Mennu Le Chalay Babula Lay Chalay Way - Article No. 1820

Mennu Le Chalay Babula Lay Chalay Way

مینوں لے چلے بابلا لے چلے وے - تحریر نمبر 1820

اغواء ہونے والی گم صم سی لڑکی کی دو پھیلی ہوئی بانہوں نے اس کے دل ودماغ کو جکڑ لیا

منگل 4 دسمبر 2018

خدیجہ مستور
پتلی سی نالی میں پانی کی دھار رینگ رہی تھی اور صابن کا پھولا پھولا جھاگ پانی پر غلاف کی طرح چڑھا ہوا معلوم ہورہا تھا ۔وہ ابھی ابھی اندھیرے غسل خانے سے نہا کر نکلا تھا اور تو لئے سے بال خشک کرتا ہوا صحن میں پڑی ہوئی آرام کر سی کو دھوپ میں گھسیٹ کر سردی سے اکڑتے ہوئے جسم کو ذرا گرم کرنے کے لئے بیٹھ گیا تھا ۔

تولئے سے بالوں کورگڑتے ہوئے اس کی نظر نالی پر پڑگئی ۔گندی کیچڑ بھری نالی میں پانی رک رک کر بہہ رہا تھا ۔
اسے اچانک وہ واقعہ یا د آگیا جس نے اس کے بے حد حساس دل ودماغ پر بری طرح اثر کیا تھا ۔کئی دن تک ا س کی یہ حالت رہی تھی جیسے وہ ایک واقعے کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہ سکتا ہو پھر آہستہ آہستہ وہ سب کچھ بھولتا گیا لیکن آج بہت دن بعد صابن کے جھاگ کے ساتھ بہتی ہوئی پانی کی دھار نے اس کے ذہن میں اس واقعے کی یاد پوری شدت سے ابھاردی ۔

(جاری ہے)

اس کے ذہن کی گہرائیوں میں بے شمار آہیں گھٹنے لگیں ۔
اس وقت اس کی کیفیت کچھ اس دن جیسی ہونے لگی جب وہ اس واقعے سے دوچار ہوا تھا ۔حالانکہ اس سے قبل ایسے ایسے درد ناک منظر دیکھے تھے کہ پتھر بھی پگھل کررہ جاتا کبھی وہ اس حد تک متاثر نہ ہوا تھا ۔
شہر کی گہما گہمی کو موت نے نگل لیا تھا ۔زندگی کو نوں کھدروں میں منہ چھپائے سسک رہی تھی ۔
ویرانی کہتی تھی کہ اب کبھی آباد نہ ہوں گے ۔موت کہتی تھی کہ ہمارے چنگل سے اب کوئی بھی نہ بچ سکے گا۔ مگر امدادی کمیٹی کے درد منددل کہتے تھے کہ زندگی اتنی ارزاں نہیں کہ ہم انہیں کیڑوں مکوڑوں کی طرح موت کے جال میں پھنس جانے دیں گے ۔
وہ جہاں جہاں جا سکتے تھے ،جہاں جہاں پہنچ سکتے تھے روتی سسکتی مایوس زندگیوں کو ڈھونڈ دھونڈ کر چن چن کر پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچارہے تھے ۔
اس روز بھی وہ سارا دن لاری پر ویران شہر کے گوشے گوشے کا چکر لگا کر پچاس فساد زدہ انسانوں کو کیمپ میں پہنچا کر محفوظ کر چکا تھا اور سارے دن کا تھکا ہارا پولیس چوکی پر لاری سے اتر کر گھر جانے کے لئے پیدل چل رہا تھا ۔
شام کے پانچ بج رہے ہوں گے ۔وہ جلد سے جلد گھر پہنچ کر آرام کرنے کے لئے تیز تیزقدم اٹھا رہا تھا کہ ایک دم اس کے پاؤں رک گئے ۔
سڑ ک کے کنارے بارہ تیرہ آدمی کھڑے جھک جھک کر نالی میں نہ جانے کیا دیکھ رہے تھے ۔وہ ان سب کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔بلڈنگ کے صدر دروازے پر بڑا ساتالا پڑا ہوا تھا اور وہ سب اسے توڑنے کے متعلق سوچ رہے تھے ۔
”ہم لوگوں نے آج تین دن ہوئے ،اس گھر کے بچے بچے کو پار لگا دیا پر یہ جانے کیسے بچ رہا ؟“سرخ آنکھوں اور بھیانک چہرے والا آدمی چھرالہرانے لگا ۔

”پھر توڑ دونا تالاجی !“دوسرے نے زمین پر لٹکتے ہوئے کمر بند سے اپنا الجھتا ہوا پاؤں نکال کر کہا ۔”لیکن سوچو تو ․․․تالا پڑا ہے بھلا گھروں میں کون ہو گا ؟“اس نے لوگوں کو سمجھانا چاہا۔”کوئی نہیں ہوتا تو کیا یہ جادو کا کھیل ہورہا ہے ؟“تیسرا سرخ سرخ آنکھیں نکال کرنالی کی طرف اشارہ کرنے لگا ․․․چوڑی اٹھلی نالی میں بلڈنگ سے آتا ہوا صابن کا جھاگ ملا پانی کیچڑ میں رینگ رہا تھا ۔

”معلوم ہوتا ہے کہ غسل فرمایا گیا ہے “چوتھا شخص اپنی قمیض سے چھرا صاف کرنے لگا ۔وہ ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑگیا کہ اب کیا کرے ۔اس وقت دو سپاہیوں کو بہت دور پولیس چوکی پر چھوڑ کر آرہا تھا اور پولیس کا کہیں دور دور پتا نہ تھا ۔”تالا توڑ دو جی !“کئی آوازیں ایک ساتھ بھنبھنا ئیں ۔
”لیکن دیکھو نا ،انسانیت کا تو یہ تقاضا ہے ․․․“
وہ انتقام کے جوش سے کھولے ہوئے دماغوں پر انسانیت کے تقاضوں کے چھینٹے دینا چاہتا تھا ۔
لیکن اس کی بات بیچ ہی سے جھپٹ لی گئی۔
”جب ہماری ماؤں ،بہنوں، اور ہماری بھائیوں کو خون میں نہلا یا جارہا تھا جب انسانیت کہاں تھی اور جب آپ کہاں تھے ؟“کئی آدمیوں نے ایک ساتھ سوال کر دیا۔
”اپنی انسانیت کے ساتھ سو رہے ہوں گے “بھیانک صورت اور سرخ آنکھوں والے نے شیطانی قہقہہ لگایا۔
”لیکن دیکھو․․․․“اس کے دونوں ہاتھ بلند ہو کر جھک گئے ۔

”تالا توڑا جائے گا ۔آپ کیوں منع کررہے ہیں ؟“لوگ اسے ایسی نظروں سے دیکھنے لگے جیسے وہ ان میں سے ایک نہیں۔
”میں منع نہیں کرتا تالا ضرور توڑ دو ۔“اس نے بے بسی سے کہا ۔وہ جانتا تھا کہ اس وقت اس کی بات کوئی بھی نہ سنے گا ۔اور اگر زیادہ مخالفت کی تو اسے بھی چیر پھاڑ کر پھینک دیں گے ۔تالے کو تھوڑی ہی دیر میں کنڈے سے جدا کردیا گیا اور وہ سب اندر داخل ہو گئے ۔
وہ سب کے پیچھے تھا اور جیسے اس کی روح پھڑک پھڑک کر رورہی تھی ․․․وہ چھپے ہوئے انسان کی جان بچانے کے لئے تیزی سے سوچنے لگا اور اچانک اس کے ذہن نے جان بچانے کی ایک موہوم سی ترکیب سوچ ہی لی۔
”دیکھو یوں اندھا دھند آگے مت بڑھو ۔ممکن ہے اس کے پاس بندوق ہو ۔میرے پاس رائفل ہے ،میں آگے چلتا ہوں تم سب دبے قدموں میرے پیچھے چلو ۔“اس نے آہستہ سے کہا ۔
سب اس کا کہا مان کر اس کے پیچھے بولئے ۔
وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں طے کرنے لگا․ ․․ایک دو تین ․․․سیڑھیاں جیسے نہ ختم ہونے والی کڑی ہو گئی تھیں ۔وہ سارا دن کام کرنے کی وجہ سے بہت تھکا ہوا تھا۔اس کا جسم اور دل ودماغ سب ہی نڈھال ہو گئے تھے لیکن اس وقت وہ ذرا بھی تکان محسوس نہ کررہا تھا ۔وہ سب سے آگے تھا اور برابر سوچ رہا تھا کہ جب پہلے اس اونچی بلڈنگ میں قتل وخون کا بازار گرم کرلیا گیا تھا ،ایک کو بھی تو اپنے حساب میں نہ چھوڑاتھا ۔
پھر بھی وہ چھپ کراپنی جان بچا گیا۔اس وقت بھی وہ جیسے ہی اسے نظر آئے گا اسے چھپ جانے کا اشارہ کردے گا۔اسے بتادے گا کہ موت تم سے چند قدم کے فاصے پر چلی آرہی ہے ۔یقینا اس گھر میں ایسی جگہ ضرور ہو گی جس میں وہ پہلی کی طرح چھپ سکتا ہے ۔
پہلی منزل․ ․․دوسری ․․․تیسری ․․․ہرمنزل کے ایک ایک کونے کو چھان مارا ۔ہر کمرے میں سب سے پہلے وہ داخل ہوتا تھا ۔
وہاں خاموشی اور ویرانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہاں الوؤں کاراج ہے لیکن جب چوتھی منزل پر جانے کے لئے قدم اٹھ رہے تھے نہ جانے کیوں اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔اس کا دل پھڑک پھڑک کر دعائیں کررہا تھا کہ وہاں بھی کوئی نہ ہو ۔کوئی نہیں ،وہاں بھی الوؤں کا راج ہو ۔
وہ انسانی تراش خراش کے ایسے نمونے دیکھ چکا تھا کہ اب اپنے میں کوئی اور نمونہ دیکھنے کی سکت نہ پاتا تھا ۔
اس کے قدم تیز ہو گئے تھے ۔اس نے پیچھے دبے دبے قدموں آنے والوں کو کئی گزپیچھے چھوڑ دیا اور جب سیڑھیاں ختم ہوتے ہی سب سے پہلے سامنے پڑنے والے کمرے میں داخل ہوا تو جیسے دم بخودرہ گیا ۔نیلے صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک چھوٹے سے قد کی خوبصورت لڑکی اس کے سامنے زمین پر بیٹھی تھی ۔اس کی ناک سرخ تھی ۔
پپوٹے سرخ اور پھولے ہوئے ۔آنکھیں مندی مندی اور جسم نڈھال ۔
اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور وہ ہاتھ میں کنگھا اٹھائے سامنے رکھے ہوئے آئینے میں نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔اس کے پاس ہی زمین پر صابن دانی ،تولیہ ،کلپ اور بال پن پڑی ہوئی تھیں ․․․اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آرہا تھا کہ اس کے سامنے کوئی جیتا جا گتا انسان ہے ،وہ کوئی خوبصورت روح ہے ،وہ کوئی پری ہے لیکن جب لڑکی نے ا پنی بوجھل آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے کنگھا چھٹ کر زمین پر گر گیا تو اس کے جیتے جا گتے وجود کاا حساس ہوا اور پھر اسے بچانے کے لئے اس کی روح پھڑ کی ۔
اس نے اسے چھپ جانے کا اشارہ کیا۔
آہستہ آہستہ سے اسے بتایا کہ لوگ پیچھے آرہے ہیں ۔مگر لڑکی جیسے اپنی جگہ جم کررہ گئی تھی ۔اسے ہلکی سی جنبش بھی نہ ہوئی ۔لڑکی نے ایک بار اسے بے بسی سے دیکھا اور نظریں جھکا لیں ۔سب لوگ کمرے میں گھس آئے ۔ان کے لہراتے ہوئے چھرے جھک گئے ۔وہ شیطانی ہنسی ہنسنے لگے ۔
”پہاڑ کھودا تو چوہیا نکلی۔“سرخ آنکھوں والا لڑکی کی طرف بڑھا اور اسے محسوس ہوا کہ زور سے زلزلہ آگیا ہے ۔
لڑکی کا چہرہ ایک دم سفید ہورہا تھا۔
”رحم کرواسے مت چھونا ۔“وہ لڑکی اور سرخ آنکھوں والے کے درمیان آکر پاگلوں کی طرح چیخنے لگا ۔
”ارے تو کیا بدن میلا ہو جائے گا ۔محنت کریں بی فاختہ ،کوے میوے کھائیں ۔اجی اپنی راہ لگئے ۔“ایک نے کہا اور سب پھر ہنسنے لگے ۔دو آدمیوں نے دھکے دے کر اسے لڑکی کے پاس سے ہٹا دیا ۔
”نہیں ،نہیں ․․․“وہ پھر لڑکی کے سامنے آجانا چاہتا تھا کہ سرخ آنکھوں والے نے اپنا چھرا اس کے سینے پر رکھ دیا ․․․پھر ایک نے لڑکی کو اٹھا کر بھیڑ کی طرح کاندھے پر ڈال لیا ۔
لڑکی کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی ،اس نے کوئی مزاحمت نہ کی ۔لیکن جب وہ لڑکی کولے جانے لگے تو اس نے اپنی لٹکتی ہوئی بانہیں اس کی طرف پھیلا دیں ۔اس کا جی چاہا کہ کاش اس وقت تو سچ مچ وہ چھرا اس کے سینے کے پار ہوجاتا ۔وہ بے چین ہو کر اس کی طرف بڑھا مگر اسے دھکادے کر پیچھے ہٹا دیا گے اور سرخ آنکھوں والے نے آگے بڑھ کر لڑکی کی پھیلی ہوئی با نہیں اپنے گلے میں ڈال لیں ۔
لڑکی کی آنکھیں جیسے بے انتہا کرب سے بند ہو گئیں۔
پھر آن کی آن میں کمرہ خالی تھا ۔پہلے سے زیادہ ویران اور خاموش ۔وہ سب جاچکے تھے اور وہ اسی جگہ زمین پر بیٹھا تھا جہاں لڑکی ذرا دیر پہلے کنگھی کررہی تھی ۔وہ پھیلی ہوئی با نہوں کا سہارا نہ بن سکا تھا ۔وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کررونے لگا ۔اس کے سینے میں کوئی ضدی ساجذبہ مچل کر اسے رلارہا تھا ۔
اس نے جانے کتنی جوان عورتوں کو اغواء ہوتے دیکھا ۔اس کی چیخیں ،ان کی فریاد یں سنی تھیں مگر اس طرح کوئی بھی تو اس کے دل پر اثر نہ کر سکا تھا ۔یہ گم صم سی لڑکی صرف بانہیں پھیلا کر اسے کس قدر متاثر کر گئی تھی ۔
