Maeli Banyan - Article No. 1433

Maeli Banyan

میلی بنیان - تحریر نمبر 1433

یہ مائیں بھی کتنی ظالم ہوتی ہیں، محبت کا ایک معیار قائم کرکے اور اولاد کو اِن کا عادی بنا کر خود مٹی کا کمبل اوڑھ کر کبھی نہ جاگنے کے لیے سو جاتی ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی پیر 14 اگست 2017

یہ مائیں بھی کتنی ظالم ہوتی ہیں، محبت، اخلاص، ایثار اور قربانی کا ایک ایسا معیار جو سمندر سے گہرا اور ہمالیہ سے بلند ہوتا ہے، قائم کرکے اور اولاد کو اِن کا عادی بنا کر لوری گنگناتے ہوئے خود مٹی کا کمبل اوڑھ کر کبھی نہ جاگنے کے لیے سو جاتی ہیں اور انسان اسی معیار کو پانے کے لیے جس کا وہ عادی ہو چکا ہوتا ہے زندگی کے صحرا کی خاک چھانتا ہے مگر اس محبت، اخلاص، ایثار اور قربانی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر پاتا اور پھر محرومیوں کے صحرا میں آہوں کی ریت پر اپنے خون کے آنسوؤں سے کئی داستانیں لکھتا ہے مگر وقت کی سرخ آندھی اُسے پڑھے بغیر مٹا دیتی ہے۔

گاؤں میں ہمارا چھوٹا سا گھر بہت خوبصورت تھا، یہ ان کچی اینٹوں کا بنا ہوا تھا جو آگ کے جہنم سے ناآشنا تھیں شاید اسی لیے میں نے اپنے گھر میں کبھی نفرت کی آگ نہیں دیکھی، اس کا آنگن شیشم اور بیری کے درختوں اور ان پر لٹکتے گھونسلوں سے سجا ہوا تھا، فطرت بھی کیا چیز ہے۔

(جاری ہے)

میں ادب کا طالب علم ہوں مگر زندگی میں آج تک قوس قزح سے اچھی غزل، دریا سے زیادہ خوبصورت افسانہ، درخت سے زیادہ شاہکار نظم اور سمندر سے زیادہ دلچسپ ناول کبھی میری نظر سے نہیں گزرا۔

اس گھر کی راہداری ہمسایوں، گاؤں والوں اور مہمانوں کے قدموں سے ہر لمحہ آباد رہتی تھی۔ اس گھر کی منڈیر پر بیٹھا کوا جب کائیں کائیں کرتا تو میری ماں خوشی سے جھومتے ہوئے سوچنے لگ جاتی کہ آج کون سا مہمان آئے گا۔ میرا دادا کہتا تھا جس منڈیر کو چپ لگ جائے وہ گھر نہیں رہتا مکان بن جایا کرتا ہے اور مکان صرف مکڑی کے جالوں کے لیے بنا کرتے ہیں۔
میرے اندر کے موسموں میں ماضی کا جون جب بھی آتا ہے میرے اندر یادوں کی گرم لو چلنے لگتی ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ، انتہائی کمزور مگر ہر لمحہ مسکراتا میرا باپ، جس کی آنکھیں ہمیشہ نیند کی مہک میں لپٹی اور سراپا کردار کی خوشبو سے مہکتا رہتا تھا، مجھے اپنے حصار میں لے لیتا ہے، میں جب بھی اس سے اپنا خیال رکھنے کا کہتا تو وہ مسکراتا اور میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھ کر میری آنکھوں میں جھانک کر وہ مسکراتا اور کہتا تنویر پتر تعمیر اور تخریب کا فلسفہ بھی عجیب ہے، رُوح کو آباد کرو تو جسم اُجڑ جاتا ہے، جسم کی تعمیر میں روح تخریب کا شکار ہو جاتی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے سکھ انسان کو مکمل خوشی نہیں دے سکتا اسی لیے سوز کی آنچ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، مغرب کا مست ہاتھی طاقت کے نشے میں سکھ ہم سے چھین کر لے گیا مگر سوز کی دولت کو نہ چھین سکا کیونکہ سوز کی آنچ کے لیے جس آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُن پودوں کے پاس ہے جو صرف مشرق کی مٹی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ میرے باپ نے مجھے کبھی نصیحت نہیں کی، اُس کے خیال میں باعمل کا کردار ہی نصیحت ہے اور بے عمل کی نصیحت اثر سے خالی ہوتی ہے۔
میرے بے حد اصرار پر انہوں نے صرف ایک ہی نصیحت کی جس پر میں نے آج تک عمل کیا مگر برسوں اس نصیحت کے پیچھے جو حکمت تھی اس پر سوچتا رہا، اُن کی نصیحت تھی تنویر پتر زندگی میں کبھی میلی بنیان نہ پہننا۔ میرا اوراس کا تعلق بھی عجیب تھا، خستہ دیوار کے ساتھ لٹکے ہوئے جالوں کی طرح اُس کا وجود آبادی سے دور جنگل کے قریب ویران، مدتوں سے بے آباد بنگلے کی طرح تھا جس کے بوسیدہ کواڑوں پر خاموشی دستک دے رہی ہو، جس کے صحن میں لگے بوڑھے برگد کے بازوؤں کی طرح لٹکتی شاخوں پر بڑی بڑی چمگادڑیں اُلٹا لٹکی اپنے مقدر کی سیاہی پر ماتم کر رہی ہوں اور جس کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں رات کے کیچڑ میں لت پت اونگھ رہی ہوں اور ایک موٹی کالی بلی اُن میں سے کود کر موت کے سے سکوت کو توڑ ڈالے اور جس کے بارے میں لوگ سرگوشیوں میں ہر آنے والے اجنبی کو دور سے اشارہ کرکے بتاتے ہوں کہ یہ بنگلہ آسیب زدہ ہے اور یہاں ماتم کرتی ہوئی روحوں کا بسیرا ہے۔
ہم زندگی کے دریا میں Status کی الگ الگ کشتیوں کے مسافر تھے، جہاں میری سوچ ختم ہوتی تھی وہاں سے اس کا معیار زندگی شروع ہوتا تھا، میں ایک معمولی کسان کا بیٹا تھا اور اس کے والد کی فیکٹریوں کا کوئی شمار ہی نہ تھا۔ مگر مجھے نہ جانے یہ کیوں لگتا تھا ہماری منزل ایک ہی ہے، مجھے اعتراف ہے میں اس سے بے حد محبت کرتا ہوں، شاید محبت بھی اعتراف کا ہی دوسرا نام ہے، مجھے نہیں معلوم اسے مجھ سے محبت تھی یا نہیں، صرف ایک دن مجھے لگا کہ شاید اس کے دل میں بھی میرے لیے کچھ جگہ ہے جب اچانک ایک دن اس نے بیٹھے بیٹھے مجھ سے سوال کر دیا: تنویر چودھری یہ محبوب کون ہوتا ہے؟ عاکفہ! محبوب وہ ہوتا ہے جس سے جیت کر دُکھ اور ہار کر خوشی ہو، اُس کے رخسار اور سرخ ہوگئے، میں نے اسے اس دن پہلی بار غور سے دیکھا تھا۔
اُس کے دودھ چہرے پر چاندنی چمک رہی تھی، اس کی سیاہ لمبی لمبی زلفیں حیا کے آنچل میں سمٹی ہوئی تھیں، اُس کی نیلی آنکھوں کی جھیل میں خواب تیر رہے تھے اور اس کی پلکوں کی سکھیاں جھولا جھول رہی تھیں۔ میری زندگی بہت سادہ تھی، یہ صرف چار چیزوں کا مرکب تھی، میرے کھیت، کتاب، باغ جناح اور عاکفہ۔ میری زندگی کا ایک ہی المیہ تھا کہ مجھے سمجھوتا کرنا نہیں آتا تھا، مجھے منافقت سے شدید نفرت تھی۔
میں چاہتے ہوئے بھی جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ میرے دل و دماغ اور زبان ایک ہی منزل کے مسافر تھے۔ عاکفہ سے ملنے کے بعد مجھ پر انکشاف ہوا Compatibility دوستی کے لیے ضروری ہے مگر محبت کے لیے نہیں، محبت وہ آسمانی تقسیم ہے جو دو لوگوں میں بانٹی جاتی ہے، پھر اس تقسیم کا علم کبھی ایک کو اور کبھی دونوں کو دے دیا جاتا ہے۔ عاکفہ کی ذات کے ساتھ کئی المیے وابستہ تھے، اس کا والد ہر وقت دولت میں اضافہ کرنے کے لیے کوشاں رہتا تھا، اُس کو رشتوں اور محبت سے زیادہ دولت عزیز تھی، وہ ہیروں کی تلاش میں پتھر کا ہو چکا تھا، جن بچوں کے والدین اپنے بازو اپنے بچوں کے سر کے نیچے سے ہٹا لیں پھر اُن سروں کے نیچے سوال آ جاتے ہیں۔
ایک دن کہنے لگی: تنویر! میں نے اپنی زندگی میں اتنے سمجھوتے کئے ہیں کہ مجھے اپنا اصلی روپ بھی یاد نہیں، تم صحیح کہتے ہو سمجھوتہ موت کے اجزاء میں شامل ہے۔ مجھے اس چیز کے بھی چھن جانے کا خوف رہتا ہے جو چیز میرے پاس ہی نہیں۔ خوفِ زیاں کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے، مجھے لگتا ہے جیسے میں کسی بہروپ نگر کی شہزادی ہوں۔ اعمال بے ذائقہ اور کبھی کبھی کڑوے بھی لگتے ہیں۔
جھوٹ کا احساس ختم ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کوئی مجھ سے فیصلوں کا اختیار چھین لے۔ کبھی لگتا ہے یہ آندھیوں کا موسم ہے اور میں ایک پر کٹی چڑیا ہوں، کبھی مجھے لگتا ہے میں وہ دیا ہوں جو ہواؤں کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہے۔ مجھے سفر کے اُفق پر لفظ لا حاصل لکھا نظر آتا ہے۔ صبح ہوتی ہے تو شام کو بھول جاتی ہوں اور شام کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کبھی صبح بھی ہوئی تھی۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں شفاف جھیل میں تیرتا ایک سفید گلاب ہوں اور کبھی مجھے خود سے بھی گھن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ تنویر چودھری! میری زندگی میں اتنے تضادات کیوں ہیں۔ تمہاری زندگی تضاد کا شکار کیوں نہیں، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میری زندگی میں تمہارا کوئی کردار نہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے تم میرے لیے آکسیجن کی طرح ہو۔ کبھی کبھی میں ماضی میں بہت دور نکل جاتی ہوں، تاریخ میری آنکھوں میں رقص کرنے لگتی ہے۔
کل رات میں خواب میں ہسپانیہ پہنچ گئی، وہاں میں نے جامعہ قرطبہ کو دیکھا جس کے داخلی دروازے پر لکھا تھا دنیا صرف چار چیزوں پر قائم ہے۔ عالموں کا علم، اکابر کا عدل، عابد کی عبادت اور بہادروں کی شجاعت۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ سچ ہے؟ کیا دنیا واقعی ان چار چیزوں پر قائم ہے، اگر ایسا ہے تو پھر ہم محبت کو کہاں رکھیں گے؟ کیا محبت کا وجود بے معنی ہے؟ کیا زندگی کے صحرا میں محبت کے گلشن کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا نخلستان کے بغیر صحرا مکمل ہوتا ہے؟ مجھے معلوم ہے تنویر میرے سوالوں کا جواب صرف تمہارے پاس ہے، تمہارے پاس اتنا علم کہاں سے آیا، کہاں سے یہ سارا کچھ سیکھا، حالانکہ ہماری تعلیم تو ایک ہی ہے۔
دیکھو عاکفہ میں نے آدھا علم اپنے باپ سے، کتابوں سے، اُستادوں سے سیکھا اور باقی آدھا ایک پرانی شکستہ قبر کے کتبے سے، میرا باپ بہت بڑا انسان تھا، ایک دفعہ میں اور میرا باپ گاؤں میں کھیت کے ساتھ بنی پگڈنڈی پر جا رہے تھے کہ اُس کی جیب سے پیسے گر گئے، میں نے جھک کر اُٹھانا چاہے مگر میرے باپ نے منع کر دیا حالانکہ اُن دنوں ہمارے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے، کہنے لگا پتر دولت جیسی گھٹیا چیز کے لیے جھکا نہیں کرتے، عاکفہ یہ دُنیا اِن چار چیزوں پر نہیں محبت پر قائم ہے۔
محبت کے بغیر اس دُنیا کا قصہ اُن تین دوستوں کا ہے جن کو سفر کے دوران اشرفیوں کی ایک تھیلی ملی، انہوں نے لالچ میں آ کر ایک دوسرے کو مار ڈالا اور اشرفیوں کی بھری تھیلی وہیں کی وہیں رہ گئی۔ عاکفہ! زندگی میں رویے بہت اہم ہوتے ہیں، رویے ہی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں، یہ رویے جن پر شخصیت کی عمارت استوار ہوتی ہے نہایت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنتے ہیں۔
مجھے پندرہ سال بعد معلوم ہوا میں ایسا کیوں ہوں، میری زندگی منافقت، جھوٹ اور تضاد سے دور کیوں ہے، یہ بات میرے باپ نے سفر آخرت شروع کرنے سے چند گھنٹے پہلے بتائی جو میں پندرہ سال تک سوچتا رہا تھا۔ جس رات وہ ہم سے جدا ہوئے اس شام کو ساون کی پہلی بارش نے ہسپتال کے سارے شیشے بھگو دیے تھے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور پیار سے بولے پتر مجھے پتہ ہے تم پندرہ سال سے ایک الجھن کا شکار ہو، میری زندگی کا چراغ گل ہونے میں زیادہ وقت نہیں ہے، اجل کی آندھی کو میں اپنی طرف آتا دیکھ رہا ہوں، تمہیں یاد ہوگا تمہارے بے حد اصرار پر میں نے پندرہ سال پہلے تمہیں ایک ہی نصیحت کی تھی کہ زندگی میں کبھی میلی بنیان نہ پہننا۔
پتر زندگی میں رویے بہت اہم ہوتے ہیں، یہ شخصیت کی عمارت کی تعمیر کرتے ہیں۔ میلی بنیان پہننا ایک رویے کا نام ہے، یہ اگرچہ دوسروں کو نظر نہیں آتی مگر تمہارے کردار کی سچائی اور شخصیت کو جھٹلا کر تمہارے اندر دوہری شخصیت پیدا کر دے گی اور پھر تم جھوٹ کو اپنائے عمر بھر تضاد اور منافقت کا شکار رہو گے۔ جھوٹ حرام سوچوں کو جنم دیتا ہے اور حرام سوچیں داشتاؤں کو جنم دیتی ہیں۔
رزق حرام جزوِ بدن بن کر انسانی جینز میں منفی خصائص پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ رزق حرام صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ آنے والی نسلوں تک اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ رزق حرام شخصیت کی کیمسٹری تبدیل کر کے انہیں قصرِ مذلت میں گرا دیتا ہے، رزق حرام کھانے والا راجہ گدھ بن جاتا ہے اور حرام سوچیں انسان کو شاہ گدھ بنا دیتی ہیں۔ اور جس دن میری محبت نے مجھے اپنا ہم سفر بننے کا اعزاز بخشا تو میں نے اُس سے پوچھا اس بڑے فیصلے میں تمہاری کوئی شرط ہے؟ عاکفہ مسکرائی اور زمین کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتے رہنا اور کبھی میلی بنیان نہ پہننا۔

Browse More Urdu Literature Articles