Payas - Article No. 1445

Payas

پیاس - تحریر نمبر 1445

بی بی جی باہر ایک بوڑھا آدمی آیا ہے وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے چوکیدار نے مجھے کہاتو میں خود ہی گیٹ تک چلی آئی باہر ایک ستر سالہ بوڑھا کھڑا تھا مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا بی بی جی آپ مجھے مالی رکھ لیں میں آپ کے لان کو ہرا بھرا کردوں گا۔

پیر 21 اگست 2017

مسرت واحد خان:
بی بی جی باہر ایک بوڑھا آدمی آیا ہے وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے چوکیدار نے مجھے کہاتو میں خود ہی گیٹ تک چلی آئی باہر ایک ستر سالہ بوڑھا کھڑا تھا مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا بی بی جی آپ مجھے مالی رکھ لیں میں آپ کے لان کو ہرا بھرا کردوں گا۔ مالی کی مجھے اشد ضرورت تھی لیکن یہ بابا بہت ضعیف تھا مجھے تو ایک جوان مالی کی ضرورت تھی بابا اس عمر میں کام کرتے ہو۔
اب تمہارے آرام کے دن ہیں۔ میں نے اس کے جھریوں بھرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بی بی جے میں بہت مجبور ہوں۔ مجھے پیسوں کی ابھی اشد ضرورت ہے ۔ خدا کے لئے آپ مجھ سے کام کروا کہ تو دیکھیں۔ آپ میرے اس ہڈیوں کے پنجر کو مت دیکھیں۔ ان ہاتھوں کی طرف دیکھیں۔ ان میں ابھی بہت جان ہے اس نے اپنے کھردرے ہاتھ میرے آگے کردیئے۔

(جاری ہے)

بابا اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے تو میں تمہاری مدد کردیتی ہوں لیکن آپنے اس بڑھاپے کی مٹی مت پلید کرو۔

میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بھرائی آواز میں بولا بی بی جی بھیک ہی مانگنی تھی تو آپ کے پاس کیوں آتا کسی چوراہے پر نہ جا کے بیٹھ جاتا۔ لیکن میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا ساری زندگی محنت مزدوری کی ہے۔ حق حلال کی کمائی کھائی ہے اب اس عمر میں ذلیل خوار نہیں ہونا چاہتا۔ اب تو پھر میرے مشقت کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ میرے بیٹے کا تعلیم کاآخری سال ہے پھر اسے بہت اچھی نوکری مل جائے گی اور میرے بقیہ زندگی کے دن آرام سے گزر جائیں گے۔
لیکن بی بی ابھی اسے پیسوں کی ضرورت ہے۔ میں نے بابا کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے اسے مالی رکھ لیا۔ جس سے اس کی آنکھوں میں اطمینان کی لہریں دوڑنے لگیں۔ واقعی بابا نے جیسے کہا تھا ویسے کر دکھایا اس نے قدر محنت کی کہ تھوڑے دنوں میں لان ہرابھرا ہوگیا۔ بلکہ وہ کچن کے کاموں میں بھی میری مدد کردیتا ۔ اپنے کام میں اتنا مگن رہتا کہ اسے آس پاس کا ہوش نہ رہتاشاید اسے خدشہ تھا کہ میں کہیں اس کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے نکال نہ دوں۔
میں اسے سارا دن کام میں مگن دیکھ کر آرام کا مشور ہ دیتی تو وہ ہنس دیتا۔ بی بی جی یہ تو کوئی کام نہیں ہے۔ میں نے اپنے زندگی میں اتنی مشقوں کے کام کئے ہیں کہ آپ کو کیا بتاؤں؟ ابھی آپ کے پاس آنے سے پہلے میں ایک ٹھیکیدار کے پاس محنت مزدوری کرتا تھا پتہ نہیں اس کے دم میں رحم تھا کہ اس کا رحم میرے لئے وبال جان بن گیا ایک دن اس نے مجھے بلایا میری مزدوری سے دس گنا رقم نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دی اور کہنے لگا باباجاؤ اب آرام کرو۔
میں لاکھ اس کی منتیں کیں کہ مجھے نہ نکالو لیکن اس کی عقل میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ میں جب آرام کروں گا تو کیا رزق مجھے آسمان سے ٹپکے گا اس کو میرا بڑھاپا تو نظر آگیا میرا پیٹ نہ دکھائی دیا میری مجبوریاں نہ سمجھ سکا۔ شاید وہ بھی سچا تھا اس نے سوچا ہوگا کہ اب ان بوڑھی ہڈیوں میں دم خم رہ گیا ہے جو میں اپنی رقم ضائع کروں اس کی جگہ کسی صحت مند نوجوان کو رکھوں گا اتنے پیسوں میں کام زیادہ کرے گا جو میں اس بوڑھے کو دیتا ہوں ۔
بی بی جی یہ سوچ کر میں نے اس کی بات مان لی اور وہاں سے چلا آیا۔ بابابولتا ہی چلا گیا۔ بابا تمہارا بیٹا کیا پڑھ رہا ہے۔ میں نے استفسار کیا بی بی جی وہ کوئی کورس کر رہا ہے۔ کورس ختم ہونے کے بعد اسے نوکری،گھر اور گاڑی مل جائے گی۔ اس کے بعد میرے مشقت بھرے دن ختم ہوجائیں گے۔ باباکو جو تنخواہ دیتی وہ اسے لے کر فوراََ ڈاک کے خانے چلاجاتا اور منی آرڈر کر کے دم لیتا۔
جس دن وہ پیسے بھیجتا اس دن اس کے چہرے پہ اطمینان س ہوتا اور یوں وقت گزر گیا کہ سال بھر کا عرصہ بیت گیا ایک روز بابا ایک خط لے کر دوڑتا ہوا میرے پاس آیا کہنے لگا بی بی جی ذرا جلدی سے پڑھ کر سنائیں خالد بیٹے نے کیا لکھاہے؟ میں نے لفافہ چاک کی اور خط پڑھنا شروع کر دیا لکھا تھا کہ مجھے ملازمت اور گھر مل گیا ہے اور میں نے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی بھی کرلی ہے۔
شادی کی اطلاع میں نہ دے سکا۔ کیوں کہ مصروفیات بہت تھیں اب آپ رقم نہ بھیجا کریں۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ خط پڑھ کر میرا دل اداس ہوگیا کہ یہ کیسا بیٹا ہے جو اپنی شادی پر اپنے باپ کو بھی بھول گیا جو اس کے سکھ چین کے لئے اس بڑھاپے میں محنت مزدوری کرتا رہا ہے۔ لیکن بابا کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں حیران رہ گئی جو کہہ رہا تھا کہ بی بی جی خالد نے اچھا کیا جو شادی کرلی ورنہ اس عمر میں کہاں لڑکی تلاش کرتا اس نے میرے سر سے بہت بڑا بوجھ اتار دیا ہے۔
اللہ اسے خوش رکھے۔اب میں سوچ رہا ہوں کے جلد از جلد اپنے بیٹے کے پاس چلا جاؤں کیونکہ بہو کو دیکھنے کی خواہش دل میں مچل رہی ہے۔ اب بی بی پوتے پوتیاں کھلاؤں گا تو بقیہ زندگی سکھ چین سے کٹ جائے گی۔ یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔ آج شام کی ٹرین سے نکل جاؤں گا۔ آپ نے میری بہت مدد کی آپ کا بہت شکر یہ۔ بابا کے جانے کا سن کر میں اداس ہوگئی کیونکہ بابا نے مجھے بہت آرام پہنچایا تھا۔
پھر مجھے ایک دم اپنی خود غرضی کا خیال آیا تو میں نے اپنے خیالات جھٹک کر بابا کوکہا کہ کبھی نہ کبھی چکر لگا لیا کریں۔ بابا نے وعدہ کیااور خدا حافظ کہتا ہوا چلا گیا۔ پندرہ دن کے بعد بابا دوبارہ واپس آگیا تو مجھے حیرانگی ہوئی وہ تو سدا کے لئے یہاں سے اپنے بیٹے کے گھر چلا گیا تھا دوبارہ اتنی جلدی کیسے واپس آگیا۔ اس کے چہرے پر غم کے آثار تھے جیسے کہ اس کا بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔
بابا خیریت اتنی جلدی ہماری یاد آگئی ۔ میں نے پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا میں تو بہت چاؤ کے ساتھ یہاں سے گیا تھا ۔ کہ اپنے بیٹے اور بہو کے پاس رہو ں گا لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کو میری ضرورت نہیں رہی کیونکہ میری خستہ حالت دیکھ کر ان کو لوگوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑتی تھی۔ انہوں نے مجھے اچھا سے اچھا پہناوا پہنایا لیکن میری چہرے کی غربت نہ مٹا سکا۔
وہ مجھے نیا بنانا چاہتے تھے لیکن میں پرانا ہی رہا ان کا اجلا گھر چمکتی گاڑی اور میری گوڑی چٹی بہو اور اس قدر نازک مزاج کہ گھر کے کونے میں بیٹھنا تو وہ بدنما لگتا تھا اور کی نفاست پسند طبیعت میں اختلاج شروع ہوجاتا اور میرا بیٹا جو منہ سے تو کچھ نہیں بولتا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں پریشانی اور بے بسی دیکھ کر میں بی بی جی لوٹ آیا۔ یہ کہہ کر بابا باقاعدہ رونے لگا۔
مجھ سے بابا کا رونا نہ دیکھا گیا میں نے فوراََ کہا کہ بابا آپ کے جانے سے یہ باغیچہ اداس ہوگیا تھا بالکل مرجھا گیا تھا بابا ادھر آپ کی ضرورت نہ سہی ادھر بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے لان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔بابا دیکھو آپ کے آنے سے یہ پھول کیسے کھل اٹھے ہیں تو بابا کے چہرے پہ اطمینان اور آنکھوں میں خوشی لوٹ آئی۔

Browse More Urdu Literature Articles