Mohabbat Rog Aisa Hai - Article No. 2247

Mohabbat Rog Aisa Hai

محبت روگ ایسا ہے۔۔۔۔تحریر: صفیہ ہارون - تحریر نمبر 2247

اس نے اتنی آوازیں دیں کہ اس کا گلہ بیٹھ گیا، لیکن جانے والے کہاں لوٹ کر آتے ہیں۔ پھر چاہے منتیں کریں، روئیں یا چیخیں چلائیں، جانے والے لوٹ کر واپس آنے کے لیے نہیں جاتے۔ اس کے گلے سے اب آوازیں نہیں چیخیں بلند ہو رہی تھیں

پیر 27 جنوری 2020

وہ شاداں و فرحاں آنے والے دنوں کا تصور کر کے مسرت و انبساط کے جھولے میں جھول رہی تھی۔ آنے والے دنوں میں وہ اس کے ساتھ ہو گا، اس کا ہم سفر، شریکِ زندگی بن کر اسے تحفظ دے گا۔ من چاہے انسان کا ساتھ ملنے جا رہا ہو تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، انسان ہواؤں میں اُڑنے لگتا ہے، خوشی چہرے سے ہی جھلک رہی ہوتی ہے۔ آج اس کی بھی یہی حالت تھی، خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی، اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جھومے، گائے اور خوشیاں منائے کیونکہ آج اس کے دل کی مراد پوری ہونے جا رہی تھی۔
جس کو اس نے دل سے چاہا تھا، جس کے مل جانے کی ہر پل دُعائیں مانگی تھیں، جس کے لیے وہ تہجد گزار ہو گئی تھی، آج اسی کے سنگ وہ عازمِ سفر ہو رہی تھی۔ اپنے تصورات و خیالات میں وہ اتنا مگن تھی کہ اسے خبر بھی نہیں ہوئی کہ کوئی آہستہ سے اس کے پہلو سے اُٹھ کر چلا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اپنے تصورات سے وہ اس وقت چونکی جب ریل گاڑی کی سیٹی کی تیز آواز نے اس کے حسین تصورات کا تانا بانا توڑا۔

وہ خوابوں کے حسین سفر سے ایک دم حقیقت کی دنیا میں واپس آئی۔ لیکن یہ کیا، اس کے اردگرد کوئی بھی نہیں تھا۔ عاشر۔۔۔۔۔ عاشر۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشر کہاں ہو تم؟ اس نے اتنی آوازیں دیں کہ اس کا گلہ بیٹھ گیا، لیکن جانے والے کہاں لوٹ کر آتے ہیں۔ پھر چاہے منتیں کریں، روئیں یا چیخیں چلائیں، جانے والے لوٹ کر واپس آنے کے لیے نہیں جاتے۔ اس کے گلے سے اب آوازیں نہیں چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔
وہ رو رہی تھی۔ بے تحاشا رو رہی تھی۔ اس کی سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ تو کیا وہ اسے بیچ سفر میں چھوڑ کر چلا گیا تھا؟ نارسائی کا یہ دکھ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کر پا رہی تھی کہ جس کو اس نے سب سے زیادہ چاہا، جس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ جس کے لیے وہ اپنا گھر، ماں باپ، بہن بھائی غرض ہر رشتہ چھوڑ آئی تھی، آج وہ ہی اسے بیچ منجدھار چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اسے اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ ''میں کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ہمیشہ تمہاری حفاظت کروں گا۔'' کچھ عرصہ قبل عاشر کے کہے گئے الفاظ اس کی سماعتوں پر ہتھوڑا بن کر برس رہے تھے۔ تو کیا یہ تھا اس کا ساتھ، پہلے اس نے مجھے اپنے پن کا اعتماد بخشا اور پھر یوں بے سہارا چھوڑ کر چل دیا۔ اگر اس موڑ پر لا کر ہی ساتھ چھوڑنا تھا تو پھر محبت و یقین کے وعدے کیسے تھے؟کیوں اس نے مجھے اپنی ذات کا مان بخشا؟ کیوں مجھے دن رات اپنے ساتھ کے خواب دکھائے؟ کیا وہ سب جھوٹ تھا؟ کیا اس نے میرے ساتھ محبت کا کھیل کھیلا تھا؟ کیوں کیا اس نے ایسا؟ میرا ساتھ منظور نہیں تھا تو مجھے بتا دیا ہوتا، میں کوئی سوال کیے بغیر اس کے راستے سے پلٹ جاتی لیکن مجھے یوں بیاماں نا کرتا۔
میں تو اس راہ کی کبھی مسافر ہی نہیں تھی، مجھے تو اس راہ پر انگلی پکڑ کر اسی نے چلنا سکھایا تھا۔ چند لمحے قبل اس کی خوبصورت جھیل جیسی مسکراتی آنکھیں شدتِ غم سے رو رو کر اب کسی ویران قبرستان کا جنازہ پیش کر رہی تھیں۔ خواب دیکھنے کی سزا بھی تو ملتی ہے نا۔ اس کی آنکھوں کو بھی خواب دیکھنے کی سزا ملی تھی۔ اس کی آنکھیں ویراں ہو گئی تھیں۔
خواب کھو جائیں یا مر جائیں، آنکھیں ویران ہو جاتی ہیں۔ محبت کی جو شمع اس کے دل میں جاگزیں ہوئی تھی، اس کا تاوان اب اس کی آنکھوں کو ادا کرنا تھا۔ ایک مرتبہ خواب ریزہ ریزہ ہو جائیں تو انسان ساری زندگی آنکھوں سے ان ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں نکالتے گزار دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی آنکھوں سے اُن ٹوٹے خوابوں کے عذاب ختم نہیں ہوتے۔ آتے جاتے لوگ اسے رک رک کر دیکھ رہے تھے۔
کچھ لوگ ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ نظریں اسے اپنے وجود کے آرپار ہوتی محسوس رہی تھیں۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ سب کی نظروں میں مجرم بن گئی تھی۔ اس کے ذہن کی سکرین پر اس کے گھر والوں کے چہرے نمودار ہو رہے تھے۔ وہ کیسے واپس جائے گی، اور جائے گی بھی تو کیا جواب دے گی سب کو؟ واپسی کے سارے راستے تو خود اس نے اپنے ہاتھوں بند کر دیے تھے۔
عاشر سے الگ ہونے کا خیال ہی جسم سے روح کھینچ لینے والا تھا لیکن اب وہ اس درد سے گزر رہی تھی۔ ہم بھری دنیا میں کتنے تنہا ہیں ناں،دل سے جڑے لوگوں کی زندگیوں میں،بالکل ادھورے، بیکار،جیسے کسی کہانی میں بیکار سا کردار،جس کا ہونا نہ ہونا زیادہ معنی نہ رکھتا ہو۔جیسے ایک بیکار سا موضوع،جسے کوئی بھی پڑھے بغیر صفحے کو پلٹ دیناچاہتا ہے۔
اک عمر لگتی ہے سرابوں کے پیچھے بھاگنے میں اور جب قریب،بہت قریب سے انہیں جان لیتے ہیں تو دل کھٹکتا ہے کہ جس کا گمان گزرا تھا وہ تو محض ایک چھلاوا تھا، ایک سراب تھا۔چاہے کتنی کوشش کر لیں خود کو ایک موم کی طرح ہر شکل میں ڈھالنے کی مگر ہم کسی بھی شکل میں لوگوں کے ذہنی سانچے میں نہیں ڈھل سکتے۔ ہماری ناتواں ذات انکے معیار پر پوری اترنے کی کوششوں میں ہی نڈھال ہوجاتی ہے اور ہم منہ کے بل گرے بس یہی سوچ رہے ہوتے ہیں،یا اللہ، ہماری ریاضت میں کہاں کمی رہ گئی تھی؟ کہاں کمی تھی میرے خلوص میں یا اس محبتوں کے تاجر میں، جو ساری دنیا کے سامنے مجھے تماشا بنا گیا تھا۔
وہ گھٹنوں میں سر دیے یہ سب سوچے جا رہی تھی، ریل کی سیٹی نا جانے کتنی بار بج چکی تھی۔ لوگ اپنے پیاروں کو الوداع کہ رہے تھے۔ ریل کی آخری سیٹی بجی ہی تھی کہ اس کے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ ''اٹھیے اور میرے ساتھ چلیے۔'' اس کی سماعتوں سے ایک اجنبی آواز ٹکرائی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے پاتی یا کوئی فیصلہ کر پاتی، وہ اجنبی اسے ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی کی طرف لے جانے لگا۔
اس نے ہاتھ چھڑانے کی کافی کوشش کی لیکن گرفت مضبوط تھی۔ ''میں آپ کے ساتھ کیوں جاؤں، میں آپ کو جانتی تک نہیں؟'' جس کو آپ جانتی تھیں، اس نے کیا کیا آپ کے ساتھ؟'' اچانک اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں اسے صدیوں کا درد نظر آیا۔ اس کی آنکھیں بھی رونے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے ایک پل نہیں لگا یہ جاننے میں کہ وہ کس کرب سے گزر کر آ رہا ہے؟ محبتوں کی راہ میں لُٹے ہوئے لوگ ایک دوسرے کا درد جلدی پہچان لیتے ہیں۔
ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک اس مہربان کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی کہ ''چلیے اب، گاڑی روانہ ہونے والی ہے۔ ہم دونوں ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں، میں بھی پچھلے اسٹیشن پر ایک ایسی ہی کہانی چھوڑ آیا ہوں جہاں کسی نے میری محبت کو بیاماں کر دیا اور میں بھی تمہاری طرح انتظار ہی کرتا رہا۔'' اور پھر یوں ہوا کہ وہ جو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی، اس نے یہ کوشش ترک کر دی اور اس مہربان اجنبی کی معیت میں گاڑی میں سوار ہو گئی۔لیکن اس مرتبہ اس نے آنکھوں میں کوئی خواب نہیں سجائے تھے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں آنکھوں کو کتنی تکلیف دیتی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles