Mujhe Jeene Do - Article No. 1846

Mujhe Jeene Do

مجھے جینے دو! - تحریر نمبر 1846

بوسفورس ندی کے کنارے ایک چائے کی دکان ہے۔ یہ دکان گلہانے پارک کے بالکل سامنے واقع ہے۔ مرکزی سڑک پارکرکے سامنے پارکنگ ہے اور اس کے پیچھے کھلی فضا میں کرسیوں اور میزوں کا جگہ جگہ پر اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ جگہ کششِ دل کا مرکز ہے۔ ندی کے کنارے بیٹھی ایلمیراپانی کی موجوں کو دیکھنے میں محو تھی جس میں جیلی مچھلیاں نظر آرہی تھیں۔ ان شفاف جانداروں کو دیکھ کر اس نے چین کی سانس لی۔ اس نے پھر اپنی توجہ سامنے بیٹھے اپنے شوہر ڈینیل کی طرف مرکوز کی۔

 ABEENAAZ JANALLY آبیناز جان علی ہفتہ 29 دسمبر 2018

بوسفورس ندی کے کنارے ایک چائے کی دکان ہے۔ یہ دکان گلہانے پارک کے بالکل سامنے واقع ہے۔ مرکزی سڑک پارکرکے سامنے پارکنگ ہے اور اس کے پیچھے کھلی فضا میں کرسیوں اور میزوں کا جگہ جگہ پر اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ جگہ کششِ دل کا مرکز ہے۔ ندی کے کنارے بیٹھی ایلمیراپانی کی موجوں کو دیکھنے میں محو تھی جس میں جیلی مچھلیاں نظر آرہی تھیں۔ ان شفاف جانداروں کو دیکھ کر اس نے چین کی سانس لی۔
اس نے پھر اپنی توجہ سامنے بیٹھے اپنے شوہر ڈینیل کی طرف مرکوز کی۔ اس نے ڈینیل کابایاں ہاتھ اپنے دایاں ہاتھ میں لیا اور اس کی ہرے رنگ کی آنکھوں میں اپنی خوشاں تلاش کرنے لگی۔ انہیں آنکھوں پر وہ پہلی نظر میں فریفتہ ہوئی تھی۔ ان آنکھوں کی چمک میں ایسی کشش تھی جس سے آس پاس کی چیزیں روشن نظر آتیں۔

(جاری ہے)

