Lahori Mahwaray O Aye - Article No. 912

Lahori Mahwaray O Aye

لاہوری محاورے۔۔۔اوہ آئے - تحریر نمبر 912

کہنے لگے ایک لاہوری ادیب سے گفتگو ہورہی تھی کہ اختلاف کا پہلو ظاہر ہوا تو کہنے لگے آپ تو میٹر ہوگئے ہو اب آپ ہی فرمائیے کہ یہ میٹرہونا کیا ہوتا ہے۔

بدھ 17 جون 2015

مستنصر حسین تارڑ:
ہندوستان کے ایک مسلمان ادیب کسی سلسلے میں لاہور تشریف لائے بیشتر ادبیوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں کسی نے اپنے ادب سے انہیں متاثر کیا کسی نے طرح طرح کے کھانوں سے اور کسی نے اپنے گھر کی زیبائش سے موصوف آئے تین روز کے لئے تھے مگر تین ہفتوں کے بعد گئے اور بڑی مشکل سے گئے تھے ان کانام بھولتا ہے کیونکہ معروف ادیب نہیں تھے چونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ادیب ہوا کرتے ہیں اس لئے ہم نے مان لیا اور ان کے اس بیان پر باہمی دوستی اور بھائی چارے کے رشتوں کو فروغ دینے کی خاطر شک نہیں کیا۔
بہرحال آنجناب اگلے برس پھر آدھمکے اس دوسری آمدپر مجھ سے بھی ملاقات ہوگئی اور باہمی دلچسپی کے امور پر سیر حاصل گفتگو ہوئی میں نے پوچھا اگر لاہور میں کسی قسم کی کوئی تکلیف ہوتو مجھے یاد کیجئے کہنے لگے ابھی یاد کیے لیتا ہوں مجھے بے حد تکلیف ہے ۔

(جاری ہے)

میں نے پوچھا کس قسم کی ؟کہنے لگے زبان کی تکلیف ہے میں نے تشویش کا اظہار کیا اور کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیلوہ تبسم فرما کر بولتے نہیں صاحب میری زبان میں تکلیف نہیں ہے دراصل لاہوری حضرات جواردو بولتے ہیں ۔

اس کو سمجھنے میں مجھے وقت ہوتی ہے میں نے عرض کیا کہ حضورادھر کی اردوقدرے مختلف ہے بلکہ خاصی مختلف ہے لاہور یا پاکستان کے دیگر شہروں میں بولی جانے والی اردوکا ناک نقشہ آپ کی لکھنوی اردو سے جدا ہے کہنے لگے نہیں نہیں اردو تو تقریبأٴ وہی ہے لیکن اہل لاہور کچھ تراکیب کچھ الفاظ ایسے استعمال کرجاتے ہیں کہ میرے پلے کچھ نہیں پڑتا کراچی میں مجھے زیادہ وقت نہیں ہوئی بلکہ ان کی اردو سن کر مومن اور میرکی یادتازہ ہوگئی ہء کیا محاورہ ہے صاحب اور ہر محلے ہر گلی کا الگ ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اس لاہوری انداز کی اردو میں کوئی خاص لفظ جو آپ کو تکلیف دیتا ہے؟
کہنے لگے ایک لاہوری ادیب سے گفتگو ہورہی تھی کہ اختلاف کا پہلو ظاہر ہوا تو کہنے لگے آپ تو میٹر ہوگئے ہو اب آپ ہی فرمائیے کہ یہ میٹرہونا کیا ہوتا ہے۔
اب میں انہیں کیا بتاتا کہ میٹر ہونا کسے کہتے ہیں ۔بہرحال بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ لاہورکی اردو میں مستعمل چند خصوصی الفاظ اور محاوروں کی تشریح کردی جائے تاکہ عوام الناس جو دوسرے ملکوں یادوسرے شہروں سے آتے ہیں پریشان نہ ہوں اور اہل لاہور کی زبان دانی کو بہتر طریقے پر سمجھ سکیں مشتے ازخروارے والا معاہلہ ہے تو ملا خطہ فرمائیے۔

(1) میٹر ہانا کسی زمانے میں اس حالت کو پیچ ہونا کہا جاتا تھا لیکن ان دنوں چونکہ ہر طرف میٹروں کا دور دورہ ہے اس لئے اس لفظ کو قبول کر لیا گیا۔رکشا میٹر گیس میٹر بجلی اور بے شمار قسم کے میٹر ہماری زندگیوں میں چلتے رہتے ہیں ہم ان پر جھکتے ہیں اور ریڈنگ دیکھتے ہیں اور پھر لخلخے سونگھتے ہیں اگر مناسب قسم کا لخلخہ دستیاب ہوتو میٹر ہر وقت چلتے رہتے ہیں یا یوں کہئیے گھومتے رہتے ہیں رکشا کھڑا کر دیجئے گھر کی تمام روشنیاں بند کر دیجئے آگ بجھا دیجئے پانی بند کر دیجئے لیکن ان کے میٹر چلتے رہیں گے اور انہیں دیکھ دیکھ کر عوام الناس خود بھی تھوڑے سے میٹر ہوجاتے ہیں جو زیادہ میٹر ہوجاتے ہیں وہ مینٹل ہاسپٹل کارح کرتے ہیں ۔
یاغریزواقارب زبردستی پکڑ کر ان کا رخ ادھر کر دیتے ہیں لاہور میں یہ محاورہ عام ہے اندرون شہر ایک صاحب اپنے دوست کے والد کی وفات پر تغریت کرنے گئے ان کی فوتیدگی کا سبب پوچھا تو دوست نے بتایا کہ ویسے تو بیمار بھی تھے لیکن آخری عمر میں والد صاحب تھوڑے سے میٹر ہوگئے تھے مجھے امید ہے کہ اس محاورے کا مطلب سمجھ میں آگیا ہوگا اگر نہیں آیا تو معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ بھی میٹر ہیں۔

(2) جگر ہونا اہل لاہور چونکہ کھانے پینے کے بے حدشوقین ہیں بلکہ شیدائی ہیں اس لئے یہ محاورہ عام ہوا اس کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ اہل لاہور بکروں مرغوں اور بھینسوں وغیرہ کا گوشت کھا جاتے ہیں ان کی ٹانگیں کھو پریاں مغز گردے کپورے وغیرہ سب کھاجاتے ہیں اور اگر نہیں کھاتے توا ن کا جگر نہیں کھاتے چنانچہ جب وہ کسی دوست کو رزیزازجان ثابت کرنا چاہتے ہوں تو کہتے ہیں کہ اوئے وہ تو ہمارا جگر ہے۔
یعنی اتنا عزیز ہے کہ ہم تو اسے کھا بھی نہیں سکتے البتہ کچھ ناعاقبت اندیش حضرات اس محاوارے کا بیدریغ استعمال بھی کرتے ہیں اور ان میں سے ایک راشد رانا صاحب ہیں آپ ان کے ساتھ گوالمنڈی یا انارکلی کی طرف نکل جایئے ہر قدم پر رکیں گے دانت نکال کر کسی نہ کسی ریڑھی والے پان فروش سے دکاندار سے راہ گیرے بغل گیر ہوں گے۔خیر خیریت دریافت کریں گے اور پھر آگے چلیں گے۔

”آپ پوچھئے یہ کون تھا؟
”اپنا جگرہے جواب آئے گا۔
”اور یہ صاحب کون ہیں؟
”یہ بھی جگر ہیں “
اور یہ ؟
”جگر“
”اوریہ ہوتے کون ہیں؟
”پتہ نہیں“
”ان کا نام کیا ہے؟
”پتہ نہیں “
”تو پھر اتنے پرمسرت انداز میں بغل گیر کیوں ہورہے تھے۔
”جگر جوہوا“
(3) ہیرا ہونا یہ خاصا پیچدار محاورہ ہے اتنا آسان نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے ہیرا جیسا کہ آپ جانتے ہیں بہت قیمتی چیز ہوتا ہے اور اہل لاہور بھی اسے تقریبأٴ انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جب تک حوالے کے ساتھ بات نہ کی جائے صورت حال واضح نہیں ہوسکتی مشلأٴ ․․ایک بڑی ماں رشتے کے لئے آئی ہوئی ایک خاتون کو اپنے برخودار کے بارے میں کچھ اس طرح بتائیں گی۔
بھولے جیسا لڑکا آپ کو کہیں نہیں ملے گا ٹھیک ہے ابھی کام پر نہیں لگا پر پھر بھی دہاڑی بنا لیتا ہے محلے میں کوئی لڑائی جھگڑا ہو تو صلح یہی کراتا ہے کھنے سیک دیتا ہے سب کے نشہ پانی بالکل نہیں کرتا مجھے اس نے خود بتایا ہے کہ نہیں کرتا محلے والوں کا کیا ہے وہ تو کہتے ہی رہتے ہیں جواکھیلنے کی عادت توشادی کے بعد خود بخود ٹھیک ہوجائے گی یوں سمجھیں کہ میرا بیٹا ہیرا ہے ہیرا۔
اسی طرح متعدد بارفیل ہونے والے طالب علموں کو بھی ہیرا کہا جاتا ہے۔
(4) اوہ آئے اسے آپ محاورہ نہیں کہہ سکتے بلکہ جذبات کافوری اور خوبصورت اظہار کہہ سکتے ہیں اگر آپ کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور کوئی اور صاحب وہاں تشریف لائیں تو اکثر نعرہ لگتا ہے کہ وہ آئے یہ کوئی نہیں بتایا کہ کون آئے،مختلف شخصیات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف انداز میں کہا جاتا ہے اگر قریبی دوست آتا ہے تو بلند آواز میں اوہ آئے کے نعرے لگتے ہیں ۔
اگر آنے والا شخص قدرے ناپسندیدہ ہے تو سر گوشی کے انداز میں اوہ آئے والد صاحب آئیں تو ڈرتے ہوئے اوہ آئے“
اور اگر پولیس آجائے تو بھاگتے ہوئے اوہ آئے“
(5) بھاجی یہ لفظ لاہوریوں کے اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہے موقع بے موقع استعمال ہوتا ہے اور گفتگو کا سنگار ہے مثلأٴ ایک صاحب اپنے پورے دن کی تفصیل کچھ یوں بیان کریں گے بھاجی صبح دہی کلچے کا ناشتہ کر کے گھر سے نکلا ہٹی پر پہنچا بھاجی وہاں بازار میں گڑ بھاجی کھلاہوا میں نے خاکروب کو بلا کر کہا بھاجی اس کی صفائی کرو بھاجی نے صفائی کی تودم میں دم آیا شام کو بھاجی آپ کی بھاجی نے کہا کہ پکچر دیکھنی ہے میں نے اس سے کہا کہ بھاجی ․․وغیرہ وغیرہ۔

(6) کنگھا کردینا اور چوچا ہوجانا یہ دونوں محاورے ہمیں کنگھی اور چورنے کی یاد دلاتے ہیں نہایت مفید محاورے ہیں اور خاص طور پر بین الاقوامی سیاست کی گتھیاں انہیں استعمال کرنے سے سلجھائی جاسکتی ہیں مثال کے طور پر مندرجہ ذیل گفتگو ملا خطہ فرمائیے۔
”اوئے فیقے اوئے روس کا صدرسنا ہے فوت ہوگیا ہے اس کا تو کنگھا ہوگیا“
”کنگھا تو پترامریکہ کا بھی ہوگیا ہے ان کا صدربھی بیمار ہے روس تو چوچا ہوگیا ہے امریکہ کے سامنے․․وہ کیسے چوچا تو امریکہ ہوا ہے اس کے سامنے بولتا ہی نہیں “
”پتہ ہے کیا یہ دونوں ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے سامنے چوچے ہوگئے ہیں اندرسے دونوں جگر ہیں مل ملا کے کنگھا ہمارا کردیتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ میری اس گرانقدرعلمی اور تحقیقی کا وش سے بہتوں کا بھلا ہوگا اور باہر سے آنے والوں کو اب لاہور یوں کی اردو سنتے ہوئے تکلیف نہیں ہوگی محاورے تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن میری گھر والی بھاجی اس وقت میٹر ہورہی ہے کہ جاؤ جاکر بازار سے سبزی گوشت لے کر آؤ اور ہم اس کے سامنے چوچے ہورہے ہیں نہ ہوں تو وہ ہمارا کنگھا کر دے بھاجی اسے پتہ ہی نہیں کہ ہم جیسا ہیرا خاوند اسے کہیں نہیں ملے گا خدا حافظ بھاجی۔

Browse More Urdu Literature Articles