Mamta - Article No. 1810

Mamta

مامتا - تحریر نمبر 1810

یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا ،بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھا ۔یکا یک میری انکھ کھل گئی ۔کیا دیکھتا ہوں کہ ساتھ والی چار پائی پر اماں سسکیاں لے رہی ہیں ۔

جمعرات 15 نومبر 2018

کرشن چندر
یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا ،بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھا ۔یکا یک میری انکھ کھل گئی ۔کیا دیکھتا ہوں کہ ساتھ والی چار پائی پر اماں سسکیاں لے رہی ہیں ۔
”کیوں امی میں نے گھبرا کر آنکھیں ملتے ملتے پوچھا۔“
”اماں نے سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان میرے سوال کو غصہ سے دہراتے ہوئے کہا۔

”شرم نہیں آتی، باپ کو بھی اور بیٹے کو بھی اتنے بڑے ہو گئے ہو، کچھ خدا کا خوف نہیں ۔“
”آخر ہوا کیا؟“ میں نے جلدی سے بات کاٹ کر پوچھا۔”یہ آدھی رات کے وقت رون کیسا؟“
گرمیوں کے دن تھے سب برآمدے میں سورہے تھے، مگر ابا اندر سامنے ایک کیمرے میں سورہے تھے۔ ان کی طبیعت ناساز تھی ،انہیں اکثر گرمیوں میں بھی سردی لگ جانے کا اندشیہ لاحق رہتا تھا، اس لئے عموماً وہ اندر ہی سویا کرتے ۔

(جاری ہے)

آخر ان کی آنکھ بھی کھل گئی۔وہیں بستر پر سے کروٹ بدل کر بولے۔”کیا بات ہے وحید؟ تمہاری ماں کیوں رو رہی ہے؟“
” میں کیا بتاؤں ابا ۔بس رورہی ہیں ۔“
”ہاں اور تمہیں کس بات کی فکر ہے ۔“اماں کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں ۔”پتا نہیں میرا لال اس وقت کس حال میں ہے ۔میرا چھوٹا محمود۔ تم یہاں پڑے سورہے ہو۔وہاں اس کا کون ہے، نہ ماں ،نہ بھائی ،نہ بہن اور تم خراٹے لے رہے ہو۔

آرام سے، جیسے تمہیں کسی بات کی فکر ہی نہیں( سسکتے ہوئے) میں نے ابھی بھی اپنے چھوٹے محمود کو خواب میں دیکھا ہے ۔وہ ایک میلے کچیلے بستر میں پڑا بخار سے تپ رہا تھا ۔ اس کا پنڈا تنور کی طرح گرم تھا ۔وہ کراہتے ہوئے اماں، اماں کہہ رہا تھا․․․“ یہ کہہ کر اماں زور زور سے رونے لگیں ۔
اماں کا” چھوٹا محمود“ اور میرا بڑا بھائی تھرڈاےئر میں ،میں ایف اے کا امتحان دے کر لاہور سے یہاں مئی کے مہینے ہی میں آگیا تھا ،مگر محمود کو ابھی لاہور کی تپتی ہوئی فضاؤں میں پورا ایک مہینہ اور گزارنا تھا ،لیکن اب جون بھی گزر گیا اور محمود ابھی تک لاہور سے واپس نہ آیا ۔
اماں بہت پریشان تھیں اور سچ پوچھئے تو ہم سب بھی بہت پریشان تھے ۔
ہم نے اسے پرسوں ایک تا ر بھیجا تھا اور مدتوں کے بعد اچانک محمود کا ایک خط بھی آیا تھا ۔چند مخنی سطور تھیں ۔لکھا تھا ۔”میں بیمارہوں ،ملیرےئے کا بخار ہے ،لیکن اب ٹوٹ رہا ہے۔ چند دنوں سے یہاں بہت بارش ہورہی ہے ۔اگر لاہور کا یہ حال ہے تو اسلام آباد میں کیا ہوگا ۔کیا کشمیر آنے کا راستہ کھل گیا۔
جلدی لکھئے کہ کس راستے سے آؤں ،کیا جموں بانہال روڈ سے آؤں کہ کوہالہ اوڑی سڑک سے، کون ساراستہ بہتر ہے گا؟“ ہم نے سوچ بچار کے بعد ایک تار اور دے دیا تھا ۔
گوبارش بہت ہورہی تھی اور دونوں سڑکیں شکستہ حالت میں تھیں ،پھر بھی کوہالہ اوڑی روڈ بانہال روڈ سے بہتر حالت میں تھی ،اس لئے یہی مناسب سمجھا کہ محمود ،بالہ روڈ ہی سے آئے ۔اب آدھی رات کے وقت یہ افتاد آپڑی۔
ابا کی نیند پریشان ہوگئی تھی ،چیں بہ جبیں ہوتے ہوئے بولے ۔”تو اس کا کیا، کیا جائے؟ اور تمہیں تو یوں ہی دل میں وسوسے اٹھا کرتے ہیں ۔
بھلا اس کا علاج کیا؟ آخر محمود کوئی بچہ تو نہیں؟ تمہیں فکر کس بات کی ہے ۔ہزاروں ماؤں کے لال لاہور میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں ۔آتا ہی ہوگا،اگر آج صبح وہ لاہور سے چلا تو شام کو راولپنڈی پہنچ گیا ہو گا، کل کوہالہ اور․․․“
اماں جلدی سے بولیں۔
” اور․․․ اور؟ کیا غضب کرتے ہو اور اگر خدا نہ کرے ۔اس کا بخارا بھی نہ ٹوٹا ہوتو پھر؟“ یہ کہہ کر اماں رک گئیں اور دو پٹے سے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں ۔”مجھے موٹر منگو ادو ۔میں ابھی لاہور جاؤں گی ۔“
”اب تم سے کون بحث کرے ،ہمیں تو نیند آرہی ہے ۔“یہ کہہ کر ابا کروٹ بدل کر سو گئے ۔میں نے بھی یہی، مناسب جان کر آنکھیں بند کرلیں ۔
مگر کانوں میں ماں کی مدھم سسکیوں کی آواز ،جسے وہ دبانے کی بہت کوشش کر رہی تھی ،برابر آرہی تھی ۔کیا دل ہے ماں کا اور کتنی عجیب ہستی ہے اس کی؟ میں آنکھیں بند کئے سوچنے لگا۔ماں کا دل، ماں کی محبت، مامتا ،کس قدر عجیب جذبہ ہے ،عالم جذبات میں اس کی نظیر ملنی محال ہے ۔
نہیں یہ تو اپنی نظیر آپ ہے ۔ایک سپنے کے دھندلکے میں اپنے بیمار بیٹے کو دیکھتی ہے اور چونک پڑتی ہے ۔
لرزجاتی ہے ۔مامتا․․․ کیا اس جذبے کی اساس محض جسمانی ہے ،محض اس لئے کہ بیٹا، ماں کے گوشت پوست کا ایک ٹکڑا ہے؟ اور کیا ہم سچ مچ فلا بیر کے تخیل کے مطابق اس کائنات میں اکیلے ہیں،
تنہا ،بے یارومددگار ،ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے بھی نا آشنا، مگر میں بھی تو محمود کا بھائی ہوں ،میری رگوں میں وہی خون موجزن ہے ،ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ،میں اپنی زندگی کے ان بیس سالوں میں صرف دو دفعہ محمود سے جدا ہوا ہوں اور وہ بھی نہایت قلیل عرصے کے لئے ۔

پھر میں کیوں اس قدر اس کے لئے بے تاب وبے قرار نہیں ۔مامتا․․․ کیا ہم سچ مچ پتھروں کے تو دوں کی طرح ہیں مصر کے میناروں کی طرح خوبصورت، لیکن بے جان اشوک کے کتبوں کی طرح سبق آموز،بے حس،بے روح ؟مامتا!․․․
بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دھوکا ہے، سراب ہے ،مایا ہے، ہو گی، لیکن یقین نہیں پڑتا، آخر یہ حسین جذبہ کہاں سے آیا ؟اور کائنات کے ایک گوشے میں سسکتی ہوئی اماں کیا یہ بھی ایک دھوکا ہے؟ سچ جانئے یقین نہیں پڑتا ۔

چھوٹا محمود․․․ میرا ننھا محمود․․․ میرا لال․․․ امی ہلکی ہچکیوں میں بھائی کا نام لے رہی تھیں ۔کتنی معمولی سی بات تھی۔ بھائی جان شاید ابھی لاہور ہی میں ہوں گے ۔ضیا فتیں اڑاتے ہوں گے ،سینما دیکھتے ہوں گے یا اگر لاہور سے چلے آئے ہوں تو راولپنڈی میں اس وقت خواب خرگوش میں پڑے خراٹے لے رہے ہوں گے ۔ملیریا کیا عجب ملیریا کا بخار مطلق ہی نہ ہو۔

میں بھائی جان کے بہانوں کو خوب جانتا ہوں ،اماں بھی جانتی ہیں ،مگر پھر بھی رورہی ہیں ۔آخر کیوں ؟مامتا ! شاید یہ کوئی روخانی قرابت ہے ،شاید اس دنیا کے وسیع صحرا میں ہم اکیلے نہیں ہیں ۔شاید محض پتھروں کے تودوں کی طرح نہیں ہیں ۔
شاید اس انسانی مٹی میں کسی ازلی آگ کے شعلوں کی تڑپ ہے معاً مجھے موپاساں کا افسانہ” تن تنہا“ یا دآگیا، جس میں اس نے اس شدید احساس تنہاکا رونا رویا ہے ۔
آہ! بے چارہ موپاساں وہ ایک ماہر نفسیات تھا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح وہ کئی بار نفسیاتی واردات کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہا اس کے افکار نے اسے غلط راستہ پر ڈال دیا۔”تن تنہا“ ایک ایسی ہی مثال ہے ۔وہ لکھتا ہے: ۔
”عورت ایک سراب ہے اور حسن ایک فردوعی امر ،ہم ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہیں جانتے ،میاں بیوی سالہا سال ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگا نہ ہیں․․․ دو دوست ملتے ہیں اور ہر دوسری ملاقات میں ایک دوسرے سے دور چلے جا رہے ہیں․․․ نسوانی محبت، مستقل دھوکا ہے ․․․اور جب میں عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے چاروں طرف موت ہی موت نظر آتی ہے ۔

میں نے آنکھیں کھول کر اماں کی طرف دیکھا، امی روتے روتے سو گئی تھیں ،گال آنسوؤں سے گیلے تھے اور بند آنکھوں کی پلکوں پر آنسو چمک رہے تھے ۔کیا امی موت ہے ؟اور کیا مامتا بھی کوئی ایسا ہی ہلاکت آفریں جذبہ ہے ؟شاید موپاساں غلطی پر تھا ،شاید اسے یہ لکھتے وقت اپنی شفیق ماں یاد نہ آئی تھی ۔وہ اس کی جاں بخش لوریاں، وہ نرم نرم تھپکیاں، جبکہ وہ بچوں کی طرح صرف” اوں اوں“ کہہ کر بلبلا اٹھتا تھا اور اس کی چھاتی سے لپٹ جاتا تھا․․․ نسوانی محبت، مستقل دھوکا ہے․․․ شاید اسے اپنی اماں کے وہ طویل بو سے بھول گئے کہ جب بڑا ہونے پر بھی اس کا نفسیاتی سراپنے بازوؤں میں لے لیتی تھی اور پیار کرتی تھی ۔

جب وہ مامتا سے بے قرار ہوجاتی اور ان کی غیر حاضری میں بھی اس کی راہ دیکھا کرتی تھی ۔اس کی ہر غلطی کو بچوں کی بھول سے تعبیر کیا کرتی اور گناہ کو نیکی میں مبدل کردیتی تھی ۔اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں وہ اس شدید احساس تنہائی، جس کی موپاساں کو شکایت ہے، جو دنیا وی کلفتوں اور الفتوں میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، نہ جانے وہ ماں کی گود میں آکر کیسے ناپید ہوجاتا ہے؟ ماں کے جذبہ محبت میں ایک ایسی دیوانگی و وارفتگی ہے، جو اس کی انانیت کوفنا کر دیتی ہے اور اس کی ذات کو بچوں میں منتقل کردیتی ہے ۔

یقینا ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں، بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں․․․ یقینا․․․ مگر․․․غڑغوں ،غڑغوں ،ککڑوں کوں ،کبوتر مرغ ،چڑیاں ،دو شیز ہ سحر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ان کی خوش الحانی نے مجھے پیدا کر دیا ،میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ٹانگیں چار پائی سے نیچے لٹکا دیں اور آنکھیں ملنے لگا۔اتنے میں آنگن سے اماں کی آواز آئی۔

”بیٹا وحید اٹھو ،محمود آگئے۔“
آنکھیں کھو ل کر دیکھا تو سچ مچ ․․․اماں آنگن میں اگے ہوئے پنجتار کے بوٹے کے نیچے ایک مونڈے پر بیٹھی تھیں اور محمود ان کے پیروں پر جھکا ہوا تھا۔میں جلدی سے اٹھا آنگن میں ہم دونوں بھائی بغل گیر ہوئے ۔
”اتنے دن کہا ں رہے “میں نے محمود سے پوچھا۔
محمود نے شوخ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور ایک آنکھ میچ لی ۔
پھر گردن موڑ کر پنج تارے کے سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
”کوئی سات روز جھڑی رہی ،متواتر بارش ہونے سے سڑک جگہ جگہ سے بہہ گئی تھی اور سپر نٹنڈنٹ ٹریفک نے راستہ بند کر دیا تھا۔“اس نے آہستہ سے جواب دیا اور یہ کہہ کر ایک ہاتھ میرے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے ہلانے لگا۔
اماں کدو چھیل رہی تھیں اور ہم دونوں کو دیکھتی جاتی تھیں ۔ان کی آنکھیں پر نم تھیں ۔آنسوؤں کے ان دو سمندر وں میں خوشیوں کی جل پر یاں ناچ رہی تھیں۔

Browse More Urdu Literature Articles