کا دل ملکی حالات اور لوگوں کے رویے دیکھ کر کڑھتا رہتا تھا، ملک میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، جو پڑھے لکھے تھے ان کی زیادہ تعداد بدامنی کے خوف سے دوسرے ملکوں میں منتقل ہو چکی تھی۔
کئی سالوں سے بارشیں بھی بہت کم ہو رہی تھیں، اگر بارشیں ہوتی بھی تو بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا پانی گھر اور فصلیں اجاڑتا سمندر میں جاگرتا تھا، لوگ ہر وقت ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، جن باتوں پر صرف خاموش رہا جاسکتا تھا ان باتوں پر قتل ہو جایا کرتے تھے۔ استحصال زدہ طبقے کو اذن سخن نہ تھا، ہر آدمی ملک کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھتا تھا۔

بادشاہ کو معلوم ہوا اس ملک میں دور جنگل سے ایک سیانا آیا ہوا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے لئے جوق درجوق اس سیانے کے پاس جا رہے ہیں، بادشاہ فوراً اس کے پاس پہنچا اور ملکی حالات پر اس سے مشورہ مانگا۔
بابا یہ سیانے کون ہوتے ہیں۔
دانش نے سوال کیا؟
بابا نے لمبا سانس کھینچا اور بولے۔
بیٹا ! سیانے وہ ہوتے ہیں جن کی پہلی اور آخری ترجیح رب ہوتا ہے، وہ پرانی اور شکستہ قبروں کی پکار بھی سن لیتا ہے۔
بابا ان قبروں سے کیا آواز آتی ہے۔
عمیر نے سوال کیا؟
”یہی آواز کہ کبھی ہم بھی ناگزیر ہوا کرتے تھے۔“
بیٹا یہ سیانے لمبی بات نہیں کرتے، ان کے ایک ہی شعر سے دیوان مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ جانتے ہیں ہر چیز کی زیادتی اس کو بے وقعت کر دیتی ہے۔ افادیت کے لحاظ سے لوہا سونے سے بدرجہا بہتر دھات ہے لیکن اس کی فراوانی ہی اس کی ارزانی کا باعث ہے۔
یہ سیانے فرد ہوتے ہوئے بھی قبیلے کی طرح رہتے ہیں، خاموشی کو آوازوں کا مرشد مانتے ہیں۔ یہ فطرت کے قانون مکافاتِ عمل یعنی جو بوؤ گے وہی کاٹو گے کو جانتے ہیں جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔ سیانے یہ بھی جانتے ہیں جس چیز کو ختم کرنا ہو اس کا تذکرہ نہیں کیا کرتے۔ بدصورتی کو خوبصورتی سے ختم کرتے ہیں، یہ سیانے اپنی زندگی میں مرے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتے ہیں۔

بادشاہ نے اس سیانے سے صلاح و مشورہ کے بعد ملک میں اعلان کیا آج کے بعد کوئی بھی کسی پر تنقید نہیں کرے گا بلکہ ہر آدمی دوسرے آدمی میں خوبیاں تلاش کرے گا اور ہر آدمی روزانہ فطرت کی ایک ایسی خوبصورتی کو تلاش کرے گا جو پہلے لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہے، اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو اسے سزا کے طور پر ایک مہینے کے لئے اس بڑے گڑھے کو کھودنے پر لگا دیا جائے گا جو بارشوں اور دریاؤں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کھودا جا رہا ہے۔

پھر پوری قوم نے اجتماعی توبہ کے بعد اپنے رب سے کامیابی کے لئے دعا کی۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کچھ عرصہ بعد ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہوگیا، بھیڑ اور بھیڑیے ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگ گئے اور بادشاہ اور عوام ہنسی خوشی رہنے لگے۔
مگر بابا اس کہانی میں خوبصورت فاتخ کون ہے؟
عمیر نے سوال کیا؟
بادشاہ اور اس کی عوام۔

وہ کیسے بابا؟ ردا نے سوال کیا۔
بیٹا خوبصورت وہ ہوتا ہے جو دوسروں میں خوبیاں اور خوبصورتیاں تلاش کرے۔
اور بابا فاتح۔
تینوں بچے بیک آواز بولے۔
جو اپنے رویے اور خدمت سے مخلوق کا دل جیت لے۔
بابا یہ فاتح کیسے بنتا ہے؟
بیٹا ! یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آنسوؤں اور مسکراہٹ کی قدر جانتے ہیں، یہ لوگ رات کی تاریکی میں اپنے آنسو اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں اور دن کے اجالے میں اپنی مسکراہٹ کے پھول اس کی مخلوق کے آگے نچھاور کرتے رہتے ہیں۔
عمیر اور دانش جوش سے اٹھے اور بولے۔
بابا آج سے ہم سپر مین نہیں خوبصورت فاتح بنیں گے۔ بابا کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر شکرانے کے۔

Browse More Urdu Literature Articles