جب و ہ جی بھر کرروچکا تو اس نے قدموں سے روندی ہوئی بال پنوں اور کلپوں کو سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیا ۔انہیں دیکھتا رہا ،انہیں چھوتا رہا اور نم تو لئے کو اٹھا کر سہلاتا رہا اور پھر اس بستر کو دیکھنے لگا جس پر اس قدر شکنیں پڑی تھیں کہ جیسے اس پر مسلسل کئی دن تک کوئی پڑا کروٹیں بدلتا رہا ہوپاؤں رگڑتا رہا ہو ۔
وہ سوچنے لگا کہ اس خوبصورت اور عجیب لڑکی نے تین دن تین راتیں اس بستر پر تڑپ کر گزاری ہیں اور پھر وہ اٹھ کر آہستہ آہستہ بستر کی شکنیں دور کرنے لگا ۔
تکئے پر جگہ جگہ آنسوؤں کے بڑے بڑے دھبے پڑے ہوئے تھے۔تین دن مسلسل روتی رہی اور پھر اس نے تھکن سے نڈھال ہو کر منہ کیوں دھویا۔اگر تھک گئی تھی تو منہ پر یوں ہی پانی کے چھینٹے بھی تودے سکتی تھی ۔
مگر اس نے تو باقاعدہ صابن سے منہ دھویا تھا اور انہماک سے سنگھار کررہی تھی ․․․شہر میں سناٹا تھا ،اس بلڈ نگ میں سناٹا تھا ،موت سب کو نگل گئی تھی ۔پوری بلڈنگ میں بھیانک ویرانی تھی ۔زندگی کا آس پاس کہیں دور دور پتا نہ تھا ،اور وہ سنگھار کررہی تھی ۔
اس تنہا خاموش کمرے میں مسلسل تین دن روچکنے کے بعد سنگھار کررہی تھی ۔تھکن سے نڈھال اور چور ،آخر وہ کس کے لئے سنگھار کررہی تھی ۔
کیوں ․․․وہ کون سا جذبہ تھا ۔کتنی عجیب کتنی حسین لڑکی ۔اور جب اسے اٹھا کر لے گئے تو وہ چپ چاپ چلی گئی ۔اور پھر اس کے دل ودماغ کو د وپھیلی ہوئی بانہوں نے جکڑ لیا ۔کاش وہ اس تھکی تھکی نڈھال لڑکی کا سر اپنی زانوپر رکھ سکتا ۔اس کے سرخ ہوئے پپوٹوں کو سہلا سکتا ۔وہ اس کے لئے وہ سب کچھ کر سکتا جو وہ چاہتی تھی اور پھر کچھ نہ کر سکنے کے جذبے نے اسے بے چین کر دیا ۔
اس نے سرہانے سے تکیہ اٹھا کر اپنی گردن میں رکھ لیا تکئے کے نیچے ایک کاغذ پڑاتھا میلا بوسیدہ ۔وہ اسے کھول کر پڑھنے لگا ۔
”میری جان :“وہ پورا خط جلدی جلدی پڑھ گیا ۔لیکن آخر میں وہ جب پڑھ رہا تھا کہ میں تم سے جلدی ہی آکر ملنے والا ہوں ۔میں تمہیں دیکھنے کے لئے بے حد بے چین ہوں ۔اتنا بے چین کہ اگر میری راہ میں کوئی بڑے سے بڑا طوفان بھی حائل ہوجائے تو وہ مجھے تم تک پہنچنے سے نہ روک سکے گا۔
میں تمہاری پاس سید ھا تمہارے کمرے میں پہنچوں گا جہاں تم بنی سنوری بیٹھی میری راہ دیکھ رہی ہو گی اور ․․․“ہاتھ کا نپے ․․خط چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔․․․
نیچے اچانک شور ہونے لگا ۔دھمادھم کی آوازیں آنے لگیں ۔شاید قریب سے کسی بلڈنگ کا سامان لوٹا جارہا تھا ۔اس نے بال پنیں اور کلپ اٹھا کر جیب میں ڈال لئے اورلڑکھڑا تے ہوئے قدموں سے سیڑھیاں طے کرکے چپ چاپ گھر کی طرف چل پڑا۔
سوچتے سوچتے اس نے ایک بار پھر نالی کی طرف دیکھا پانی بہہ چکا تھا ۔اور صابن کا جھاگ ختم ہو چکا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles