Rape - Article No. 2287

Rape

ریپ - تحریر نمبر 2287

خاکی شیطان کی بھوک سے شروع ہونے والی، کہانی کا اختتام ، انسانوں کی بستی میں، ایک بے گناہ کی موت پر ہوا۔ بغیر پہرے کے، بھوک آزاد ہو جاتی ہے، پر لگ جاتے ہیں اسے!!۔ مرد بے لگام چھوڑ دیا جائے تو وہ خاکی شیطان بن جاتا ہے!!

Atif Nadeem عاطف ندیم ہفتہ 21 مارچ 2020


شکار کے معاملے میں انسان اور جانور میں بہت عجیب فرق ہے ،اوریہی فرق، انسان کو حیوانیت کے قریب تر کر دیتا ہے۔ جانوروں کے برعکس!! انسان ! شکار کے زندہ جسم کو ہی نوچنا شروع کر دیتا ہے،سر سے پاؤں تک ،اس کے تڑپتے جسم پر اپنے دانتوں سے وار کرتا ہے۔اس کی گردن، کمر اور کلائیوں پر اپنے دانتوں سے پھول بنا ،خودجھومنے لگتا ہے۔

اور اس کھیل کا، بھیانک ترین اختتام ایسے بھی ہوتا ہے کہ، اس کٹے پھٹے، خون الود اور تڑپتے جسم کو اکژ زندہ چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے میں وہ معصوم شکار بار بارموت کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے بعد کی زندگی ،اس کے لیے موت سے بھی زیادہ بھیا نک ہو سکتی ہے۔مگر انسان ااس تڑپتے شکار کو، زندہ چھوڑ کر موت سے بھی بڑی سزا دیتا ہے۔

(جاری ہے)


اغوا ہ ہونے والی، اکیس سالہ اس لڑکی کے جسم کے ساتھ بھی، شکاری کئی روز تک کھیلتے رہے، ،نوچتے رہے اس کا جسم،ان کے دانتوں سے ، اس کے نازک بدن کا کوئی حصہ نہ بچ سکا۔

اس کے جسم کے ایک ایک حصے کو نوچا گیا،، اور بار بار نوچا گیا۔۔ درد وحشت سے اس کا دکھتا جسم، زندگی سے موت کی بھیک مانگتا رہا۔جسم کے ساتھ روح تک فنا ہو چکی تھی اس کی۔ مگر حوس زدہ پیاسی بھوک ،ابھی بھی اس کے گرد مست ناچ رہی تھی!!! ۔ کیسی بھوک تھی یہ!! جو مٹنے کا نام بھی بھول چکی تھی۔جسم کی بھوک تو کچھ دیر کے مہمان جیسی ہوتی ہے نا!!۔۔۔پھر!! پھر یہ بھوک کیوں زندہ ہے ابھی تک!؟؟۔
اوہ اچھا!!۔اب سمجھ آئی!! ۔بھوک جب حلال و حرام کا دائرہ توڑ ڈالے نا!! تو پھر! ایسی شکل اختیار کر تی ہے جسے کبھی موت نہیں آتی۔ جیسے کئی روزسے،اس لڑکی کے جسم سے کھیلتے خاکی شیطان اب بھی بھوکے تھے۔۔ایسی حرام بھوک جاہل اور اندھوں معاشروں میں پروان چڑھتی ہے ، زندہ رہتی ہے اور سر عام جھومتی ہے۔
یہ اس کی خوش نصیبی تھی یا بد قسمتی!! جو وہ خاکی شیطان کی قید سے زندہ بازیاب ہو چکی۔
جس نازک کلی کو، خاکی شیطان نے اپنے ناپاک وجود سے مسل ڈالا ، اب وہی کلی، اپنوں میں دوبارہ لوٹ رہی ہے۔ اس معاشرے میں لوٹ کے جارہی ہے، جس کی لغت میں داغ کا لفظ صرف صنف نازک کے لیے بولا جاتا ہے،، اور وہ بھی ایسا داغ !! جسے مٹانے کے لیے، عورت کو اپنی شہ رگ پر چھری چلانی پڑتی ہے !! اس داغ کو، اپنے خون سے دھونے کی کوشش کرتی ہے اس ،،،مگر !!یہ داغ تو، اس کے خون کے ساتھ بھی نہیں صاف ہوتا۔
بلکہ!!! یہ داغ ، اس کے کفن سے ہوتا ہوا، اس کے ساتھ قبر میں جاتا ہے۔وہ مر کر ، دفن ہو جاتی ہے مگر، اس کا داغ پھر بھی ، زندہ رہتا ہے!!!۔
" جب سے گھر لوٹی ہو اسی طرح خاموش بیٹھی ہو۔۔تمھاری ماں کتنی دیر سے تمھارے پاس بیٹھی ہے،، باتیں کرو مجھ سے۔"وہ بیڈ پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بت بنی بیٹھی تھی۔چہرے پر بکھرے سر کے بالوں صیح کرتے ہوئے،، اس کی خاموشی اور اداس بیٹھنے پر شکوہ کیا۔
۔
"باتیں کیسے کروں امی!ْ!!!!؟؟؟میں تو رونا چاہتی ہوں !! ہاں امی !!!زور زور سے چیخنا چاہتی ہوں!! چلانا چاہتی ہوں میں!!!۔"
"روتی بھی تو نہیں ہو تم!!۔جب سے آئی ہو گم سم بیٹھی چھت کو ہی دیکھے جا رہی ہو۔"
"کیسے روتی امی!! کسی نے بھی سینے سے نہیں لگایا!!۔پھر کیسے روؤں امی!!۔۔۔۔کیوں امی!!؟؟ ۔ کہا ں ہیں سب؟؟ بابا، بھیا۔۔۔اور آپی!!آپی تو اتنی دور نہیں رہتی،،، آپی کو ترس نہ آیا اپنی چھوٹی بہن پر۔
کیا!!۔کیا ان سب کو،، میرے زندہ لوٹنے پرافسوس ہے!!؟؟۔
"ایسی بات نہیں ہے میری جان۔تمھیں زندہ دیکھ کر تو تمھاری ماں جی اٹھی ہے۔ آجائیں گے وہ سب بھی۔"
"جو ہوا اس میں میرا کیا قصور تھا امی! ۔ میں گھر سے تو نہیں بھاگی تھی!!!!۔۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ مجھے اغوا کرنے والے لوگ کون تھے "اسی طرح دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ماں سے باتیں کیے جا رہی تھی
"ہم سب جانتے ہیں کہ تم بے قصور ہے،، تمھارا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔
۔۔ کیوں پریشان ہوتی ہوتم ۔تمھاری ماں تمھارے ساتھ ہے۔"
"ماں تو اندھی ہوتی ہے،ماں تو گنہگارر اولاد کے بھی ہاتھ چوم لیتی ہے۔۔۔مگر یہ کیسی دنیا ہے امی!! جہاں کوئی باپ، بھائی اور باقی عزیزحقیقت جانتے ہوئے بھی،، ایک بے گناہ لڑکی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔۔۔۔امی!!ایک بیٹی درندوں کے منہ سے چھلنی جسم کے ساتھ واپس آئی ہے!!!،،بجائے اس کے کہ میرے زخموں پر مرہم رکھا جاہے!!!، مجھے اور اذیت دی جا رہی ہے۔
"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور دن شام ہو چکا،،سورج زرد ی کی چادراُتار پھینک چکا تھا، سیائی کا تاریک لباس، روشنی کا گلا گھوٹنے سورج کی جانب بڑھ رہا تھا۔ آنے والی رات کی وحشت اور سناٹے سے خوف زد،ہ تمام چرند پرند گھروں کے جانب دوڑ رہے تھے۔چاروں طرف پھیلا انسانوں کا ہجوم بھی سورج ساتھ، دھیرے دھیرے کم ہورہا تھا۔
اس ایک چھوٹے سے شہر کی گلیوں میں، سناٹا بھی ڈھیرے ڈال چکا تھا۔ ۔وقفے وقفے سے، کسی شیر خوار بچے کی چیخ ،سناٹے کو توڑ دیتی ،مگر ماں، ڈر اور خوف کے ہتھیار سے ، بچے نیند کی تاریکی میں دھکیل دیتی۔ دن بھر کے انسانوں کے ہجوم اور شور سے تنگ، گلیوں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ ایسے میں ٰیک پولیس وین ،گلی کے سرے پرآ رُکی۔وین سے دو موٹی سی لیڈی پولیس نیچے اتری،،، اور پھر ایک نوجوان لڑکی ،،، آہستہ آہستہ وین کا سہارا لیتے نیچے اتری۔

ننگے پاؤں، ادھڑا لباس،بکھرے بال ، انکھیں درد کی شدت سے پھیلی ہوئی، چہرہ کا منظر اس لاعلاج مریض جیسا، جس کے چہرہ سے زندگی کے سبھی رنگ مٹ چکے ہو۔ مسلسل کئی روز تک حوا کی یہ بیٹی حوس کے پجاریوں کا سامان لذت بنی رہی اورآخر کار بازیابی کے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے پولیس وین سے اتر رہی تھی۔ اس وقت گلی بالکل ویران تھی،، گلی کی طرح اس لڑکی کے گھر کا دروازہ بھی ویران تھا۔
ان بوجھل اورویران آنکھوں نے نگاہ اٹھا کر جب اپنے گھر کے دروازے کو دیکھا تو اسے لگا کسی انجان گھر کے سامنے کھڑی ہے۔وہ نادان تو سمجھ رہی تھی کہ اس کی واپسی کی خوشی میں اس کا دروازہ پر استقبال ہو گا، اس کے زندہ لوٹنے کی خوشی میں سب گھر والے اسے سینے سے لگانے کو بیتاب ہونگے۔اپنا جسم گنوا کے آنے والی لڑکی، اس بات سے لاعلم تھی کہ جس لڑکی کو خاکی شیطان کا منہ لگ جائے نا!!! تو مومنوں کی بستی میں، وہ چھوت بن جاتی ہے ،اس کے وجود سے ان مومنوں کو بدبو آنے لگ جاتی ہے۔
۔۔ یہ بو جھل ننگے پاؤں لیے، جب دروازہ پر پہنچی تو وہاں صرف اندھی ممتا ہی باہیں پھیلائے کھڑی تھی۔۔باقی سب گھر والے کہاں تھے!!!۔ باپ، بھائی، بھابی و غیرہ ،،، شاید وہ سب گھر کی بے گناہ بیٹی کی ،واپسی پر ماتم کر رہے تھے۔
اپنے کمرے میں نیچے بیٹھے ہوئے ، اس کی منتظر نظریں،مسلسل کمرے کے کھلے دروازہ پر ٹکی رہتی۔ مگر!! جب اپنوں کے دلوں پر قفل پڑ جائیں نا!!! تو پھر کُھلے دورازے سے ویران رہ جاتے ہیں ۔
۔بابا، بھیا اور آپی کی راہ تکتے تکتے بہت وقت گزر چکا تھا۔ اس دوران سوائے ماں کے اسے کوئی ملنے نہ آیا۔گزرتا وقت اس کے چہرے سے امید کے سارے رنگ مٹاتا جا رہا تھا۔۔اب تو کمرے کا دروازہ بھی اسے چڑانے لگا تھا۔وہ بڑی مشکل سے اٹھی، چند قدم آگے بڑی اور امید کے دروازہ کو زور سے بند کر لیا اور خود فرش پر ڈھیر ہو گئی۔ زندہ واپسی پر اب اسے غصہ آرہا تھا کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ کا اس کا جسم اب بدبو دار ہو چکا ہے، اور اس تعفن زدہ وجود، اس کے اپنے گھر والوں کے لیے بھی ، ناقابل قبول ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھابی !! کیا ہو گیا ہے آپ کو!!!؟؟؟۔ آپ کمرے میں تو آتی ہیں مگر کوئی بات تک نہیں کرتیں،، کیوں بھابی۔"
"سنو!!!میرے اور بھی بہت کام ہیں!! جب فارغ ہوئی نا! تو بات بھی کر لوں گی تم سے۔۔ "بھابی نے لاپروائی سے بغیر اس کی طرف دیکھے جواب دیا ۔
"بھابی! ! بھیا کیسے ہیں!!؟؟ ۔مجھے لوٹے دوسرا دن ہے، مگر ابھی تک ان کو نہیں دیکھا۔
بھیا ٹھیک تو ہیں نا!!؟؟۔"
"کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں ان حالات میں!!! ۔۔۔بہت دنوں بعد آج آفس گئے تھے،، مگرجلد ہی واپس آگئے۔۔ کہتے ہیں!! لوگوں کی اُٹھتی، چیختی نظروں کا سامنا نہیں کر سکتا۔"بھابی کے لہجے میں حقارت کو وہ محسوس کر رہی تھی۔۔
"کیا مطلب بھابی!!کیا بھیا نہیں جانتے کہ،،،،،،،، ان کی بہن بے قصور ہے۔۔۔۔۔۔میں کسی کے ساتھ،،،،،، بھاگی تو نہیں تھی!! ،،،،اغوا کیا گیا تھا مجھے بھابی !!۔
" اس کی آنکھیں نم ہو چکی تھی، کیونکہ وہ ان لوگوں کو صفائی دے رہی تھی جن کا اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کا فرض بنتا تھا۔
"اچھا! !ٹھیک ہے! چلو مان لیتے ہیں کہ بے قصور ہوتم،،،، مگرلوگوں کو کیسے یقین دلاؤ گی تم؟؟ ہاں!!۔۔"
" آپ سب کولوگوں کی پرواہ کیوں ہے بھابی۔"
"سننا چاہتی ہو کیوں!!!کیونکہ انہی لوگوں میں تمھارا سسرال بھی ہے۔
وہ لوگ تو بالکل ہی خاموش ہیں۔۔یہ ساتھ دوسری گلی میں ہی تو گھر ہے ان کا!!!۔اب اتنا تو تم بھی سمجھ سکتی ہو نا کہ سسرال کی خاموشی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟؟۔"
"آپ،،،،،،، آپ سچ بول رہی ہیں بھابی!!؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!۔مطلب!! میرے سسرال کو بھی شک ہے مجھ پر۔"
"شک کیوں نہ ہو !!!۔ اتنی راتیں گھر سے غائب رہی ہو۔تم کہاں تھی! کس کے ساتھ تھی! کیا کچھ ہوا تمھارے ساتھ۔
ان سب باتوں کے جواب ہیں کسی کے پاس۔ بولو!! تم صفائی دے سکو گی۔"
"کیسی صفائی بھابی!!میں نے کوئی گناہ تو نہیں کیا!!۔بے قصور ہوں میں!!۔میرا اللہ جانتا ہے ۔۔"
"اور اسی اللہ کے گھر کے اندربھی لوگوں کی نگاہیں سوال کرتی ہیں ۔ تمھارے باپ کو دیکھتے ہی لوگ سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں۔اور جانتی ہو تم!!!۔ اسی وجہ سے ،بابا نے مسجد جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔
"
"آپ ہی بتائیں بھابی،، پھر میں کیا کروں؟۔ مار ڈالوں خود کو!! یا بھاگ جاؤں یہاں سے۔کیا کروں میں۔"
"تمھیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔کچھ بھی نہیں!!۔ جانتی ہو کیوں!؟۔ کیونکہ تم جیسی لڑکیوں کا فیصلہ وقت کرتا ہے ،،، حالات فیصلہ کرتے ہیں ،،یا پھر لوگوں کا رویہ ،، تمھاری منزل طے کرے گا۔اسی لیے کسی سے گلہ کرنے کے بجائے انتظار کرو۔
وقت اور حالات تمہارا فیصلہ خود کر دیں گے۔"بھابی کا اشارہ جس منزل کی طرف تھا، اس کی مطلب دیر سے سمجھ آیا اسے،مگر بھابی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
"بات فیصلہ کی ہوتی تو میں صبر بھی کر لیتی۔۔ !!۔ مگراب! اتنا تو میں جان چکی ہوں کہ میرے لیے سوائے اذیت کے اس زندگی میں اور کچھ نہیں۔ ۔ اور بھابی!! بہت جلد ہی میں جان چکی ہوں کہ! داغ دار لڑکی کا کوئی بھائی نہیں ہوتا،،، کوئی باپ نہیں ہوتا،،،، کوئی شوہر نہیں ہوتااس کا۔
بلکہ ایسی لڑکی پر تو، زندگی کے تمام دروازہ بند کر دیے جاتے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریک کمرے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی، دور خلاؤں میں اپنی کھوئی زندگی تلاش کر رہی تھی۔مگر ان خلاؤں میں بھی سوائے سناٹے اور اندھیروں کے اور کچھ نظر نہ آیااسے۔۔وقت کے ساتھ ساتھ ناامیدی بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اسے پتا بھی نہ چلا کب بھابی کمرے میں داخل ہوئی ۔

"یہ لو! بات کرو آپی سے۔"اس کی بھابی موبائل اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
"بھابی لائٹ آف کر کے جائیے گا۔ "بھابی کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے بھابی سے کہا موبائل کان سے لگا لیا۔
"جو انسان میرے سب سے زیادہ قریب تھا!!!جس انسان سے مجھے سب سے زیادہ امید تھی!! جس کے آنے کا مجھے شدت سے انتظار رہا!!۔ کیا !!اب وہ غیروں کی طرح مجھ سے فون پر بات کرے گا!!۔
۔۔آپی!! آخر آپ سب کس گناہ کی سزا دے رہے ہیں مجھے!!؟۔ اور اگر!! ملنا گوارہ نہیں آپ کو ،،،تو فون بھی کیوں کیا آپ نے؟۔"
" میری جان۔۔۔۔۔ بہت شرمندہ ہوں۔۔۔ شوہر ،،،،کی طبیعت،،،، بہت خراب ہے نا۔۔۔۔ اسی لیے،،، نہیں آسکی۔ مگر بہت ،،،جلد آؤں گی۔"
" جھوٹ بول رہی ہیں آپ!!کچھ بھی نہیں ہوا آپ کے شوہر کو۔۔۔ آپی!ایسا کیوں کر رہے ہیں آپ سب میرے ساتھ!!؟؟آپی!!! آپ کی بہن بہت اذیت میں ہے یہاں۔
"
" میں سمجھ سکتی ہوں میری جان ،،،،کہ تمھارے ساتھ،،،،، وہاں کیا ہورہا ہے۔۔۔مجھے معاف کر دینا۔۔۔تمھاری طرح میں بھی،،،،، جاہلیت کی قید میں ہوں۔۔۔مجھے!!!!!مجھے اپنی بے گناہ بہن سے،،،،، ملنے کی اجازت نہیں۔مگر!! میں،،، بہت جلد ،،،آؤں گی۔بھلا!!! اپنی بہن کو ایسی حالت میں،،،،، اکیلا کیسے چھوڑ سکتی ہوں!!!۔"
"چھوڑ چکی ہیں آپ مجھے آپی !!!۔
۔۔۔۔۔صرف آپ ہی نہیں!!بابا! بھیا !! میرا سسرال کوئی بھی تو نہیں میرے پاس۔بالکل اکیلی رہ گی ہوں میںآ پی۔"
"کسی نے بھی نہیں چھوڑا تمھیں!!! سنا تم نے !!! ہم سب تمھارے پاس ہی ہیں۔۔بس !!! بس کچھ دن کی بات ہے ،،،، پھرسب ٹھیک ہو جائے گا میری جان۔"
"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا اب۔۔۔۔آپی!۔ بھیا میری وجہ سے آفس نہیں جاسکتے،، بابا نے مسجد تک جانا چھوڑ دیا ہے،،،، میرے سسرا ل کی کچھ خبر نہیں!! او ر آپ بول رہی ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
"
"بھاڑ میں جائیں وہ سب !!!۔تم کیوں پرواہ کرتی ہو سب کی۔امی تو تمھارے ساتھ ہیں نا!!۔ ان کے پاس بیٹھ جایا کرو ،،،،،، ان سے باتیں کیا کرو۔"
"امی کی حالت بھی،،،،، بہت خراب ہو چکی ہے ۔۔ اور !! میرے سسرال کی خاموشی نے تو امی کو بھی بالکل خاموش کر دیا ہے۔۔۔میری وجہ سے سب کا آرام سکون تک برباد ہو چکا ہے۔"وہ ہاتھ کی انگلیوں سے گلے پر زور دے رہی تھی ، مزید بولنا اس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

"تم کیوں خود کو الزام دیتی ہو۔تمھارا تو کوئی قصور نہیں اس میں۔ بے گنا ہ ہو تم۔"
"بے گناہ ہوتے ہوئے بھی،،،،،، ان سب حالات کی ذمہ دار،،، میں ہوں۔کاش،،، کاش میں زندہ نہ لوٹتی ۔۔۔۔۔مجھے اگر،،، ان حالات کا اندازہ ہوتانا،،،، تو راستہ میں ہی مار ڈالتی خود کو۔"
" خدا را !!مت کرو ایسی باتیں۔۔"
"تنگ آچکی ہوں میں آپی۔
آپ نہیں جانتی،،،،،،، مجھ پر کیا گزر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ایک سانس،،،،، مجھ پر عذاب بنا دی گی ہے۔۔ہاں آپی!!!۔ آپ کی بہن مر رہی ہے ،،،،،،، مر رہی ہے آپ کی بہن۔"
"مت کرو،،،،،،،،، ایسی باتیں میری جان ،،حوصلہ رکھو!!!!۱ ۔ ورنہ !!!! تمھارے ساتھ ،،،،،،، تمھاری آپی بھی ،،،، مر جائے گی۔۔" بڑی بہن دوسری طرف شدت جذبات سے کانپ رہی تھی۔ اس کی سسکیوں کی آواز چھوٹی بہن سن چکی تھی۔

"آپی!!!!آپی! آپ رو رہی ہیں!!!!!؟؟ نہیں آپی۔آپ کیسے رو سکتی ہیں !!!!!! یہ آنسوؤں کا مذاق آپ،،،،،آپ میرے ساتھ نہیں کر سکتی۔ ۔ میری آنکھوں میں تو ،،،،،،،سمندر تک خشک ہو چکے!!!!!!!مگر!!اپنوں کے سینے تک سے محروم رہی میں۔اگرآپ میں ،،،،،،، اتنی ہی ہمت ہے نا،، ،، تو آئیں ،،، اور سینے سے لگائیں مجھے۔۔۔جانتی ہوں ۔نہیں آسکتی آپ ؟؟پھر،،،،پھر یہ جھوٹی تسلیاں بھی اپنے پاس رکھیں۔
"
"میری جان!!!!!!!!۱میری جان!!!!!!۱ خدا را بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔سنبھالو خود کو۔ ۔ کوئی نا کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔"
" ہاں نکل ہی آئے گا کوئی رستہ۔۔مگر!! اب میں ہی کوئی راستہ نکالوں گی۔۔۔ سب ٹھیک کر دوں گی میں۔۔۔اللہ حافظ۔"
اس کے لیے سارے راستے بند ہو چکے تھے۔امید کی کوئی کرن اسے دکھائی نہ دی۔اس کی بڑی بہن کے پاس بھی سوائے تسلیوں کے کچھ نہ
تھا۔
بہت تھک چکی تھی وہ۔سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ اس نے موبائل دور پھینکتے ہوئے لمبی سانس لی،ایک بار پھر دیوار کے ساتھ ٹیک لگالی۔اس کے پیشانی پر پسینہ پھیلنے لگا۔۔اس نے اوپر چھت کی طرف دیکھا،، جہاں ایک پنکھا بے مقصد لٹک رہا تھا۔۔ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی۔سانس پھولنے لگی۔ بغیر پیاس کے ہی گلہ خشک ہو نے لگا۔ماتھا پیسنے سے بھیگ گیا۔
اس نے ایک لمبی سانس لی اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔بیڈ کی سائیڈ پر رکھی، میز پر رکھے جگ سے، کانپتے ہاتھوں سے، گلاس میں پانی ڈالا۔گلاس منہ کے ساتھ لگایا ،مگر پھر، بغیر پانی پیے، گلاس جلدی سے فرش پر رکھنے کو جھکی، مگر گلاس، ہاتھ سے چھوٹ کر ٹوٹ چکا، ، اسے اب اپنے دوپٹے کی تلاش تھی، جو پاس ہی سرہانے پر پڑا تھا۔ دوپٹہ ہاتھ میں لیا،آنکھیں بند کی، ایک لمبا سانس لیا۔
اور دروازے کے طرف قدم لینے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" دروازہ کھولو بیٹی! کب سے دستک دیے جا رہی ہوں۔کہاں ہو!! خدارا کوئی تو جواب دو۔"بہت دیر گزر چکی،،، دروازہ پر دستک دیتی ماں کا دل، اب ڈوبا جا رہا تھا۔ماں کی پکار اب چیخوں میں بدل رہی تھی، ، ، ماں کے ہاتھ اب بجلی کی سی تیزی سے دروازے کو پیٹ رہے تھا"خدا کے لیے دروازہ کھولو !!! مت کرو ایسا،، مر جائے گی تمھاری ماں" ۔
لکڑی کے دروازہ پر ممتا کے، پھولوں جیسے نرم ہاتھ پڑتے تو ایسا لگتا، کوئی ہتھوڑے سے دروازہ پر وار کر رہا ہے، ،،سامنے کھڑی ،ممتا کے خوف کے مارے دروازہ زور زور سے چلا رہا تھا۔ممتا کی تڑپ کے سامنے تو، پہاڑ بھی موم ہو کر چشمے اگل دیتے ہیں مگریہاں!!ایک ماں اور بچے کے بیچ ، چٹان سے بھی زیادہ سخت انسان کھڑا تھا۔گھر میں، ماں کی آواز سے زیادہ دروازہ کی چیخیں بلند ہو رہی تھی۔
تڑپتی ماں اور دروازے کی چیخوں سے باپ بیٹا اپنے کمروں سے نکل کے اس کمرے کی طرف بھاگے۔
"کیا امی!!آپ نے تو ڈرا ہی دیا! سو رہی ہو گی وہ!!!۔اور تو کوئی کام ہے نہیں اُس کا۔" دروازہ پر پہنچ کر بیٹے نے، حقارت سے کمرے کی جانب دیکھتے ہوئے ماں کو کہا۔
"وقت دیکھا ہے تم نے!مغرب میں کون سوتا ہے بھلا!!۔"
"پاس کھڑے باپ کا بھی ایک ہاتھ بلند ہوا ، مگر باپ کے ہاتھ کی چوٹ سے دروازہ بے خوف رہا۔
بے اختیار باپ بھی بیٹی کو پکارنے لگا۔
"بیٹی !خدارا کچھ ایسا مت کرنا کہ تمھارا بوڑھا باپ سہہ نہ سکے۔ "
ماں اور دروازے کے شور سے سارے گھر والے تو جاگ اٹھے مگر!! کمرے کے اندر کی خاموشی نہ جاگی۔کمرے کے باہر کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھی۔۔مگر!!بہت دیر ہو چکی تھی۔اب یہ آوازیں بے سود ثابت ہورہی تھی، کیونکہ آوازیں کتنی ہی اونچی کیوں نہ ہوں!! بے جان جسم پر آوازوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اندر کی خاموشی نے سب کو انجانے خوف میں مبتلا کر دیا۔ اس خوف نے سب کی آوازوں کو کم کر کے دروازے کی رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے مجبور کیا۔باپ بیٹا اپنی ساری طاقت سے دروازے کو اندر کو دھکیل رہے تھے ، کہ شاید اندر سے ُبند کنڈی ٹوٹ جائے اور دروازہ کھل جائے۔۔
زُور دار آواز کے ساتھ دروازہ ٹوٹ کر، کمرے کے اندرفرش پر گر چکا تھا۔۔ دروازہ کا کچھ حصہ دیوار کے ساتھ ہی لٹک رہا تھا۔
دروازے کے گرنے سے باپ بیٹا بھی توازن نہ رکھ سکے اور دروازے کے ساتھ اندر کمرے میں جا گرے۔ماں پیچھے چوکھٹ پرہی کھڑی رہ گئی۔ نیچے گرے بیٹے نے پھرتی سے کھڑے ہوتے ہوئے، باپ کو بھی سہارہ دیا۔دونوں نے چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ فرش، بیڈ، صوفہ خالی دیکھ کر باپ بیٹا نے، ایک ساتھ پیچھے پلٹ کر، چوکھٹ عبورکرتی ماں کی طرف، سوالیہ نظروں کے ساتھ دیکھا۔
کہ کمرے میں تو کوئی نہیں ہے۔مگر!!ماں نے الہامی نگاہوں کے ساتھ کمرے میں قدم رکھا۔ماں نے اپنے جسم کے ٹکڑے کو، تلاش کرنے کے لیے،کمرے میں نظریں نہیں گمائیں، کیونکہ وہ ماں جانتی تھی کہ اس کے وجود کاایک حصہ کہاں ہے۔
ماں کی نظریں تواوپر آسمان کی طرف تھی۔اس ماں نے قیامت کا منظر دیکھا۔اس کی بیٹی مر چکی تھی۔ اس کی لاش چھت کے ساتھ لٹک رہی تھی۔
ماں کی نظریں اتنا بڑا بوجھ نہ سہہ سکی۔ماں زمین پر گر چکی۔ ۔زمین پر گری ماں کے ہونٹ سل چکے تھے ،نگاہیں اب بھی چھت پر ٹکی ہو ئی تھی۔ آخر، کئی روز کا سکوت ٹوٹا،اور اس کمرے میں آوازیں بلند ہوئیں۔۔مگر!! ماں تو زمین پر گر چکی تھی،،،گونگی ہو چکی تھی،،پھر ،،یہ آوازیں کس کی تھی؟؟۔اوو اچھا!!!۔ یہ آوازیں توصرف رسمی شور تھا!!! ان لوگوں کاشور!!، جن کی خاموشی کے کارن،، ایک معصوم جان پنکھے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔
۔اب اس کمرے میں! کل تک کے گونگے اندھے لوگ، ، ایک مردہ جسم دیکھ کر، شور کی رسم ادا کر رہے تھے۔کیونکہ !! انسانیت کے کافر ،ایک لاش کی سبھی رسمیں، فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر!! خاکی شیطان کی بھوک سے شروع ہونے والی، کہانی کا اختتام ، انسانوں کی بستی میں، ایک بے گناہ کی موت پر ہوا۔ بغیر پہرے کے، بھوک آزاد ہو جاتی ہے، پر لگ جاتے ہیں اسے!!۔
مرد بے لگام چھوڑ دیا جائے تو وہ خاکی شیطان بن جاتا ہے!!۔ اورپھر!!ہمارے شہر گاؤں، آزاد او ر بے لگام کتوں سے بھر جاتے ہیں۔یہ چاروں طرف پھیل جاتے ہیں۔ یہ آوارہ کتے ہمارے گھروں کے اندر بھی شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔حوس و بھوک کا یہ سارا کھیل، اسی معاشرے اور ہماری آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتا ہے۔ ۔ہم سب بھی اس کھیل میں کئی کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
کبھی تو ہم خودبھی شکاری بن کر ،کسی کا جسم نوچ رہے ہوتے ہیں اور کبھی !! کبھی تماشائی بن کر داد دے رہے ہوتے ہیں ، اور اگر حوس کا شکار ،ہمارا اپنا گھر ہو جائے ،توپھر!! ماتم کر رہے ہوتے ہیں۔۔مگر!،،،،مگر اس کھیل میں، سب سے بھیانک انجام،، اس معصوم جان کا ہوتا ہے ، جسے بیل کے خونی کھیل کی طرح ،آخر میں مار دیا جاتا ہے۔ اور اگر بد قسمتی سے،اُس کی جان بچ بھی جائے نا ، تو پھر!! یہ لوگ ، یہ معاشرہ خود ہی اس سے زندگی چھین لیتا ہے۔ جیسے اس لڑکی کو اپنوں نے، معاشرے نے مار ڈالا تھا۔۔ اس بے حس اور مردہ معاشرے کے لیے فقط اتنا ہی کہ !!!
" انا اللہ وانا الیہ راجعون " ۔۔۔ نہ کہ اس لڑکی کے لیے !!۔۔جو!! خود کشی کے باوجود بھی شہید ہے!!۔۔۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles