Kiya Tajub Hai - Article No. 2361

Kiya Tajub Hai

کیا تعجب ہے؟ - تحریر نمبر 2361

انسان ہمیشہ ہی مختلف مراحل سے گزرتا آیا ہے، جیسا کہ انسان کا بچپن خوابوں کی حسین وادیوں میں سیر ہی کرتے گزر جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں انسان یہ سوچتا ہے کہ جوان ہوتے ہی لاتعداد فتوحات اس کا مقدر ہوں گی

سدرہ کمال ہفتہ 6 جون 2020

انسان ہمیشہ ہی مختلف مراحل سے گزرتا آیا ہے، جیسا کہ انسان کا بچپن خوابوں کی حسین وادیوں میں سیر ہی کرتے گزر جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں انسان یہ سوچتا ہے کہ جوان ہوتے ہی لاتعداد فتوحات اس کا مقدر ہوں گی اور وہ ایسے منفرد کام سرانجام دے گا کہ ہر کوئی حیران و ششدر ہو جائے گا لیکن جیسے ہی انسان بلوغت میں قدم رکھتا ہے دنیا کی جیل میں قیدی کی حثیت اختیار کر کے اپنے وجود کے مقصد کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔
دنیا کی رنگینی اس قدر جاذب نظر ہوتی ہے کہ انسان مگن ہوئے بغیر رہ نہیں پاتا۔پھر جیسے ہی انسان جوانی کو پہنچتا ہے تو لاتعداد فتنے اسے ایسے گھیر لیتے ہیں جیسے میٹھے کو مکھیاں۔ نفسانی خواہشات انسان کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہیں اور حاوی ہو کر انسان کو دنیا کے کھیل تماشے کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

آسائشات کی خواہش انسان کو صحیح اور غلط میں فرق کرنا بھلا دیتی ہے۔


اپنے ارد گرد معاشرے میں نظر دوڑائیں اور مشاہدہ کریں تو پتا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد صحیح اور غلط کی تمیز کو بھلا کر فقط اپنے مفاد کی خاطر ہر حد عبور کرنے کے لئیے تیار ہے۔ اقربا پروری اور کنبہ پروری کے بل بوتے پر دوسروں کے حق پر ڈاکے ڈالنے کا رواج بھی عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بے شمار مسلمانوں کا ایسی خواہشات کے پیچھے بھاگنا جو کہ مسلمانوں کے شایان شان نہیں اور اپنے اصل مقصد کو نظر انداز کر دینا نہایت تشویش ناک ہے۔

اپنے معاشرے کے لوگوں کو سنگین برائیوں سے نکالنے کے لئیے ان کی وجوہات جاننا بہت ضروری ہے۔ تا کہ وجوہات کی بنا پر ان برائیوں سے نکلنے اور دوبارہ سے مسلمانوں کو مقصد کی طرف راغب کرنے کے لئیے اپنا کردا ادا کر سکیں اور مسلمان اپنے اسلاف کے راستوں پر چلتے ہوئے ایک دفعہ پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

مسلمانوں کا اپنے مقصد کو بھول کر دنیا کی رنگینی میں کھو جانے کی بے شمار وجوہات ہیں۔
مختلف برائیوں اور فتنوں میں پھنسنے کی ایک بہت بڑی وجہ اسلامی قدروں سے دوری ہے۔ مسلمانوں نے اپنی روایات کا قتل کر کے فرنگی کے اسلوب کو اپنانے کو ترجیح دی اور نتیجتا زلت و رسوائی مقدر ٹھہری۔ کیونکہ انسان جب اپنی روایات کو بھول کر اغیار کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہوتا ہے تو ناکامی،بربادی،بے سکونی اور بے قراری اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔

انسان جب اپنی سنہری روایات اور تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈال کر غیر کی روایات کی غلامی اختیار کرتا ہے تو پھر اس کی ساری زندگی غلامی کی زنجیروں میں ہی گزر جاتی ہے۔ہم مسلمان بھی سرحدی طور پر آزاد تو ہو گئے لیکن ہمارے ذہن ابھی بھی غلامی کا شکار نظر آتے ہیں۔کفر نے مختلف سازشوں کے تحت مسلمانوں کی سوچ کو مفلوج کر کے اپنے جال میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔
جیسے سوشل میڈیا کے بے جا استعمال نے سہل پسندی اور سستی کی عادت ڈال دی ہے، نت نئے نظام فیس بک، انسٹاگرام، لنکڈان، ٹویٹر وغیرہ کو متعارف کروا کے ذہنی طور پر معذور کر دیا گیا ہے۔ پہلے مسلمان اپنے فارغ اوقات میں غوروفکر کرتے تھے لیکن اب سوشل میڈیا کے استعمال نے غوروفکر کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیا ہے۔ یوں مسلمان دن بدن کفر کے پھلائے ہوئے فتنوں میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔
ان فتنوں میں پھنسنے کی وجہ سے مسلمان دن بدن عیاشی کا شکار ہو رہے ہیں اور بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے۔ جو مسلمان ان فتنوں کا بری طرح شکار ہو جاتے ہیں وہ اپنی برہنہ سوچ کو چھپانے کی خاطر پیسے کی دوڑ میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔کبھی شہرت کی ہوس لئیے منظر میں نمایاں نظر آنے کو ترجیح دیتے ہیں توکبھی نفس کی تسکین کی خاطر بے حیائی کی ہر حد عبور کر جاتے ہیں اور کبھی نفس کے دھوکے میں آ کر خود کو ایسے وبال میں مبتلا کر لیتے ہیں کہ جس سے جان چھڑوانا مشکل ہو جاتا ہے۔
ان فتنوں میں وہ مسلمان ملوث ہوتے ہیں جنہیں عیش و عشرت کی لت لگ جاتی ہے۔ یہ خود دانستہ طور پر برائی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر اس قدر برائیوں کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں کہ دستبردار ہونا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔کیونکہ عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی اغیار کی سوچ کو اپنے اوپر حاوی کر لینا اور خود متحرک ہونے کی بجائے ایک جگہ منجمد ہو جانا، اپنے آپ کو خود برائی میں ملوث کرنے کے مترادف ہے۔
انہی برائیوں کی وجہ سے حالات دن بدن پسماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال پوری قوم کا مقروض ہونا ہے۔ انہی قرضوں کی وجہ سے حکومت کا سر اٹھا کر بات کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اتنی پسماندگی اور ذلت کے باوجود اگر مسلمان اب بھی نا سنبھلے تو نتیجہ بہت بھیانک ہو گا۔
سنبھلنے کے لئیے علم اور عقل کا استعمال نہایت ضروری ہے۔ جس دن مسلمانوں نے اپنی حقیقت کو پہچانتے ہوئے اور عقل سلیم کو استعمال کرنا شروع کر دیا اسی دن سے ہی انقلاب برپا ہونا شروع ہو جائے گا۔
انقلابی سوچ کی بدولت مسلمان پھر سے کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں شکست کا ڈیرا ہو جیت بھی وہیں سے نمودار ہو جایا کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس قوم کے افراد زوال کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں عروج کی داستانیں بھی وہیں پر پائے جانے والے کردار رقم کرتے ہیں۔جیسا کہ اس پرفتن دور میں آج بھی ایسے روشن ستارے موجود ہیں جو کالے بادلوں میں سے بھی اپنی روشنی کے آثار سے امید کی کرن کو جنم دیتے ہیں۔
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جگنو بن کر تاریک جنگل میں بھولے، بھٹکے مسافروں کو منزل کی طرف لے جانے میں اہم کرداد ادا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ہر فرد اپنی اہمیت کو پہچانتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے اور نا صرف خود کو برائیوں سے نکالے بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی اصلاح کی بھی فکر کرے تا کہ مسلمان مستحکم ہو سکیں۔ مستحکم ہونے کے لئیے ہر کسی کو اپنے حصے کی شمع جلانی ہو گی اور جو لوگ بغیر کسی سہارے کے اپنے چھوٹے سے وجود کے ساتھ روشنی پھیلانے کے لئیے دن رات مگن ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جو مشکل گھڑیوں میں بھی قوم کو منزل کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔


پروانہ اور زوق تماشائے روشنی
کیڑا زرا سا اور تمنائے روشنی

اب بہت امید کے ساتھ ہر بات کو ایک طرف رکھ کر اگر میں معاشرے کے لوگوں کو بجھے ہوئے چراغوں میں تیل ڈالنے کا کہوں تو کیا تعجب ہے؟؟

Browse More Urdu Literature Articles