اتنے میں بیرا ن کی چائے لیے سامنے حاضر ہوا۔

دوٹرکش چائی میز پر رکھ کر وہ چلا گیا۔ ایلمیرا نے اپنی چائے اور اپنے شوہر کی چائے میں دو دو چمچ شکر ڈالیں۔ ترکی میں ان کا سفر اسی طرح شیرینیت سے گزر رہا تھا۔ بس وہ اور ڈینیل۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔ ایک پل کے لئے اس نے آنکھیں بند کیں اور اپنا سر آسمان کی جانب اٹھایا۔ بہار کے موسم کی نرم دھوپ اس کے چہرے کو عجیب لطف پہنچارہی تھی۔ اچانک ہوائی جہاز کے شور نے اسے آنکھیں کھولنے پر جیسے مجبور کردیا۔
ایلمیرا نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ اس بار اس کو ایک کالے بادل نے جیسے گھیر لیا۔ ٹرکش ائیرلائنس کو ہوا میں پرواز کرتے ہوئے اسے اچانک یاد آیا کہ یہ ملک اس کا نہیں ہے۔ وہ یہاں صرف ایک مسافر ہے جسے دو دن بعد اپنا سامان باندھ کر پھر واپس نیویارک جانا ہوگا۔ نیویارک جا کر پھر وہی زندگی۔ وہی اجنبیت اور وہی حسرتیں اور ناتمام آرزائیں اُن کا استقبال کر رہی ہونگیں۔
گھبرا کر ایلمیرا نے ڈینیل کی طرف دیکھا۔ اس بار دھوپ سے بچنے کے لئے ڈینیل نے اپنی حسین بڑی آنکھوں کواپنے کالے چشمے سے چھپا دیا تھا۔ ان کالے شیشوں میں ایلمیرا کو ان کا چار بیڈروم والا فلیٹ نظر آیا۔ اس فلیٹ میں ڈینیل کی ماں نظر آئی۔ گھر پر ڈینیل اس کا شوہر کم اور نینا اور مائیکل کے ماموں زیادہ نظر آتا۔ بس سفر کے دوران ہی اس کا شوہر پوری طرح اس کا معلوم ہوتا۔
سفر کے دوران ہی دونوں کو قربت کے لمحات نصیب ہوتے اور بس اپنے لئے جینے کا موقع نصیب ہوتا۔ یہ سفر انہوں نے زندگی سے چرائے ہیں۔ وہ زندگی جو میاں اور بیوی کوازدواجی زندگی کا حق دینے سے قاصر ہے۔ ایلمیرا نے دوبارہ ندی کی طرف دیکھا اور چپکے سے اپنے آنسو پونچے۔ ایلمیرا اور ڈینیل کی میز سے تھوڑا آگے انجم مینرا کی بغل میں بیٹھی اس کے ہاتھ کو زور سے پکڑ رہی ہے۔
دونوں بوسفورس ندی کے اس طرف بیٹھیں یوروپ کی جانب حیرت سے دیکھ رہی ہیں۔ ’ابھی ہم ایشیا میں بیٹھے ہیں اور دوسری طرف سامنے یوروپ نظر آرہا ہے۔ کیا خوب نظارہ ہے۔‘ منیرا بول اٹھی۔ انجم نے حامی بھری اور منیرا کے کندھے پر سر رکھا۔ اس کندھے پر وہ دنیا و مافیہا کو بالائے طاق رکھ کر سکون کے لمحات کو اپنی سانسوں میں قید کررہی تھی۔ منیرا کی خوشبو سے اسے احساس ِتحفظ نصیب ہوتا۔
وہ تحفظ جسے وہ بچپن میں ابو کی بانہوں میں تلاش کرنا چاہتی تھی لیکن ابو اسے کبھی گلے نہیں لگاتے تھے۔ اچانک امی کی باتیں اس کے کانوں کے پردے سے ٹکرائیں: ’زیادہ لاڈ پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔‘ انجم کو امی کی ان باتون سے نفرت تھی۔ وہ منیرا کے اور قریب جا بیٹھی اوراپنے ہاتھوں کو منیرا کی کمر کے ارد گرد زور سے پکڑا۔ منیرا نے انجم کی پیشانی کو چومتے ہوئے کہا: ’میں تمہارے ہر خو ف کو دور بھگا دوں گی۔
‘ ’اسی لئے میں تمہیں اتنا چاہتی ہوں۔ تم میری ہر تکلیف کو سمجھتی ہو۔ مجھے آج تک کوئی نہیں سمجھ پایا۔‘ ’میں ہوں نہ تمہارے لئے !‘ منیرا نے آہستگی سے انجم کے کانوں میں کہا۔ منیرا نے پھر اپنی آنکھیں بند کیں اور اچانک اس کے چچاکا بھیانک چہرہ سامنے آیا جس نے بچپن میں اسے وقت سے پہلے ایسے احساسات سے دوچار کرایاتھا جس کی وجہ سے آج بھی منیرا کا دل مردوں کے لئے نفرت سے ابل پڑتاہے۔
انجم کی میٹھی اور معصوم آواز منیرا کو واپس اس پرسکوں دنیا میں لے آیا۔ ’اب صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں۔ جلد واپس گھر جانا ہوگا اور پھر ہمیں اپنے رشتے کو دنیا سے چھپانا پڑے گا۔‘ ’مجھے خوشی ہے ان دو ہفتوں میں میں تمہیں وہ تمام خوشی دے پائی جس کی تم مستحق ہو۔‘ ’ میں بہت خوش ہوں اور سکون محسوس کررہی ہوں۔‘ انجم نے منیرا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
دوپہر کا وقت تھا۔ چاروں طرف لوگوں کا ہجوم تھا۔ یہ چائے خانہ نہایت مقبول ہونے کے باعث ہر وقت لوگوں سے بھرا ہوا رہتا۔ کھلے آسمان کے نیچے سب لوگ ندی کی ٹھنڈک اور ٹھنڈی ہواؤں کا لطف اٹھانے آئے تھے۔ لوئیس اور میٹھیلدہ کو بیچ کی میز پر جگہ ملی کیونکہ سب لوگ ندی کے کنارے کی سیٹ کو آتے ہی فوراًمنتخب کرلیتے ہیں۔ ’مجھے یہاں کی چائے بہت پسند آرہی ہے۔
ہمیں گرانڈ بازار سے چائے ضرور لینی چاہئے۔‘ ’لیکن زیادہ نہیں۔ دو دن بعد ترکی سے نکل کر مصر کے لئے روانہ ہونا ہے۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ جانا ہے۔ ہم زیادہ سامان نہیں خریدسکتے۔‘ لوئیس نے میٹھیلدہ کو یاد دلایا۔ ’وہ سب تو ٹھیک ہے۔ آدھے کلو کی چائے کم سے کم لے ہی سکتے ہیں۔‘ میٹھیلدہ نے اصرار کیا۔ ’پینتیس سال میں، میں تم سے کبھی بحث میں جیت پایا ہوں؟‘ لوئیس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
’میں کہاں بحث کر رہی ہوں؟‘ میٹھیلدہ نے حیرانی سے پوچھا۔ لوئیس نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔ اس کے مطابق ان کی شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا یہی راز ہے۔ اس نے خود کو غیر ضروری بحثوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ اس نے اپنے آس پاس نظر گھومائی اور بوسفورس ندی میں آتے جاتے جہازوں کی طرف متوجہ ہوا۔ لوئیس نے زندگی بھر کام کیا۔ چالیس سال کی ملازمت کے بعد وہ اور میٹھیلدہ اتنی رقم جمع کرپائے کہ اب انہیں دنیا دیکھنے کی فرصت مل پائی۔
ملازمت کے وقت انسان کی زندگی اس کی اپنی نہیں رہتی۔ مالک جو حکم دے اسی کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ لیکن اب وہ ایک پرندے کی طرح آزاد تھااور گویا اب اس کی نئی زندگی شروع ہو رہی تھی۔ اب زندگی کو جینے کا وقت آگیا تھا۔ بچوں کی شادیاں ہو چکی تھیں، گھر کا قرضہ بھی ادا ہوچکا تھا، اب موت کا انتظار کرنے سے یہی بہتر تھا کہ دنیا دیکھی جائے۔ اس بات کے لئے لوئیس زندگی کا نہایت احسان مند تھا۔
زندگی کی احسان مند شبنیز بھی تھی جسے اکیلی ندی کی بغل میں جگہ ملی اور وہ چپ چاپ ٹرکش چائے کی دوسری پیالی کا انتظار کر رہی تھی۔ دنیا دیکھنے کا شوق شبنیز کو ہندوستان سے ٹرکی لے آیا تھا۔ شبنیز کواکیلے رہنا پسند نہیں۔ پھر بھی اگر وہ اکیلی یہ سفر کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی تو اسے کبھی دنیا دیکھنے کا موقع نہ ملتا۔ شبنیز کے مطابق سفر سب سے بڑا استاد ہے جو ہم میں وہ صلاحیتیں پیدا کرتا ہے جس سے ہمارے ذہن کی نشوونما کے ساتھ ساتھ ہماری پوری تربیت بھی ہوتی ہے۔
اتنے میں ایک ٹرکش جوڑا شبنیز کی میز کے قریب آیا اور اشاروں سے اسے اٹھنے کے لئے کہا۔ شبنیز اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ پھر اس عورت نے انگریزی میں اس کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’دِس پلیس بیزی!‘This place busy. شبنیز نے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے ندی کی طرف چہرہ گھوما لیا۔ آخرکار اس ٹرکش جوڑے کو کوئی اور جگہ تلاش کرنی پڑی۔ اپنے غصّے کو نگلتے ہوئے شبنیز کی آنکھیں ذرا نم ہوئیں۔ اس نے سوچا یہ دنیا اکیلی لڑکی کو کمزور کیوں سمجھتی ہے ؟ شیر تو اکیلا چلتا ہے۔ دنیا میں جہاں لوگ بغیر سہارے کے کچھ نہیں پاتے وہاں اپنی زندگی اکیلے جینے کا فیصلہ کرنا جسارت کی بات ہے۔ ’مجھے جینے دو! مجھے جینے دو! ‘ شبنیز بوسفورس کی بہتی ندی کی جانب دیکھ کر کہتی گئی۔

Browse More Urdu Literature Articles