Mah Sayam Ke Faraiz Aur Hamara Dikhawa - Article No. 2348

Mah Sayam Ke Faraiz Aur Hamara Dikhawa

ماہ صیام کے فرائض اور ہمارا دکھاوا - تحریر نمبر 2348

بیٹا مجھے زکوة کے پیسے اور سامان غریبوں میں بانٹتے ہوئے کچھ تصاویر بنانی ہیں تاکہ فیس بک اور واٹس اپ پر شئیر کر سکوں۔ شاہ میر شان سے بولا

ڈاکٹر راحت جبین ہفتہ 23 مئی 2020

شاہ میر دن بہت تیزی سے گذر رہے ہیں۔آج رمضان کو پانچ دن ہوگئے ہیں آ پ کب زکوة کی رقم کب تقسیم کریں گے؟ فضیلہ نے اپنے شوہر سے پوچھا کل انشاء اللہ ضرور دونگا دارالامان والوں سے بات ہو گئی ہے۔ تم بھی ساتھ چلو گی کیا؟ شاہ میر نے پوچھا نہیں مجھے بہت سے کام ہیں آپ شرجیل کو ساتھ لے جائیں۔ اور ہاں ساتھ والے سپر سٹور سے پیکیج میں مختلف قسم کے راشن سستے داموں دستیاب ہیں۔
آپ وہاں سے کچھ راشن بھی لے کر جائیں۔ فضیلہ نے تاکید کی ٹھیک ہے سامان میں آج ہی خرید کر گاڑی میں رکواؤں گا۔وہ بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن وہ تیار ہو کر نکلا۔ بڑے بیٹے شرجیل کو بھی ساتھ لیا جو کہ آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔ شاہ میر نے رات کو ہی اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر لفافوں میں ہزار ہزار کے نوٹ رکھ لئے۔

(جاری ہے)

شرجیل بیٹے تمہارا موبائل ساتھ ہے؟شاہ میر گویا ہوا جی ابو، مگر آپ موبائل کا کیوں پوچھ رہے ہیں؟ بیٹا مجھے زکوة کے پیسے اور سامان غریبوں میں بانٹتے ہوئے کچھ تصاویر بنانی ہیں تاکہ فیس بک اور واٹس اپ پر شئیر کر سکوں۔

شاہ میر شان سے بولا ابو کیا آپ کا موبائل خراب ہے؟ شرجیل نے استفسار کیا نہیں مگر تمہارے موبائل کا رزلٹ بہت اچھا ہے۔ اس لئے کہا۔ گاڑی دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔دارلامان کے سامنے آکر گاڑی رک گئی۔ چوکیدار نے ا نٹر کام کے ذریعے انچارج کو اطلاع دی کہ شاہ میر صاحب آئے ہیں انہیں اندر لائیں۔ اندر سے آواز آئی چلیں میڈم آپ کو اندر بلا رہی ہیں۔
چوکیدار بولا شاہ میر اپنے بیٹے کے ہمراہ چوکیدار کے پیچھے چلتا ہوا آفس میں آیا۔ سامنے کرسی پر ہلکے گلابی رنگ میں ملبوس تیس سال کی ایک عورت بیٹھی تھی۔ اسلام علیکم شاہ میر صاحب آئیں بیٹھیں۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی وعلیکم اسلام شکریہ۔ کیا آپ سے فون پر میری بات ہوئی تھی؟ شاہ میر نے پوچھا جی سر آپ کے فون کے بعد یہ میں نے ساری عورتوں کو ہال میں بٹھا دیا ہے بس آپ کا انتظار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے لمحے وہ ہال میں موجود ہے جہاں بیس بائیس کے قریب عورتیں اپنی غریبی اور مجبوری کی تصویر بنے ادب سے کھڑی تھیں۔ ہر ایک کے چہرے پر مجبوری کی کوئی نہ کوئی داستان رقم تھی۔ شاہ میر نے ایک متکبرانہ نظر ان عورتوں پر ڈالی اور انچارج سے مخاطب ہوا آپ ایک ایک کا نام لے کر بلائیں۔ شرجیل بیٹا آپ ہر ایک ساتھ میری تصویر بنانا اور ہاں ایک دو کو آپ پنے ہاتھ سے لفافے دینا۔
شاہ میر نے ہدایت کی جی ابو۔شرجیل نے تا بعداری سے جواب دیا ثمینہ، سائرہ، جمیلہ،ماہ بی بی، فرزانہ انچارج نام پکارتی رہی سب ایک ایک کر کے آتے گئے اور اپنے اپنے لفافے لیتے گئے۔ شرجیل اپنے والد کی حکم کی تعمیل میں تصویریں بناتا رہا۔ شرجیل نے بھی ا تصویر بنواتے ہوئے ایک دو لفافے دئیے۔ اسی طرح اس نے راشن انچارج کے حوالے کرتے ہوئے بھی تصویر بنوائی۔ اور خوشی خوشی واپس گھر آکر اپنی اور بیٹے کی تصویر فیس بک اور واٹس اپ پر اپلوڈ کی۔ مگرجہاں شاہ میر کی آنکھیں خوشی کی چمک رہی تھیں، وہیں وہ عورتیں جو نجانے کن مجبوریوں کی وجہ سے دارلامان آئی تھی ان کی آنکھیں شرمندگی کے بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں۔

Browse More Urdu Literature Articles