Mera Beta Sajjad Haider Khan - Article No. 1052

Mera Beta Sajjad Haider Khan

میرا بیٹا۔ سجاد حیدر خاں - تحریر نمبر 1052

نام ہے سجاد حیدر خاں، عرف ہے” چھجو“۔ اپنی بہن سے سال ہوا سال چھوٹا ہے۔ لکھنو میں پیدا ہوا تھا اور جائے ولادت کے اعتبار سے اُس کو مجھ پر فضلیت حاصل ہے۔

جمعرات 12 مئی 2016

جوش ملیح:
نام ہے سجاد حیدر خاں، عرف ہے” چھجو“۔ اپنی بہن سے سال ہوا سال چھوٹا ہے۔ لکھنو میں پیدا ہوا تھا اور جائے ولادت کے اعتبار سے اُس کو مجھ پر فضلیت حاصل ہے۔ میں نے اُس کی تعلیم کی بے حدسعی کی لیکن وہ پڑھ نہیں سکا اور ہمیشہ اسکول سے بھاگتا رہا۔ کیا بتاؤں کیا کیا جتن کیے میں نے اُسے پڑھانے میں، تلوارے لے کر میں اُس کے پیچھے دوڑا اور آنسو بہا بہا کر اُس کا علم کی جانب مائل کرنا چاہا، لیکن تلوار نے کام کیا، نہ آنسوؤں نے۔
میرا خیال ہے کہ کسی باپ کی یہ مجال نہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور اُس کی سرشت کے مابین آکراُسے اُس کی فطرت سے دور کردے۔ ہر کسے را، بہر کارے ساختند۔
اُس کی بدشوقی کاایک دوسرا سبب یہ بھی تھا کہ اُس کی ولادت سے ایک سال قبل اُس کی ماں اختلاج میں بری طرح مبتلا ہوگئی تھی اور رات رات بھر جاگتی اور انگنائی میں ٹہلا کرتی تھی اور کسی حکیم صاحب نے دھوکا کھا کر یہ بھی سمجھ لیا تھا کہ اس کے پیٹ میں ورم ہے اورورم تحلیل کرنے کی اس قدر دوائیں دی تھیں کہ جب وہ پیدا ہوا تو اُس کی آنکھوں پر ورم تھا اور جب خدا خدا کرکے اُس کی آنکھوں کا ورم دور ہوا تو اُس پر بڑے تسلسل کے ساتھ مختلف امراض نے حملہ کردیا۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے اُس کا سینہ جکڑگیا اور دمے کی صورت پیدا ہوگئی۔ اُس کے بعد اُس کو ڈبل نمونیا ہوگیا۔ پھر چیچک، یرقان، اپنڈی سائنس، پیچش اور آخر میں طاعون نے حملہ کردیا اور اُن تمام امراض کے تسلسل کی بناپر وہ تعلیم کی جانب مائل نہیں ہوسکا۔
لوگوں کاخیال ہے کہ انسان پراُس کے نام اور تخلص کا بہت اثر پڑتا ہے اور چوں کہ اس کانام سجاد ہے اور حضرت سید سجاد کر بلامیں بیمار تھے اور اب تک اُن کو ” عابد بیما“ کہا جاتا ہے، اس لیے سجادبھی بیماریوں میں گھر گیا، لیکن میں اس خیال کو واہمے سے زیادہ اور کوئی وقعت نہیں دیتا۔
بیماریوں سے نجات پانے کے بعد وہ موسیقی کی جانب مائل ہوگیا۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ وہ مدرسہ وموسیقی دونوں کو دوش بدوش جاری رکھے، مگر اُس نے میری بات نہیں مانی اور لکھنو کی بھاٹ کنڈے میوزک یونیورسٹی میں داخل ہوگیا اور وہاں سے فرسٹ کلاس فرسٹ کی سندحاصل کرلی اور متعدد فلم کمپنیوں میں اسسٹنٹ میوزک ڈائرکٹر کی حیثیت سے دھنیں بنانے لگا۔

وہ وائلن، بانسری، ہارمونیم اور طلبہ بڑی مہارت کے ساتھ بجاتا ہے۔ اُس کو شاعری کا بھی ذوق ہے۔ کبھی کبھی شعر کہتا ہے اور اُس کے بعض شعروں میں بڑی جان ہوتی ہے۔ وہ ابھی فقط سات سال کا تھا کہ میری گود میں بیٹھ کر بڑی مہارت کے ساتھ موٹر مکینک کی حیثیت سے وہ نظر پیدا کرلی تھی کہ موٹر کی چھوٹی موٹی خرابیاں دور کرنے لگا تھا۔ اب وہ ماشاء اللہ پانچ بچوں کاباپ ہے۔
اُس نے اپنی مرضی سے اور اپنی ماں کے علی الرغم فقیہ خاندان کی انورجہاں سے شادی کی ہے، باپ کسی ریاست میں نائب وزیر تھے۔انور جہاں اچھی خاصی تعلیم یافتہ، مگر مراق (ایک قسم کا مالیخولیا) کی صدزبوں ہے۔
میرے پاس زیل پاک کی سیمنٹ ایجنسی تھی، جس کو وہ چلارہاتھا۔ جب میں ایوب خاں کا معتوب ہوگیا تو مجھے ملازمت سے ہٹادیاگیا اورمیری ایجنسی بھی چھن لی پرانی مہارت کام آئی اور اس نے ایک موٹر ورک شاپ قائم کردی۔
میں جب اُس کو ورک شاپ میں دیکھتا ہوں تو دل سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگتی ہے۔اُس کے میلے ساتھ اورمیلے کپڑے میرے دل پر خنجر چلانے لگتے ہیں۔ میرے باپ نے جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں، یہ بات گوارانہیں تھی کہ میں اپنے ہاتھ میں تولیا اٹھا کر غسل خانے جاؤں اور اب میرا بچہ میری آنکھوں کے سامنے ہتھوڑے چلارہاہے۔ میں نے آبائی تلوار کو گلاکر قلم بنادیا تھا، میرا فرزند اپنے ستار کو تپا کر ہتھوڑا بنا چکا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles